DailyNews

No Education or health in Punjab / پنجاب میں تعلیم نا صحت

پنجاب میں تعلیم نا صحت
اورنج ٹرین سب کچھ کھا گئی ۔
تحریر و تحقیق عبدالوارث ساجد

مجھے ہر روز دفتر جانے کے لئے بھاٹی چوک سے گزرناپڑتا ہے۔ میں ہرروز ہی اس چوک سے لاہور کے مختلف علاقوں کی طرف جانے والی بسوں کو دیکھتا ہوں ۔ باوردی ڈرائیور آگے بیٹھا ہوتا ہے مگر بس کے اندر سیٹوں پرکوئی سوار نہیں ہوتا کسی بس میں دو یا تین اور کسی میں توایک بھی مسافر نہیں ہوتا۔ پچھلے کئی سال سے ایسا ہرروز دیکھنے کو ملتا ہے بسیں چلتی ضرور ہیں مگر خالی ہوتی ہیں۔ ان میں سوار کیوں نہیں ہوتے ؟ پھریہ بسیں کن کے لئے چلائی گئی ہیں۔ یہ بسیں عوام کے لئے ہیں تو چنگ چی اور وین میں دھکے کھانے والی لوگ ان میں کیوں نہیں بیٹھتے ۔ ان لا ل بسوں کو ’’سپیڈو بس کہتے ہیں‘‘گزشتہ حکومت نے یہ بسیں کیوں چلائیں ؟ عوام کی سہولت کے لیے یا مال بنانے کے لیے؟۔ ایک دن ایک دلچسپ خبر سے اس سوال کا جواب بھی مل گیا پتاچلاکہ پنجاب حکومت کی جانب سے ایک سال میں سپیڈوبس چلانے کے نام پر ایک ارب اسی کروڑ روپے ضائع کردئیے گئے ہیں۔ 8ماہ سے کھڑی رہنے والی 50سے زائد بسوں کو خالی چلوا کر کمپنی کو رقم ادا کردی گئی فیڈرز روٹ کے نام پر چلائی جانے والی اس سروس سے میٹرو بس سروس کے مسافروں میں بھی اضافہ نہ کیا جاسکا۔ جبکہ ایک سال کی تمام تر کوششوں کے باوجود صرف تیس کروڑ روپے کے قریب آمدنی کی مد میں اکٹھا کرسکی ۔ پنجاب حکومت نے پنجاب میٹرو بس اتھارٹی کے افسروں کو ہنگامی بنیادوں پراسے منافع بخش سسٹم کے بار ے میں الٹی میٹم دیا تاکہ حکومتی نااہلی کو چھپایا جاسکے۔تب معاملہ سمجھ آیا کہ یہ تو گڑ بڑ ہے حکومتی کھیل ہے پیسے کا چکر ہے عوامی منصوبہ تو ضرورہے مگر ہے روپے پیسے کمانے کا۔ عوام کی فلاح کا منصوبہ ہوتا تو بس لوگوں سے بھری نہ ہوتی یا شاید پیسہ کسی منصوبے کے نام پہ ادھر ادھر کرنا تھا وہ سپیڈو بس کے نام پرکردیا گیا۔ کہتے ہیں کہ صاف پانی پراجیکٹ کی طرح پنجاب میٹرو اتھارٹی کے زیر سایہ چلنے والے پراجیکٹ میں عوامی منصوبوں کے نام پر عوام کے پیسوں کو پانی کی طرح ضائع کردیاگیا اور سپیڈو بس سروس کو چلانے والی کمپنی کے ساتھ ایسے معاہدے کیے گئے جس سے سرکاری خزانے کو شدید نقصان ہوتا رہا معلوم ہوا کہ پنجاب میڑو بس اتھارٹی کی جانب سے سپیڈو بس چلانے والی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیا گیا کہ وہ فی بس ساٹھ کلو میٹرکے حساب سے چھوٹی و بڑی سپیڈو بس سروس کا تقریباً150سو روپے فی کلو میٹرکے حساب سے کرایہ ادا کریں گے۔
جہاں تک میٹرو بس کا معاملہ ہے تو وہ بھی اب تک اربوں روپے کی سبسڈی کی وجہ سے چلائی جا رہی ہے ۔ عوام کے خون پسینہ والی کمائی سے ادا ہونے والے ٹیکس نااہل لوگ پانی کی طرف بہاتے رہے ہیں۔ خادم کے نام پر ظالم بنے رہے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان تمام خساروں کاکہیںآڈٹ کرنیو الا نہیں کوئی بھی ایسا شخص جو ان خالی بسوں کو چلتے دیکھ کر یہ ہی پوچھ لے کہ جب سوار نہیں ہے تو خالی بسیں کس لیے چل رہی ہے۔یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ صوبائی حکومتوں میں سابقہ پنجاب حکومت سب سے موثر حکومت تھی اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی کارکردگی دوسرے وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں بہتر نظر آتی رہی تاہم کچھ تنقیدی پہلو بھی ہیں ۔اور سب سے زیادہ تنقید میگا پروجکٹس پر ہوتی ہے جس کا فوکس خاص طور پر لاہورہے۔ اور ان میں سے اہم ترین میگاپراجیکٹ اورنج لائن ٹرین کا ہے یہ حکومت پنجاب کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ۔ سابقہ حکومت پنجاب کا دعویٰ ہے کہ اس پر165ارب روپے خرچ ہوگئے تاہم تصدیق شدہ اعداد وشمار کے مطابق 217ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس منصوبے کی قدر وقیمت ہے کہ دو سو ارب ڈالر اس پرخرچ کردئیے جائیں۔اب تو یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ ایک متنازعہ منصوبہ بن چکا ہے، اگر یہ رقم صحت کے شعبے ہی میں استعمال کر لی جاتی جس کے ضمن میں پورے پنجاب میں بڑی کشیدہ صورت حال نظر آتی ہے۔ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی اور سہولتوں کا فقدان ہے۔سٹی سکین مشینیں نہیں ہیں یا خراب ہیں ۔ کیا یہ مناسب نہ تھا کہ اس دو سو ارب سے زائد رقم کوان غریبوں کے علاج کی سہولتوں کو بہتر بنانے پر استعمال کیا جاتا۔ ان کی تعلیم پر خرچ کیا جاتاْ۔ اس طرح کروڑوں غریبوں کا فائدہ ہوتا اور یہ رقم صرف ایک متنازعہ منصوبے پر منجمد نہ ہوتی۔ آزادانہ ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 13 اضلاع میں1011 بنیادی مراکز صحت میں284بنیادی مراکز ڈاکٹرز کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ ضلع ننکانہ صاحب میں72 فیصد مراکز صحت میں صرف عمارتیں کھڑی ہیں۔ سرگودھا کے127 میں سے51مراکز صحت میں ڈاکٹرز نہیں۔ اوکاڑہ کے 47،جہلم کے 27مراکز صحت میں ڈاکٹرز نہیں 21اضلاع کے ہسپتالوں میں سی ٹی سکین مشینیں موجود نہیں۔ عوام نجی لیبرٹریز سے انتہائی مہنگے سی ٹی کرانے پرمجبور ہیں۔ اضلاع میں ایم ۔ آر۔ آئی کی سہولیات میسر نہیں۔ننکانہ صاحب کے صحافی اعجاز عامر نے بتایا کہ ڈی۔ ایچ۔ کیو ہسپتال ننکانہ صاحب میں مریض بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹرز کی کمی ہے۔ ہسپتال کی 61سیٹوں میں سے صرف 29 پر ڈاکٹر ہیں اور 32 سیٹیں خالی ہیں۔ آرتھو پیڈک سرجن موجود نہیں، سی ٹی سکین کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ سرگودھا سے صحافی اکرم عامر نے بتایا کہ گورنمنٹ ٹیچجنگ ہسپتال میں ہر روز دس سے بارہ ہزار مریض قرب جوار سے علاج کیلئے آتے ہیں۔ اور ان میں اکثریت چیک اپ کے بغیرچلی جاتی ہے۔ 250ڈاکٹرز میں سے اکثر گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں دو کروڑ روپے کی لاگت سے لگائی گئی سٹی سکین مشین اکثر خراب رہتی ہے ہسپتال لیبارٹری مین ٹیسٹوں کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہسپتال میں برن یونٹ نیورو سرجری یونٹ انسداد منشیات یونٹ وغیرہ ابھی تک قائم نہیں کیے گئے۔ سرگودھا کی ایک خاتون مسزنعیم نے بتایا کہ دو دن سے سرجری کے لئے آرہی ہیں انکی کوئی نہیں سنتا اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر موجود ہیں، ہم کہاں جائیں، سابقہ وزیر اعظم جناب نواز شریف تکلیف میں تھے وہ باہر چلے گئے۔ عوام کہاں جائیں؟ لیہ سے محسن ندیم نے بتایا کہ ضلع بننے کے باوجود تحصیل ہسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر نہیں ہوسکی 280بستروں کا ہسپتال ہے ۔ آئی سی یو کے لئے مشینیں خریدی گئیں ہیں۔ لیکن تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں۔اور مشین استعمال نہیں ہوسکی۔ سی ٹی سکین کی سہولت بھی نہیں ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں مریض کو ڈیڑھ سو کلو میٹر دور نشتر ہسپتال ریفر کردیاجاتاہے۔اوکاڑہ کے نمائندے ظفر اقبال نے بتلایا کہ اوکاڑہ کی آبادی تیس لاکھ ہے یہاں دو ہسپتال ہیں۔ صر ف 37 ایم اے اوز۔ اور پندرہ سپیشلٹ انتہائی ناکافی، مریض شکایت کرتے ہیں کہ انہیں ہسپتالوں سے ادویات نہیں مل رہیں۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ فنڈز ناکافی ہیں۔ غریب سسک رہے ہیں۔ ایک جانب دو سو ارب روپے کا منصوبہ دوسری جانب یہ بھیانک صورتِ حال ہے۔ یہ پنجاب کے اضلاع کی درد ناک کہانی ہے۔ اگر دو سو ارب میں سے صرف دو ارب نکال لیں تو سی ٹی سکین مشین حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک بے سمت قسم کا نظامِ حکومت تھا۔ ہم ایشین ٹائیگر کیوں نہیں بنے۔ ہمارے ساتھ کے لوگ کہاں پہنچ گئے۔ یہ تو تھا پنجاب میں صحت کی سہولیات کا احوال اگر صحت کے بعد تعلیم کی بات کریں۔ تو تعلیم کے متعلق خودسابقہ حکومت پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 24ملین بچے سکول نہیں جاتے۔50.8ملین بچے 5سے 16سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ ان میں سے 47 فی صد بچے تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ یہ اعداد و شمار Pakistan Education Statiistics کی15۔2014 کی رپورٹ میں بیان کیے گئے ہیں تب پاکستان کے وزیراعظم جناب نواز شریف تھے جن کا سارا زور سڑکیں بنانے پر رہتا تھا اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب خادم اعلیٰ جو تھے جنہوں نے میٹروبس اور اورنج ٹرین کے نام پر سب کچھ لُٹا دیا۔سکول جانے کی عمر کے حامل 50.8 ملین بچوں میں سے جو 24ملین بچے سکول نہیں جاتے ان میں سے لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے جو کہ 12.8 ملین ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سکول نہ جانے والے لڑکوں کی تعداد 11.2 ملین ہے ۔ پرائمری سکول میں داخلہ لینے والے بچوں میں سے69 فی صد بچے پانچ سال کے بعد سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے حکومت کے زیر انتظام چلنے والے 25 فی صد پرائمری سکول صرف ایک ایک ٹیچر کے ذریعے چلائے جارہے ہیں۔ 18 فی صد سکول صرف ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ 9فی صد سکولوں کے پاس عمارت سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ تعلیم کا حال ہے اور اسکولز کی حالت زار جہاں بلڈنگ ہیں وہاں کتب نہیں جہاں کتابیں ہیں وہاں استاد نہیں 2017 کے سال سرکاری سکولوں میں درسی کتب کی عدم فراہمی کا حال یہ رہا کہ نئے تعلیمی سال کی کلاسز کے آغاز کے باوجود سرکاری سکولوں میں پہلی سے دسویں جماعت تک کا مکمل اردو میڈیم کورس فراہم نہیں کیا جاسکا۔ پنجاب حکومت نے پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب پروگرام کے تحت مارچ 2018 تک صوبے میں100 فی صد لڑیسی ریٹ کے حصول کے لئے سرکاری سکولوں میں28لاکھ طلبہ کی انرولمنٹ کا ہدف مقرر کیا تھا۔ مگر حکومت کی تعلیم بے زار پالیسوں کی وجہ سے یہ شعبہ مسلسل تنزلی کا شکار رہا۔ اور تمام تر حکومتی دعوؤں کے باوجود صوبے میں ابھی تک دو کروڑ 26لاکھ بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ ماہرین تعلیم اہداف کے حصول میں ناکامی کی بڑی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور افسر شاہی کی من مانیوں کو قرار دیتے ہیں۔ حکومت کی تساہل پسندی کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ حکومت ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود بھی بچوں کو بروقت درسی کتب کی فراہمی میں ناکام رہی گذشتہ برس پنجاب ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ حکومت کی بے وقت درس کتب کی عدم فراہمی سے 100 فی صد انرولمنٹ کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق 70ہزار بچے سکول چھوڑ گئے تھے۔گوجرانوالہ ڈویژن میں 115 ہائی سکولوں میں فرنیچر ٹو ٹ پھوٹ کا شکا رر ہے اور ہزاروں طلبہ کرسیاں نہ ہونے پر کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ سیکرٹری تعلیم کو ہائی سکولوں میں فرنیچر کی فراہمی کے لئے گیارہ کروڑ پانچ لاکھ کی تخمینہ رپورٹ ارسال کی گئی تھی۔ لیکن فنڈز منظور نہیں ہوئے۔ ضلع بھرمیں مجموعی طور پر284ہائی سکول ہیں۔ جن میں سے118 سکولوں میں فرنیچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سکول سربراہان کی جانب سے محکمہ تعلیم کے افسران کو فرنیچر کی خرید اری کے لئے رپورٹ ارسال کی گئی دوسری طرف داخلہ مہم کے حوالے سے بھی سکول سربراہان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ شہر کے سکولوں میں تو فرنیچر کی کمی ہے جبکہ دور دراز علاقوں میں قائم ہائی سکولوں میں فرنیچر کے ساتھ ساتھ پانی، گلاس ، رومز باؤنڈری وال سمیت دیگر سہولیات کابھی فقدان فندز کی منظوری کہاں سے ملے خادم اعلیٰ نے تمام محکموں کی فنڈ تو اورنج ٹرین کی بھٹی میں جھونک دئیے۔ تعلیم ترجیح ہوتی تو سب سے پہلے بجٹ میں مختص فنڈ تعلیم پر لگتا۔ نہ کہ تعلیم وصحت سمیت دوسرے سارے فنڈز بھی اورنج ٹرین ہڑپ کر جاتی۔ جب صورتحال یہ ہوگئی کہ تعلیمی فنڈ ہی نہ ہوئے تو تعلیمی سرگرمیاں کیا خاک ہوتی صورتحال یہ ہوگئی کہ وزیراعلیٰ علمی، ادبی مقابلے ناقص منصوبہ بندی اور انتظامیہ کی عدم دلچسپی کی بھینٹ چڑھ گئے تعلیمی اداروں میں جاری مقابلہ جات میں کالج سربراہان کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہی جبکہ تقاریر ، مباحثہ اور مضمون نویسی کے متعدد مقابلوں میں طلباء کی تعداد ابتدائی تین پوزیشنوں پر نامزدگی کیلئے بھی ناکافی رہی۔ ضلعی سطح پر فیصل آبادکے مقابلہ جات میں مہمان خصوصی ، صدر مجلس ، اور جز سمیت حوصلہ افزائی کرنے والوں کا خلاعلمی وادبی مقابلہ جات کے منتظمین کو منہ چڑاتا رہا۔ کالج پرنسپلز نے امتحانات کی تیاری متاثر ہونے کے ڈر سے زیادہ طلبہ کو مقابلوں میں لے جانے سے منع کیا جبکہ اچانک اور ہنگامی طور پر علمی و ادبی پروگرامز کے انعقاد کی وجہ سے طلباء و طالبات کی اکثریت دئیے گئے موضوعات کی تیاری بھی نہیں کر پائی۔ ناقص منصوبہ بندی اور حقائق کے برعکس اپنائی گئی حکمت عملی کی وجہ سے یہ مقابلے طلباء اور طالبات میں جوش و جذبہ اور ادبی رحجان کو پروان چڑھانے کے بجائے الٹا بوجھ بن کر رہ گئے۔ بالخصوص چھوٹے اور مرکز سے دور اضلاع میں تینو ں کیٹگریز کی ابتدائی تین پوزیشنیں دینے کے لئے بھی طلباء کی تعداد ناکافی رہی۔جبکہ مہمان خصوصی مقابلہ جا ت کی صدارت اور فیصلہ کرنے والے ججز(اساتذہ ) کی عدم موجودگی یا کم تعداد کی وجہ سے مقابلو ں میں حصہ لینے والے شرکاء بھی بددلی کا شکا رہوئے۔ اساتذہ اور طلباء طالبات کے ساتھ ساتھ پرنسپل بھی وقت کے انتخاب اور اچانک جاری کیے گئے شیڈول سے خوش نہیں تھے یہ صورتحال بتاتی ہے کہ گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی ترحجات میں تعلیم اورصحت میں سے کچھ نا تھا۔اور تو اور اس حکومت نے زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی نا بخشا شہبازشریف نے قبرستانوں کے فنڈز بھی اورنج ٹرین کے لئے وقف کر دیے، صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے ناکافی فنڈز جاری ہونے کے باعث پنجاب کی 27 ضلعی حکومتوں کو قبرستانوں کی بحالی و تعمیر کے لئے فنڈز جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیاگیا ۔ضلعی حکومتوں کے لئے سالانہ بجٹ سے قبرستانوں کی بحالی کی سکیموں کے لئے مختص 16 کروڑ 10 لاکھ روپے کے فنڈ جاری کیے گئے ۔ قبل ازیں سالانہ ایک ارب جاری کئے جارہے تھے۔ تاہم اورنج ٹرین منصوبہ کے باعث گزشتہ مالی سال میںیہ فنڈز جاری نہیں کیے گئے۔ اس سے قبل بھی پنجاب حکومت دیگر درجنوں ترقیاتی وغیر ترقیاتی منصوبوں کے لئے مختص فندز روک کر اورنج لائن کے لئے مختص کرتی رہی ہے جو اپنی جگہ باعث تعجب ہے۔ قبرستانوں کی صورتحال تو پہلے ہی مخدوش ہے، جونئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں ان میں بھی قبرستان کے لئے برائے نام جگہ چھوڑی جاتی ہے اور بعد میں اس جگہ کا بڑا حصہ رہائشی یا کمرشل پلاٹ بنا کر فروخت کردیا جاتا ہے۔ کہ وہاں قبروں کے درمیان سے گزرنے کا بھی راستہ نہیں۔ بیشتر قبرستانوں کی چار دیواری بھی نہیں اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث ان میںآوارہ جانوروں کی گزرگاہ اور نشےؤں کے محفوظ اڈے بن چکے ہیں۔ غربت کی یہ صورت ھال ہے کہ غریب آدمی کے پاس دفنانے کے لے رقم نہیں ہوتی، اگر اسے میت دفنانے کے لئے جگہ بھی نہ ملے تو وہ کہاں جائے اس صورت حال میں قبرستانون کے لئے فنڈز بڑھائے جانے کی ضرورت تھی نہ کہ انہیں روک لیا جاتا۔ ضلعی حکومتوں کے قیام کے بعد تو توقع کی جاری تھی کہ اس طرح کے بنیادی مسائل عوام کی دہلیز پر اور بآسانی حل ہو جایا کریں گے۔ لیکن فنڈز روکنے کے اس فیصلے کے بعد یہ امید بر آتی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ درست ہے کہ اورنج ٹرین کی تکمیل سے لاکھوں عوام کو فائدہ پہنچے گا لیکن اس کے لئے فنڈز مخصوص کرنیکا یہ طریقہ کار بالکل درست نہیں۔ اگر فنڈز موجود نہ تھے تو پھر یہ منصوبہ شروع ہی نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔

Picture of the day  29/12/2018    Shop opening ceremony in Sir sooba shah bazaar

Show More

Related Articles

Back to top button