DailyNews

اے قاضی وقت آنکھیں کھول! تحریر:۔ ملک شفقت اللہ

جھنگ ایک قدیمی شہر ہے اور اسے آغاز سے ہی تعلیمی اور شعوری فقدان کا سامنا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی عوام جو مل جائے اسے غنیمت جانتے ہیں اور اپنے حق سے بالکل نا آشنا ہیں ۔ جھنگ میں کچھ ڈگری کالجز مر دو خواتین ، کچھ یونیورسٹی کیمپس اور ٹیکنالوجی کالجز کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم کیلئے جھنگ ایجو کیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام چناب کالج جھنگ بھی کوشاں ہے ۔ یہاں سے ہر سال طلبا ء و طالبات میٹرک اور انٹر میڈایٹ کے امتحان پاس کر کے نکلتے ہیں اور ملک و قوم کی خدمت کیلئے آگے سرمایا بن کر سامنے آتے ہیں ۔ کئی طلباء و طالبات آج پاک آرمی ، سروسز کمیشنز ، شعبہ صحت اور انجینئرنگ وغیرہ کیلئے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ چناب کالج جھنگ جسے معیاری تعلیم کا لائسنس سمجھا جاتا ہے وہاں کا پرنسپل زاہد خورشید لودھی آج بھی اس ادارے کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کے ملازمین کو اپنی ذاتی رعایا ۔ اور اس میں کام کرنے والے لوگ بھی اپنی وراثتی غلامی کا شکار ذہنیت کے مالک ہیں ۔ ان کی سوچ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس سے آگے نہیں بڑھ پائی کہ پیٹ کیلئے کچھ کرنا ہے ۔ اگر یوں کہہ لیا جائے چناب کالج جھنگ میں ملازمت پیشہ افراد چاہے وہ ٹیچنگ فیکلٹی سے ہیں ، درجہ چہارم ہیں یا کلیرکل سٹاف ہے ان کے نزدیک اگر کوئی بہت بڑا معرکہ سر کرنا ہے تو وہ ہے اپنا پیٹ پالنا فقط۔۔۔ اس وقت مزدور کی مزدوری بھی سات سو یومیہ سے زائد ہے اس اعتبار سے ایک مزدور بھی کم از کم ایک ماہ میں بیس ہزار کما رہا ہے اور حکومت پاکستان کے جاری کردہ پے سکیلز کے مطابق کم سے کم اجرت پندرہ ہزار مقرر کی گئی ہے ۔ لیکن چناب کالج میں اپنی وڈیرہ شاہی ہے ، یہاں پر آج بھی لوگ سات ہزار تک تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور اس کے ایوض انہیں آٹھ گھنٹے سے زائد کام کرنا پڑتا ہے ۔ دوسری جانب ٹیچرز کو سکیل تو باقی ٹیچرز کے حساب سے دیا جا رہا ہے لیکن ان کی تنخواہ ان کے برابر نہیں اور ان لوگوں کی محنت و عظمت کو میں اس حوالے سے سلام پیش کرتا ہوں کہ اسی چناب کالج کے طلباء ہر سال بورڈ میں پوزیشنز نکالتے ہیں ، لیکن ان کی ذہنی غلامی پر افسوس بھی کروں گا کہ وہ اپنے حق کیلئے ڈٹ نہیں سکتے ۔ اپنا حق مانگ نہیں سکتے ، اور کلیرکل سٹاف کے تو کیا ہی کہنے ہیں ، جانے کیوں وہ اس ملازمت کو غنیمت جانتے ہیں ؟ اور کبھی بھی ناحق بات پر کالج کے مہتمم کے خلاف جھنگ ایجو کیشن ٹرسٹ میں اپنی بات نہیں کرتے۔ ایک ہوا یہ بھی ان کے درمیان پائی جاتی ہے کہ افسران افسران کے دوست ہوتے ہیں ۔ چونکہ جھنگ ایجوکیشن ٹرسٹ کا چیئرمین حاضر ڈیوٹی ڈی سی ہوتا ہے اور تمام تر انتظامات اس کی زیر نگرانی چلتے ہیں اور وہ شہر میں بیٹھتا ہے نہ کہ کالج میں اسی لئے ان ملازمین میں شروع سے ہی پروٹوکول کی پھونک بھر دی جاتی ہے کہ کوئی ڈی سی کے پاس جا ہی نہ سکے۔ وڈیرہ شاہ زاہد خورشید لودھی صاحب نے اپنی جڑیں اس قدر مضبوط کر رکھی ہیں کہ اگر کوئی شخص جھنگ ایجوکیشن ٹرسٹ کے چئیر مین تک اپنی بات پہنچانا بھی چاہے تو اسے ڈی سی سے ملنے ہی نہیں دیا جاتا ۔ اور وہ جب چاہے کسی کے خلاف بھی انکوائری بنا کے اپنی مرضی کی رپورٹیں بنواتا ہے اور اسے کالج سے نکال دیتا ہے ۔ یہ اس کی سفاکیت ہے کہ وہ اپنے راستے کے تمام پتھروں کو ہٹا کر اپنی بادشاہت قائم رکھنے کا ہنر جانتا ہے اور یہی یہاں کی عوامی سوچ ہے کہ وہ بڑا اچھا لیڈر ہے جو سفاک ہو ۔یہاں میرا سوال ہے کہ وفاقی و صوبائی سطح پر طے شدہ تنخواہوں کی شرح چناب کالج کے ملازمین کیلئے نہیں ہے کہ جس میں پرنسپل تو خود سوا لاکھ کم و بیش تنخواہ لے رہا ہے لیکن درجہ چہارم اور کمپیوٹر آپریٹرز کی تنخواہ آج بھی ایک مزدور کی آمدن سے کم ہے؟ ایک بڑی شاہی یہ بھی ہے کہ شہنشاہ عالی زاہد خورشید لودھی جب چاہیں ملازمین کو روک لیتے ہیں اور ان سے کئی کئی گھنٹے ڈیوٹی ٹائمنگ سے زیادہ کام لیتے ہیں جس کے بدلے میں ملازمین کو کچھ بھی نہیں ملتا ، شاباش بھی نہیں حالانکہ اوور ٹائم ان کا حق بنتا ہے ! ظلم کی یہ داستان رقم کی جارہی ہے ادارے میں جہاں لوگوں کے ساتھ گدھوں سے بد ترین سلوک کیا جاتا ہے ۔ اور کالج کی ٹائمنگ ملازمین کیلئے تو کسی عذاب سے کم نہیں ، میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کتنے ہی ملازمین صبح کے کھانے کے بغیر ہی کالج پہنچتے ہیں جو تین بجے تک وہاں گدھے کی طرح کام کرتے ہیں ۔یہ آرڈر پرنسپل بغیر لکھت جاری کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ لیبر ایکٹ کے تحت اسے اوور ٹائم فیس ملازمین کو ادا کرنا پڑے گی اور اگر کوئی ملازم اس پر آواز اٹھانے کی جسارت کرے بھی تو اس کے خلاف پھر وہ اپنے شاہی ہتھکنڈے آزماتا ہے اور کالج سے نکال باہر پھینکتا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ایک ادارہ جو ٹرسٹ پر چل رہا ہے اس کو کالج میں سوئمنگ پو ل جیسی چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی مثال سیکرڈ ہارڈ ہمارے سامنے ہے جو شاید اس سے بھی پرانا سکول ہے اور ٹرسٹی ہے لیکن وہاں ایسی چیزیں نہیں بنائیں جاتی! وہاں پر گلوکاروں کو بلا کر رات رات بھر لڑکوں اور لڑکیوں کو جمع کر کے ایسے پروگرام بھی منعقد نہیں کروائے جاتے! گزشتہ سال جب سبھی اداروں کی تنخواہیں بڑھائیں گئیں تھیں تو عالی جناب زاہد خورشید لودھی نے ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے سے روک دیا وجہ بتائی کہ سوئمنگ پول بنا رہے ہیں۔ ملازمین نے ڈی سی جھنگ مدثر ریاض کو درخواست گزاری تو تنخواہیں بڑھا دی گئیں ،اور اس بار بھی ابھی تک بڑھی ہوئیں تنخواہیں نہیں دیں گئی ، تین ماہ کی بڑھی ہوئی رقم نیچے رکھ کے اکتوبر میں اعلامیہ دیا گیا ہے تنخواہیں بڑھائی جائیں گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے سال ہی نئی بسوں کی خریداری کی مد میں فیسوں میں اضافہ کیا گیا لیکن بسیں نہیں خریدی گئیں اور اب دوبارہ اسی مد میں فیسوں کے بڑھائے جانے کا امکان ہے، یہ ٹرسٹی ادارہ بنایا تو غریب بچوں کی قابلیت کو سنوارنے اور انہیں آگے بڑھنے کا موقع دینے کیلئے تھا لیکن کس غریب کے بچے یہاں ہیں سوائے یہاں کے ملازمین کے۔ ان ملازمین میں بھی پچاس ہزار ماہانہ تنخواہ لینے والوں اور درجہ چہارم والے بچوں کیلئے ایک ہی رویہ ہے کہ وہ مفت پڑھتے ہیں ۔ جبکہ عوام الناس کو کوئی موقع نہیں دیا جاتا ! ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سرکاری ایونٹس پر بھی ٹرسٹی ادارے کے بچوں کا پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔اس سارے جائزے کے بعد یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ چناب کالج کو ان لوگوں نے سونے کی چڑیا سمجھ رکھاہے ۔ میری قاضی وقت سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ چناب کالج میں ہونے والی بے ضابطگیوں کا از خود نوٹس لیں ، زاہد خورشید لودھی کے دور میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے ان کی تحقیقات کروائیں کیوں چار کروڑ روپے کا سوئمنگ پول بننا ہضم نہیں ہوتا ، ملازمین کی تنخواہیں ان کے پے سکیل کے مطابق کی جائیں ، ہر جگہ کمپیوٹر آپریٹرز کا پے سکیل کم سے کم 12 ہے ان کا سکیل بڑھایا جائے اور اس کے مطابق تنخواہیں دی جائیں ، درجہ چہارم کی تنخواہوں میں بھی بنیادی پے سکیل کے مطابق اضافہ کیا جائے ، اساتذہ کی محنتوں کا پھل انہیں پورا پورا دیا جائے، اگر کام کیلئے وقت کے بعد روکا جاتا ہے تو اوور ٹائم ادا کیا جائے ، جو پرافٹ ادارہ ہر سال کماتا ہے اس کا فائدہ عوام اور سٹاف ممبران کو دیا جائے نہ کہ وزیر اعظموں اور سرکاری پروٹوکولز پر خرچ کیا جائے۔ چونکہ ادارہ ٹرسٹی ہے اسی لئے اس میں جو گاڑیوں کی مد میں چئیرمین اور پرنسپل کو پروٹوکول دیا گیا ہے اسے ختم کیا جائے ۔ یہ سر ا سر نا انصافی ہے کہ غریب کی گردن پر پاؤں رکھ کر خود اپنے ایمپائر کھڑے کئے جائیں ۔ 

Show More

Related Articles

Back to top button