DailyNews

یہ فیصلہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں,تحریر عبدالجبار خان دریشک

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد روس کو سنبھالنے میں کئی سال لگے،اب روس کی حالت ویسی نہیں رہی جو آج سے بیس تیس سال قبل تھی روس امریکا کے مقابلے دوبارہ طاقت بن کر ابھر رہا ہے امریکا کے مقابلے روس اتنی بڑی معاشی طاقت تو نہیں البتہ روس امریکا کا دفاعی و خلائی ٹیکنالوجی اور خفیہ سروس میں ضرور مقابلہ کرتا ہے۔ 

سرد جنگ کے دور میں روس نے اپنی خفیہ سروس کی ایجنسی” کے جی بی ” کے ذریعہ امریکا کے اہم راز حاصل کیے جن میں ” کے جی بی ” کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے امریکا کے مین ہٹن پراجیکٹ جس سے امریکا کو ایٹم بم حاصل ہوا ” کے جی بی ” نے اس ایٹم بم کے راز کو چوری کر لیا، جس کی وجہ سے روس اس وقت کی سوویت یونین نے ایٹم بم بنا کر امریکا سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس کے علاوہ ” کے جی بی ” کے ایجنٹوں نے امریکا کی کئی اہم ایجادات کے راز اور فارمولے سوویت یونین منتقل کیے جس میں جیٹ انجن، ریڈار، میزائل ٹیکنالوجی وغیرہ شامل ہیں” کے جی بی ” کی ان پے در پے خفیہ کاروائیوں سے امریکی تنگ آ گئے اور ہر امریکی دوسرے امریکی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا کہ کہیں وہ ” کے جی بی ” کا ایجنٹ تو نہیں اسی ڈر کو امریکا میں سرخ ڈر Red Scare کا نام دیا گیا۔

امریکا سوویت یونین کو اس کا جواب اور تو نہ دیے سکا لیکن اپنا سر اونچا رکھنے کی خاطر 1965 کے ایک ناول سے جیمز باونڈ 007 کی فلمیں تخلیق کر کے دنیا میں یہ تاثر دیتا رہا کہ امریکا کی خفیہ سروس دنیا میں نمبر ون ہے جو روس جیسے بڑے دشمن کے اہم راز چوری کر کے لا رہے ہیں۔ 

خیر امریکا کی سی آئی اے بھی کچھ کم نہیں تھی کے جی بی کے مقابلے امریکی سی آئی اے نے بھی سوویت یونین کے کونے کونے میں اپنے ایجنٹ چھوڑ رکھے سوویت یونین کو توڑنے میں سی آئی اے کا بہت بڑا کردار ہے۔ 

سوویت یونین نے اپنے جاسوس پوری دنیا میں پھیلا رکھے تھے جن میں خاص کر برطانیہ بھی شامل تھا۔ سوویت یونین کی اس خفیہ ایجنسی ” کے جی بی ” نے خود برطانوی انٹیلی جینس میں اپنے جاسوس شامل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی بلکہ ” کے جی بی ” نے برطانوی انٹیلی جینس میں ” کے جی بی ” کی روک تھام اور ایجنٹوں کا پتہ چلانے والے شعبے کے سربراہ کو بھی اپنا ایجنٹ بنا لیا۔ اب برطانیہ کو اس سربراہ پر شک ہوا کہ یہ شخص کے جی بی کا ایجنٹ ہے لیکن انہیں کوئی ثبوت نہیں مل رہے تھے۔ 

برطانیہ اپنے اس ملازم کے جاسوس ہونے کا پتہ چلانے کے لیے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی مدد لی، سی آئی اے اس وقت ” کے جی بی ” کے تمام ایجنٹوں کے بارے معلومات جمع کرتی تھی سی آئی اے نے اس ملازم کا برطانیہ سے تمام ریکارڈ طلب کیا وہ جس جس ملک میں جاتا رہا اسی اسی وقت میں کے جی بی کا ایجینٹ بھی اسی ملک جاتا تھا۔ اس تمام تر معلامات کا جائز لینے کے بعد ثابت ہو گیا کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کے شعبہ کا سربراہ کے جی بی کا ایجنٹ ہے۔ 

یقیناً یہ بات برطانیہ کے لیے حیرانی اور پریشانی والی تھی تو برطانیہ نے بھی اپنے جاسوسی کے نیٹ ورک کے دائرے کو بڑھایا اور وہاں اپنے ایجنٹ بنانے میں کامیاب رہا حال ہی میں ایک برطانوی ایجنٹ سرگئی پر روس نے کیمکل حملہ کروایا سرگئی روسی فوج میں کرنل کے عہدے پر رہا ہے اور ایم آئی 6 کا جاسوس بھی ۔ 

بات روس اور امریکا کے مقابلے کی ہورہی ہے تو روس اس وقت مضبوط ہورہا ہے وہ امریکا کے اتحادیوں کو اپنا اتحادی بنانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ جبکہ امریکا کے دشمن اور مخالفین کے ساتھ تو اس کی کچھ زیادہ ہی ہمدردیاں ہیں۔ روس اس وقت دفاعی نظام کو مزید بہتر بنا رہا ہے آئے دن کسی نہ کسی جنگی ہتھیاروں کا تجربہ کرتا رہتا ہے۔ روس نے ایک ایسا ہوائی جہاز بنا لیا ہے جو سمندر کے پانی کے اوپر تیرتے ہوئے اڑن بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ روسی جہاز جس کو BE -200 کہا جاتا ہے یہ جہاز خصوصی طور پر آگ بجھانے اور امدادی سرگرمیوں کے لیے بنایا گیا ہے۔

اس جہاز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ پانی پر لینڈ اور پانی سے ہی ٹیک آف کر سکتا ہے۔ جبکہ روس نے امریکا اور چلی کو اس کے دو دو یونٹس بھی فروخت کیے ہیں۔ اس طیارہ کو مزید سمندری گشت، کارگو، اور مسافروں کئ نقل و حمل کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس طیارے میں 12،000 لیٹر پانی یا 72 مسافر لے جانے کی گنجائش ہے۔

روس کی امریکا کے مقابلے ایک اور کامیابی یہ ہے کہ روس سعودی عرب کو آہستہ آہستہ اپنے قریب لا رہا ہے تازہ صورت حال یہ ہے کہ سعودی حکومت نے روس کے ساتھ مشترکا طور پر خلائی تحقیقات کرنے کی منظوری دے دی ہے شاہ سلمان بن عبد العزیز کے فرمان پر حکومت نے روس کے ساتھ مل کر خلائی تحقیقات اور امن مقاصد کے لیے سائنس کے شعبے میں مل کر تحقیقات کرنے کا معاہدہ طے کر لیا ہے سعودی عرب کی حکومت کے وزیر برائے توانائی، صنعت اور معدنیات نے گذشتہ روز روس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ سعودی کے علاوہ روس نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ 2017 سے خلائی مشن کا آغاز کر دیا ہے، متحدہ عرب امارات کے روس کے ساتھ معاہدے کے تحت خلائی پروگرام کے لیے 2 خلا بازوں کے نام دیے گئے جن کو خلائی مشن پر مریخ کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ 

دوسری طرف امریکا بھی خلائی فورس بنانے کا اعلان کر چکا ہے۔ جبکہ موجودہ معاہدہ روس کا سعودی عرب کے ساتھ ہونے سے امریکا کو ضرور تکلیف ہو گی، جس کی وجہ روس کے ایران کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اور شاید کبھی روس، سعودی عرب اور ایران کو مذکرات کے لیے آمنے سامنے بیٹھا دیے۔ روس اپنی کوشش میں لگا ہوا ہے اور امریکا اپنی کوشش میں تو جیت کس کی ہوتی ہے یہ فیصلہ مستقبل پر چھوڑتے ہیں۔

Show More

Related Articles

Back to top button