DailyNews

ملکانی بی بی کا انتقال,چک بیلی خان سے مسعود جیلانی

زندہ حالت میں اپنے قتل کے مقدمہ میں چھ افراد کو جیل بھیجنے والی چک بیلی خان کے علاقے کا مشہور کردار ملکانی بی بی آخر کار حقیقی معنوں میں انتقال کر گئی کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی فوت ہو جائے توزندگی میں اس کے اچھے کاموں کو یاد کیا جانا چاہئے اور اس کے برے کاموں پر پردہ ڈال دینا چاہئے لیکن بعض لوگوں کے کئے کچھ کام ایسے ہیں چاہے وہ اچھے نہ ہوں لوگ ان سے سبق سیکھنے کے لئے انھیں ضرور دہراتے ہیں ملکانی بی بی کی زندگی سے وابستہ کہانی بھی ایسے واقعات سے ملتی جلتی ہے 1996میں ملکانی بی بی لا پتہ ہو گئی مورخہ02-12-1996کو لا پتہ ملکانی کے اغوأ کا مقدمہ نمبر711 سول لائن تھانہ راولپنڈی میں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے مخالفین ملک امیر خان ساکن رنوترہ اور ملک محمد تاج سابق چئیر مین یونین کونسل رائیکا میرا سمیت چھ افراد کے خلاف در ج کر لیا گیا یہ لوگ تین سال تک جیل میں رہے تھانہ ڈھڈیال کے علاقے سے ایک جلی ہوئی لاش برآمد ہوئی جسے ملکانی قرار دیا گیا ملکانی کے ورثا نے لاش کو شناخت بھی کیا اسے ملکانی قرار دے کر موضع لڈوہ میں دفن بھی کر دیا گیا اس کے لئے قل درود بھی پڑھے گئے لیکن 31-05-2001کو ملنے والی لاش کو 20/25سالہ کنواری لڑکی قرار دئیے جانے کی میڈیکل رپورٹ پر تمام ملزمان کو بری کر دیا گیاملک امیر خان اور اس کے ساتھیوں کو عدالت نے تو بری کر دیا لیکن لمبی مونچھوں اور دراز قد شخصیت کے حامل ہونے کی وجہ سے لوگ ملک امیر خان کو قاتل اور اغواکار تصور کر رہے تھے ملک امیر خان لوگوں کی نظروں میں بے گناہ ہونا چاہتا تھا اور اپنی عزت کی بحالی چاہتا تھا چنانچہ اس نے ملکانی بی بی کی ماں سے رابطہ کر کے اس سے اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا شکوہ کیا ملکانی کی والدہ نے امیر خان کو بتایا کہ اغوا ہونے والے دن ملکانی بی بی چوہدری نثار علی خان کے ایک رشتہ دار سابق ایم پی اے سردار محمد اقبال اور ایک ن لیگی کے ساتھ پاپین بنگلہ جانے کے لئے گئی تھی پھر واپس نہ آئی ملک امیر خان داد رسی کے لئے جناب چوہدری نثار علی خان کے پاس گئے اور ملاقات کی اجازت مانگی چوہدری نثار علی خان نے بھرے جلسہ میں ان پر جملہ کس دیا کہ لوگ مجھے یہاں ملنے آتے ہیں لیکن میں عورتوں کو اغوا کرنے والوں کو نہیں ملنا چاہتا اس طرح انھوں نے ملک امیر خان کی داد رسی کی بجائے ان کے اغوا کار اور قاتل ہونے پر مہر لگا دی جب چوہدری نثار علی خان کی عدالت سے انصاف نہ ملا تو شاید رحمتِ خداوندی جوش میں آ ئی تو اس نے انصاف کا دروازہ کھولا اور2006ء میں ملکانی بی بی گجرات کے علاقے کے ایک تھانے میں چوری کے مقدمے میں گرفتار ہو گئی معاملہ کھل گیا ملکانی کو پہلے دار الامان منتقل کیا گیا پھر ورثا کے حوالے کر دیا گیا ملک امیر خان لوگوں کی نظروں میں سرخرو ہو گیا لیکن مالی طور پر جو پہلے ایک بڑا ٹرانسپورٹر اور زمیندار تھا تمام بسیں اور اپنی زمینیں بیچ کر ساتھیوں سمیت کنگال ہو کر رہ گیا اخبارات میں خبریں چھپنے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستا ن نے از خود نوٹس لے کر سیشن عدالت راولپنڈی کو معاملہ دیکھنے کے احکامات دے دئیے ملک امیر خان نے ہرجانے کا دعویٰ کیا توعدالت نے ملکانی بی بی سمیت 24افراد پر 24لاکھ روپے ہرجانے کی ڈگری کر دی اور 14مئی کو سول جج راولپنڈی نجیب اللہ خان کی عدالت سے ملکانی بی بی کی گرفتاری کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دئیے لیکن وارنٹ نکلنے کے تین دن بعد ملکانی بی بی حقیقی معنوں میں انتقال کر گئی اور اس کی 17مئی صبح 10بجے آبائی گاؤں لڈوہ نزد چک بیلی خان میں تدفین کر دی گئی اب ملکانی بی بی کا دنیا سے کوئی واسطہ نہیں وہ اخروری دنیا میں چلی گئی ہے اب وہاں اس کا حساب و کتا ب ہونا ہے یقیناً اس کے ورثا نے جنازہ کے وقت کہا ہو گا کہ ملکانی بی بی نے اگر زندگی میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو وہ اسے معاف کر دے اور اگر اس کا کسی سے لینا دینا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں میری ان دو جملوں کے متعلق ملک امیر خان سے بات ہوئی ہے تو انھوں نے کہا کہ مجھ سے تو کسی نے معافی نہیں مانگی اور نہ کوئی ایسا ذکر کیا ،نہ ہی میں نے ابھی تک اس کو معاف نہیں کیا لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ملک امیر خان کے بقول اور عدالتی فیصلے کے مطابق24افراد تو سزاوار قرار دئیے جا چکے ہیں ان میں سے جو زندہ ہیں وہ خود اور جو ملکانی بی بی کی طرح فوت ہو گئے ان کے ورثا ان کے علاوہ جو سیاسی لوگ جن کے نام گردش کر رہے ہیں اگر ان کا کوئی ایسا کردار ہے تو انھیں چاہئیے کہ ملک امیر خان، سابق چیئر مین ملک محمد تاج اور دیگر متاثرین سے معافی مانگیں میں جناب چوہدری نثار علی خان صاحب سے بطور خاص کہوں گا کہ اس معاملہ میں آپ کا کوئی کردار ہو یا نہ ہو بطورِ حاکم وقت یہ زیادتی آپ کے ہوتے ہوئے ہوئی ہے اور آپ کے لوگوں کی سرپرستی کے نام لئے جا رہے ہیں لہٰذا آپ بطورِ خاص اللہ تعالیٰ سے اور اس سے پہلے ان متاثرین سے معافی مانگیں کیونکہ حاکم کو ان معاملات میں زیادہ جواب دہ ہونا پڑے گا

Show More

Related Articles

Back to top button