DailyNewsGujarKhanHeadlinePothwar.com

Gujar Khan; Upcoming General Elections and PML-N Tehsil Gujar Khan Internal Anarchy, Analysis: Saghir Ahmad Chaudhry

آنے والے عام انتخابات اور مسلم لیگ ن تحصیل گوجرخان کا داخلی انتشار,تجزیہ: صغیر احمد چوہدری

دولتالہ,گوجر خان:(نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم ,محمد نجیب جرال،18دسمبر2021)—تحصیل گوجرخان ہمیشہ سے مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے، 1985ء سے لے کر اب تک مسلم لیگ ن کے امیدوار ہی الیکشن میں کامیاب ہوتے رہے ہیں، راجہ پرویز اشرف نے جو الیکشن جیتے ہیں وہ بھی محض راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری محمد ریاض کے اختلافات کی وجہ سے۔ گزشتہ عام انتخابات میں راجہ پرویز اشرف کی کامیابی ان کی کارکردگی یا مقبولیت کی وجہ سے نہیں بلکہ مقتدر حلقوں اچھے تعلقات کی مرہونِ منت تھی ورنہ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت چوہدری افتخار احمد وارثی اور شوکت عزیز بھٹی سے ٹکٹ چھین کر اپنی شکست کی بنیاد رکھ چکی تھی اور چوہدری محمد عظیم ہر لحاظ سے پہلے نمبر پر تھے۔
مسلم لیگ ن کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ مقامی قیادت کا خود اپنے پاؤں پر کلھاڑی مارنا تھا۔ شرقی گوجرخان سے چوہدری افتخار وارثی اور غربی گوجرخان سے راجہ شوکت عزیز بھٹی کو راجہ جاوید اخلاص اینڈ کمپنی نے کارنر کردیا تھا۔ دونوں سٹنگ ایم پی ایز کو ٹکٹ نہ دے کر اپنی ناکامی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ عوامی و سماجی حلقوں کے مطابق راجہ جاوید اخلاص نے راجہ شوکت عزیز بھٹی کے ساتھ احسان فراموشی کا مظاہرہ کیاتھاکیونکہ بھٹی ہی وہ ذریعہ تھا جس سے راجہ جاوید اخلاص مسلم لیگ ق سے ن میں تشریف لائے تھے۔ اس کے علاوہ دونوں ایم پی ایز کا اپنے اپنے حلقوں میں زبردست اثرورسوخ تھا اورووٹ بینک تھا اس صوت میں انہیں اعتماد میں لیے بغیر ٹکٹ سے محروم کردینا سیاسی خودکشی کے سوا کچھ نہ تھا۔بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن کی شکست میں راجہ حمید ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دینا بھی شامل ہیں ان حلقوں کے مطابق راجہ حمید ایڈووکیٹ کے اپنے حلقے کے ووٹرز سے بالکل رابطہ نہیں ہے۔ گوکہ ان کا مسلم لیگ ن سے دیرینہ تعلق ہے لیکن الیکشن لڑنے کے لیے محض دیرینہ تعلق کافی نہیں ہوتا بلکہ حلقے میں اپنے سپورٹرز سے رابطہ بھی رکھنا پڑتا ہے اس غیر دانشمندانہ فیصلے کا خمیازہ راجہ جاوید اخلاص اور ان کی پوری ٹیم کو بھگتنا پڑا۔ اپنے اس غلط فیصلے کا اعتراف راجہ جاوید اخلاص نے خود بھی کئی بار نجی محفلوں میں کیا ہے۔
تازہ ترین صورت حال کے مطابق شنید ہے کہ چوہدری افتخار احمد وارثی سے تو کسی نا کسی طرح صلح کر لی گئی ہے لیکن راجہ شوکت عزیز بھٹی کو ابھی تک نظر انداز کیا جارہا ہے۔ راجہ شوکت عزیز بھٹی بھی ایک گھاگ سیاستدان ہیں انہوں نے بھی میدان خالی نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے حالانکہ انہیں نااہل کرانے میں راجہ پرویز اشرف کا بڑا ہاتھ تھا لیکن کہتے ہیں کہ سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ گزشتہ الیکشن میں راجہ پرویز اشرف کو کامیاب کرانے میں مقتدر حلقوں کے علاوہ شوکت عزیز بھٹی کا بھی ہاتھ تھا انہوں نے اپنا ذاتی ووٹ بینک پیپلز پارٹی کے امیدوار راجہ پرویز اشرف کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ یاران نکتہ دان کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن تحصیل گوجرخان کی قیادت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو راجہ شوکت عزیز بھٹی پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں گے جس کے آثار بھی نظر آرہے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے قائدین سے راجہ شوکت عزیز بھٹی کا گہرا یارانہ چل رہا ہے اور اکثر پروگرامات میں اکٹھے دیکھے جارہے ہیں۔
اب جبکہ عام انتخابات میں کم وقت رہ گیا ہے تحصیل گوجرخان میں مسلم لیگ ن دھڑوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ ایک دھڑے کی قیادت چوہدری خورشید زمان جبکہ دوسرا دھڑا راجہ جاوید اخلاص کا ہے۔ چوہدری گروپ میں چوہدری محمد ریاض، راجہ شوکت عزیز بھٹی اور راجہ حمید کے علاوہ بہت سے یونین کونسل چئیرمین ہیں جبکہ راجہ گروپ میں قاضی وقار کاظمی، راجہ بابر کرامت اورمحمد خان بھٹی شامل ہیں۔ راجہ جاوید اخلاص کو یہ بھی فوقیت حاصل ہے کہ ان کے دھڑے میں اے ٹی ایمز کی تعداد زیادہ ہے۔ بظاہر راجہ جاوید اخلاص کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے کیونکہ خورشید زمان میں سیاسی بلوغت کی کمی نظر آتی ہے انہیں میڈیا کے حوالے سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔انہیں علم ہی نہیں کہ صحافیوں میں بھی دھڑے بندی ہوتی ہے وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے بجائے ایم پی اے چوہدری ساجد محمود کی طرح فریق بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس راجہ جاوید اخلاص ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جس کا اعتراف ان کے بدترین سیاسی مخالفین بھی کرتے ہیں۔
جہاں تک مسلم لیگ ن کے صوبائی ٹکٹوں کی بات ہے اس کا فیصلہ ہمیشہ کی طرح جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی کے رہنما قاضی شوکت محمود ہی کریں گے۔ مسلم لیگ ن میں ہر نیا آنے والا امیدوار قاضی شوکت کے در پر ضرور حاضری لگواتا ہے کیونکہ سب کو ان کی طاقت کا اندازہ ہے۔ قاضی شوکت ویسے تو جماعت اسلامی کے مخلص رکن ہیں لیکن ان کی ہمدردیاں ہمیشہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوتی ہیں۔ چونکہ وہ کامیاب بزنس مین ہیں اس لیے وہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔ عام انتخابات میں وہ پیٹ بھر کر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری مسلم لیگ ن کے امیدواروں پر کرتے ہیں چاہے وہ راولپنڈی میں ہوں یا گوجرخان میں اور پھر اس کا منافع بھی سمیٹتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ جماعت اسلامی کے امیدوار کو فنڈز کے مد لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے دے دیتے ہیں اور ”رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی“ کے مصداق جماعت اسلامی بھی خوش مسلم لیگ ن میں بھی ساکھ قائم۔ جماعت اسلامی کے امیدوار پڑھے لیکن غریب طبقے سے ہوتے ہیں اس لیے لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ بھی ان کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
اسی سرمایہ کاری کی وجہ سے مسلم لیگ ن کی قیادت یا راجہ جاوید اخلاص ان کے آگے دم نہیں مارتے اور جس کے سر پر قاضی شوکت دست شفقت رکھتے ہیں ٹکٹ کا ہُما اس امیدوار کے سر پر بیٹھتا ہے۔ عوامی و سماجی حلقوں کے مطابق صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ اسے ملے گا جو قاضی شوکت کی نظروں کو جچے گا اور رہی ووٹ کی بات تو قاضی صاحب اپنا ذاتی اکیلا ووٹ جماعت اسلامی کو ہی دیں گے تاکہ سند رہے اور قسم اٹھانے جوگے ہوجائیں۔ واللہ اعلم

,تجزیہ: صغیر احمد چوہدری
فون نمبر:03455315915

Show More

Related Articles

One Comment

Back to top button