London; Impact of social media on society and intolerance in politics، Anwar Ul Haq
سوشل میڈیا کے سوسائٹی پر اثرات اور سیاست میں عدم برداشت۔ پاکستان کی عوام بھی ان سہولیات سے بہرہ مند ہوے, انوار الحق
لندن،پوٹھوار ڈاٹ کوم ۔۔ پچھلے 15-20 سالوں میں انفارمیشن میں آ نے والے انقلاب نے جہاں باقی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے وہیں پاکستان کی عوام بھی ان سہولیات سے بہرہ مند ہوے -چونکہ مغرب ہم سے ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بھت آگے ہے اس لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے ان کی ترجیحات بھی ہم سے مختلف ہیں –
پاکستان کے معرض وجود میں آ نے کے چند سال بعد ہی ہماری ترقی کے پہیہ کو بریک لگ گی۔ اور جمہوریت نے ہم سے سوتیلی ماں والا سلوک کر کے عملآ اس محاورہ کو سچ ثابت کر دیا۔ سواے چند ایک تاجروں اور باقی حکمران خاندانوں کے علاوہ عام آ دمی اس سے کو ی خاطر خواہ فائدہ نیہں اُ ٹھا سکا۔ آہستہ اہستہ کرپشن نے ہمارے ہر ادارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بلاخر وہ وہ ادارہُ اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو کر ہر پاکستانی سے اپنی تباہی کا بدلہ لے راہاہے۔
ہمارا تعلیمی نظام کی طبقوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ اسی طرح طبعی شعبہ – عدالتی نظام-حکومتی نظام – اپنی آ آخری سانسوں پر ہے۔ ان سب نے ملکر معاشرے کو مزید تقسیم کردیا ہے جس کے گہرے اثرات خاندانی نظام پر بھی پڑے۔ اور وہ بھی اس تقسیم کی تباہ کاری سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا چلا گیا۔
اس افراتفری کے ماحول میں بندر کے ہاتھ ادرک کے مثداق نئی ٹیکنالوجی کی صورت میں موبائل فون ہمارے ھاتھ آ گیا-
جدید فون کے ہوتے ہوے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کی وہ اہمیت نہیں رہی جو آج سے دس پندرہ سال پہلے تھی۔ 3جی-پھر 4جیُ اور اب 5جی ٹیکنالوجی نے بہت سے نئے کاروباری مواقع پیدا کر دیے اور اس مارکیٹ کو دیکھتے ہوے بہت سے انفرادی اور کارباری کپنیوں نے مو بائل فون کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوے مختلف اپیلیکیشن متعارف کروا دی –
پچھلے چند سالوں میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مبنی اپیلیکیشن نے پوری دنیا کو ایک دوسرے کو جوڑ دیا – فاصلوں کی کویُ اہمیت نا رہی۔ پوری دنیا میں چند بہت زیادہ استعمالُ کی جانے والی اپیلیکیشن میں فیس بک۔ ٹویٹر – ٹک ٹاک – انسٹا گرام ہیں جنہوں نے پوری دنیا کو ایک گلوبل وولیج میں تبدیل کر دیا۔
حدود و قیود کیُ کو یُ خاص لکیر نہ ہونے کی وجہ سے ہر شخص نے ان پلیٹ فارم کو اپنی سمجھ، ضرورت اور تفریح کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا
دنیا پر اس کے اثرات کیا پڑے یہ بحث بہت لمبی ہے۔ میں صرف پاکستان کے حوالے ہی بات کروں گا۔
پاکستان جو پہلے ہی تقسیم شدہ معاشرے میں بڑا تھا اُس کو سو شلُ میڈیا پلیٹ فارم نے مز ید تقسیم کر دیا اور معاشرہ اس تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتے ہوے اکائ کی بجاے گروہ میں تبدیل ہو گیا۔
سیاسی پارٹیاں جو قوم کی اساس اور امنگوں کی ترجمان ہوتی ہین انہوں نے ان پلیٹ فارم کو اپنے اقتدار کا زریعہ سمجھ کر ایسی ٹیمیں تشکیل دے ڈالی جو ان کی سیاسی نظریات کی ترویج کرتی اور ساتھ ہی اپنے سیاسی مخالفین کئُ ماں بہن ایک کرنے میں لمحہ کی دیر نہیں کرتے –
دوسری طرف مذہبی جما عتیں جن کا کام خدا اور اُس کے رسول ص کے بتاے ہوے راستے پر رہنمائی کرنا اور انسانیت کو فلاح کے راستے پر ڈالنا تھا انہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوے ریاست کے اندر اپنی ایکُریاست قائم کر لیُ اور اگر کسیُ نے راستہ روکنے کی کو شش کی تو کفر اور قتل کے فتوے ریوڑی کی طرح بٹنے لگے۔
نتیجتاً معاشرہ مزید تقسیم اور انتشار کا شکار ہو گیا –
آج حالت یہ ہے کہ فیس بک، ٹویٹر وغیرہ پر ایک دوسرے کو با قاعدہ گالیاں دی جاتی ہیں، جھوٹ کو سچ بنا کے بیچا جاتا ہے۔
بحیثیت معاشرہ ہمارے اندر برداشت تقریباًُ نا پید ہو چکی ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جیسے فرض ہو گیا ہے۔
عدم برداشت سو سایٹی کے اندر اس طرح سرایت کر چکی ہے کہ معمولی سے معمولی پوسٹ اور ٹویٹ پر گا لیوں اور بد تمیز ی کا وہ طوفان اُٹھتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کے لیے ایک دوسرے پر اور بعض اوقات ایک دوست کے خاندان پر بلاوجہ انتہای غلیظ کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔
ان رویوں کی وجہ سے معاشرہُ مزید انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ ہم مزید اس تباہی کا شکار ہوں گے یا کوی ایسالایحہ عمل اختیار کیا جاے جو ہمیں مزید انتشار اور تباہی سے محفوظ بنا سکے۔
اگر ہم اس تباہی سے بچنا چاہتے ہیں تو میری ذاتی رات ہے کہ ہمیں انفرادی اور حکومتی سطح پر مثبت رویہ اپنانا ہو گا۔
انفرادی طور پر ہمیں اپنے رویوں پر غور کرتے ہوے اپنے اندر مثبت سوچ اور برداشت پیدا کرنی ہو گی۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر دفعہ ہمُ ہی درست ہوں اور ہم ہی حق پر ہوں ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہو گا۔ دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرنا ہو گا۔
سوشل میڈیا کا استعمال بردباری اور برداشت کاور مثبت سوچ کے ساتھ کرنا ہو گا۔ اگر ہم نے اسی سوچ کے ساتھ دوسروں کی پوسٹ – ٹویٹ کو جواب دینے کی بجاے نظر انداز کرنا ہو گا۔ دو چار دفعہ ایسا کرنے سے یقیناً ہمُاپنے اندر ایک مثبت تبدیلی محسوس کریں گے اور ہر بات کا جواب دینا غیر ضروری سمجھیں گے۔ جب ہمُ ایسا کرنے میں کا میاب ہو گے تو ہمُ معاشرے کے اندر ایک مثبت تبدیلی کا باعث یقیناً بن سکتے ہیں۔ اور یہی وقت کی ضرورت بھی ہے۔
دوسری طرف حکومت وقت کی بہت زیادہ زمہ داری بنتی ہے وہ ایسے اقدامات کرے جس سے مانیٹرنگ کا ایک مربوط سسٹم قا ئم کرے جو نفرت انگزی۔ تفرقہ بازی۔ جنسیت پر مبنی مواد – غیر اخلاقی اقدامات اور معاشرے کے اندر انتشار پھلانے والے اقدامات کیُ حوصلہ شکنی کرے-
ساتھ ہی ساتھ تعلیمی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب پڑھایا جاے۔ تعلیمی نصاب میں مثبت رویوں پر مبنی مواد کو شامل کیا جاے۔ برداشت اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاے۔
یہُ اقدامات ہمیں ہنگامی بنیاد ں پر کرنا ہوں گے تا کی ہمارا معا شرہُ مزید تقسیم اور انتشار سے محفوظ ہو اور ہم بحیثیت قوم ایک دوسرے کیُ عزت اور دکھ درد میں شامل ہونے والا معا شرہ بن سکیں۔