مبنی برانصاف سماعت,رضوان اللہ پشاوری
انصاف کی حکومت میں انصاف نہ ملنا بڑی نا انصافی ہے۔ہر کسی کا مسئلہ سُننا یہ قاضی وقت کی ذمہ داری ہے،چاہئے کہ جب کسی کوکسی جرم میں گرفتار کیا جائے تو مدعی اور مدعیٰ علیہ دونوں کی باتوں کو خوب اچھی طرح سُننا جائے،بعدازاں حاکم وقت مبنی برانصاف فیصلہ کرے،اسی سماعت کا حکم تو ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتا ہے اور اگر کوئی قیدی اپنے بارے میں انصاف چاہے تو یہ اس کا حق ہے،اسے انصاف دیا جائے،اس کو تمام ترثبوتوں کے ساتھ دکھا دینا چاہئے کہ اس حکم کے تحت آپ کو گرفتار کردیا گیا ہے۔گرفتاری اور حاکم وقت کا بعد میں پچھتا جانے کا ایک واقعہ قرآن کریم نے بھی ذکر کیا ہے۔
قرآن کریم میں آپ نے یوسف علیہ السلام کاواقعہ پڑھا ہوگا،مختصراً یہ کہ یوسفؑ سے عزیزمصر(قطفیر یا اطفیر) کی بیوی نے کہا:’’آشتابی کر‘‘ یوسفؑ اس سے دوڑھے،تو عزیزمصر کی بیوی نے پیچھے سے پکڑنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں حضرت یوسفؑ کی دامن پٹھ گئی،درازے کی طرف جھپکے تو عزیزمصر دروازے کے ساتھ ہی کھڑے تھے،فوراًزلیخہ کہنے لگی کہ اس آدمی کا کیا سزا ہونا چاہئے جو آپ کی بیوی سے خیانت کرے،کسی گواہی دینے والے نہ گواہی دی اور اس میں حضرت یوسفؑ بری ہوگئے،مگر یہ واقعہ پورے مصر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی،ہوا یوں کہ اور عورتوں نے زلیخہ کو ملامت کرنا شروع کیا،زلیخہ نے ایک دن تمام عورتوں کے لیے دعوت کا انتظام کیا،اسی دعوت میں عورتوں کے سامنے پھل بھی رکھدیئے،جب عورتوں نے پھل کاٹنا شروع کیا تو عین اسی وقت زلیخہ نے حضرت یوسفؑ سے کہا کہ باہر آجائے،جب یوسفؑ باہر نکلے اور عورتوں کی نظر حضرت یوسفؑ پر پڑگئی،تو انہوں پھلوں سمیت اپنی انگلیاں بھی کاٹ دی اور ان کو پتہ تک نہیں چلا۔پھر زلیخہ نے کہا کہ یہ وہی ہے جس کے بارے تم مجھے ملامت کرتے ہو،پھر انہی عورتوں نے بھی زلیخہ کی تاید میں بات شروع کی کہ زلیخہ کی بات مانی جائے،ورنہ وہ آپ کو جیل بھیج دے گی۔اسی وقت حضرت یوسفؑ نے دعا مانگی اور کہا کہ جیل جانا مجھے پسند ہے،اسی جرم کی پاداش میں حضرت یوسفؑ کو جیل بھیج دیا گیا،انہی کے ساتھ دو اور آدمی بھی جیل بھیج دیئے گئے تھے،انہوں نے خواب دیکھا، خواب حضرت یوسفؑ کو سُنائے تو آپ نے ان کو تعبیر بتاتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے ایک بادشاہ کا ساقی بنے گا اور دوسرے کو صولی پر لٹکا دیا جائے گا۔بالآخر وہی ہوا،جو بادشاہ کا ساقی بنا ،تو اسے حضرت یوسفؑ نے کہا کہ اپنے بادشاہ کے سامنے میراذکر کرنا،مگر وہ یہ بات بھول گیا جس میں کئی سال گزر گئے، حضرت یوسفؑ اتنا عرصہ جیل میں بغیرکسی جرم کے رہے،پھر عزیزمصر نے خواب دیکھا،اسی ساقی نے کہا کہ آپ مجھے جیل جانے کی اجازت دیدے ،وہاں پر ایک آدمی ہے جوخوابوں کی تعبیر بہت اچھی طرح بتاتے ہیں،اُسے اجازت دیدی گئی،وہ حضرت یوسفؑ کے پاس پہنچے، حضرت یوسفؑ نے خواب کی تعبیر کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی بتا دی،بادشاہ نے حضرت یوسفؑ کو جیل سے نکلنے کا کہا تو حضرت یوسفؑ نے جیل نکلنے سے معذرت کی اور کہا کہ پہلے میرے بارے میں ان عورتوں سے پوچھ لیں، جنہوں نے زلیخہ کے مجلس میں اپنی انگلیاں کاٹی تھی،جب ان سے پوچھ لیا گیا تو سب عورتوں نے بیک زبان کہا کہ حضرت یوسفؑ بے گناہ ہے۔اب زلیخہ نے دل ہی دل میں پوچھا کہ بات کھل کر سامنے آگئی اُس نے از خود جواب دیا اور کہا کہ یہ سب کچھ میری کارستانی ہے،اُسی وقت بادشاہ مصر(ریان)نے حضرت یوسفؑ کو جیل سے نکال دیا۔یوسفؑ جب جیل سے نکلے تو اس وقت ان کی عمر30سال تھی،جب جیل جا رہے تھے اس وقت ان کی عمر13سال تھی،17سال کا عرصہ حضرت یوسفؑ نے جیل میں بے گناہ گزار دیا۔
اب قرآن کریم کے اسی واقعہ کے تناظر میں اگر ہم دیکھ لیں،کہ 17سال کا طویل عرصہ بغیر کسی جرم کے پاداش میں گزارا گیا،اب اگر یہ کوئی عام آدمی ہوتا تو اتنے طویل عرصہ میں اُس کے بچوں کی کفالت کا واقعہ رونما ہوتا،اس کے گھر کے اخراجات کا ایک اور المناک حادثہ ہوتا،تو حاکم وقت کو چاہئے کہ ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر اپنا فیصلہ سُنانے سے پہلے قیدی کو مبنی برانصاف سماعت کا موقعہ دیدیا جائے۔
لاہور میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام فری ٹرائل کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں فری ٹرائل کے حوالے سے آئین کا آرٹیکل 10 اے اٹھارویں ترمیم کے اندر شامل کیا گیا ہے کیونکہ مقدمات کی شفاف اور جلد سماعت کے بغیر انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا، پاکستان میں انصاف کی فراہمی اور نظام کو بہتر بنانے کے لئے تمام متعلقہ طبقوں سے مشاورت کے بعد قومی عدالتی پالیسی مرتب کی گئی ہے جس کا مقصد عدلیہ کو مضبوط کرنا ہے تاکہ عدلیہ ادارتی اور انتظامی خود مختاری کو استعمال کرے اور مقدمات کا فیصلہ منصفانہ اور شفاف انداز میں مکمل آزادی سے کر سکے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کے اختیار میں نہیں کہ وہ رائج الوقت قوانین میں ترامیم کرے تاہم پالیسی کے تحت مقدمات میں درپیش تاخیر کو کم کرنے ، مقدمات کی جلد سماعت کرنے اور منصفانہ اور شفاف انصاف کے لئے چند اقدامات کئے گئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے باز رکھنے اور اختیارات کو انتظامیہ اور عدلیہ کی زیر نگرانی قانون کے مطابق رکھنے کے لئے تفتیش برائے منصفانہ حق سماعت کا قانون مجریہ 2013 نافذ کردیا گیا ہے ، تقریب سے سپریم کورٹ بار کے صدر میاں اسرار الحق سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔
اب اگر ہم آج کے زمانے میں اپنے قیدخانوں پر نظر ڈالیں،تو ہمیں آج جیلوں میں بھی بہت سارے بے گناہ لوگ نظر آئیں گے،انہیں بے گناہ لوگوں کے لیے ’’المبار ویلفئیرسوسائٹی انٹرنیشنل‘‘(یہ غریب ،نادار ویتیموں کا ایک بہت ہی اچھا ادارہ ہے۔نادار اور غریب بچوں کی نظام تعلیم پر ان کی گہری نظر ہے)نے ایک بہت ہی احسن اقدام ’’Right to Fair Trail Duee Proces‘‘اسی نام سے شروع کر رکھا ہے،اسی المبارک ویلفیئر سوسائٹی کے ہاں گزشتہ دنوں میں تین رکنی میٹنگ ہوئی،جس میں المبار ویلفئیر سوسائٹی کے ایگزیکٹیوڈائریکٹرسیدعرفان اللہ ہاشمی،پروگرام منیجرظفر حسن اور مس شائستہ جبین ایڈوکیٹ نے شرکت کیں،اسی موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔