DailyNews

خاتون اول یا پھر ملکہ نورجہاں ؟تحریر : راؤ عمران سلیمان ۔

ہندوستان کے عظیم والشان بادشاہ نورالدین محمدجہانگیر جن کا عدل پوری دنیا میں عدل جہانگیر کے نام سے یاد کیا جاتاہے،ا ن کانام نورالدین محمد جہانگیر تھاتاہم اکبربادشاہ پیار سے انہیں شہزادہ سلیم کہہ کر پکارتے تھے بیگم ملکہ نورجہاں اس عظیم والشان بادشاہ کے دل ودماغ پر اس قدر گرفت رکھتی تھی کہ وہ اگر کہہ دے کہ دن کے وقت یہ رات کا وقت ہے تو بادشاہ اسے بغیر کسی سوال جواب کے قبول کرلیتا اسی طرح امور سلطنت کے مکمل اختیارات بھی ملکہ نورجہاں کے پاس ہی تھے وہ اپنی مرضی کے وزیرو مشیر بنانے میں مکمل آزاد تھی ملکہ نورجہاں سے شادی کے بعد خود بادشاہ بھی بیگم سے پوچھے بغیر کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے ۔نورجہاں کا اصلی نام مہرونسا تھا وہ تہران کے رہنے والے مرزاغیاث الدین کی بیٹی تھی مرزاغیاث الدین بیگ کا خاندان غربت کے ہاتھوں تنگ آکر تہران سے آکر ہندوستان میں آبسا تھا غیاث والدین نے اپنی ہوشیاری اور چالاکی سے اکبر بادشاہ کے دربارمیں نوکری کرلی تھی جب مہرونسا عہد شباب میں تھی تو اس کی شادی علی قلی بیگ سے کردی گئی جو شہزادہ سلیم یعنی (جہانگیر کا)خاص ملازم تھااس طرح مہرونسا( نورجہاں) شہزادہ سلیم سے پہلے علی قلی بیگ کی بیگم تھی ۔علی قلی بیگ کو جہانگیر نے کسی بات پر قتل کروادیا تھاکیونکہ جہانگیر نورجہاں کے حسن وجمال میں بری طرح گرفتار ہوچکاتھاوہ بہت زہین ور زیرک خاتون تھی جہانگیر نے بل آخرمہرونسا یعنی(نورجہاں ) سے شادی کرلی ،بادشاہ نورجہاں کے حسن وجمال کے آگے مکمل بے بس تھاحکومت کا کوئی بھی کام ہوتا وہ نورجہاں کے مشورے کے بغیر انجام پانا ناممکن تھا اس دور میں باد شاہ سے زیادہ نورجہاں کے خاندان کی حکومت میں زیادہ چلتی تھی یہ ہی وجہ تھی کہ اس کے باپ اور بھائی کو حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیا گیاتھااس طرح نورجہاں سے جڑے تمام رشتے دار بھی اس حکومت میں سیاہ وسفید کے مالک بنے ہوئے تھے ،یہ تمام تر باتیں 1577ء کی ہیں مگر آج موجودہ وقتوں میں میری نظر جب ایک خبر پر پڑی کہ وزیراعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر کو ناکے پر روکنے والے ڈسٹرکٹ پولیس آفسیر کا کا تبادلہ کردیا گیاہے یعنی 23اگست کو پولیس کی جانب سے خاور مانیکا کی گاڑی کو روکنے کااشارہ کیا گیالیکن وہ نا رکے جب پولیس کی جانب سے انہیں آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش کی گئی تو خاور مانیکا کی جانب سے غلیظ زبان استعمال کی گئی ،میڈیا کی وجہ سے واقع جنگل میں آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل چکا تھاجس پر نئے پاکستان کی پنجاب حکومت نے آر پی او اور ڈی پی او کو اگلے روز ہی اپنے دربار میں طلب کرلیا تھا اور پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ نے ان دونوں افسران کو خاور مانیکا کے ڈیرے پر جاکر مافی مانگنے کا حکم دیا مگر ان افسران کا کہنا تھا کہ جب کچھ کیا ہی نہیں تو پھر معافی کس بات کی ؟ ۔ اس ساری کہانی کا معاملے کی اصل کڑی کچھ اور ہے کیونکہ خاور مانیکا کے اس ایشو سے قبل پولیس کو یہ اطلاع ملی کی وزیراعظم کی اہلیہ بشریٰ بی بی پاکپتن دربار پر جاکر حاضری دینگی ان کی آمد 19اگست کو ہونا تھی پولیس نے سیکورٹی کے تمام تر انتظامات مکمل کرلیے تھے اسی دن بشریٰ بی بی کی بجائے ان کی بیٹی مہرونسا ننگے پاؤں دربار پر کسی مراد کوبرلانے کے لیے پہنچی تو ان کے سیکورٹی گارٖڈز نے چاروں طرف سے راستہ روک دیا جس کے باعث ٹریفک رکنے اور رش کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاانتظامیہ کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ حکام کوبتایاگیا کہ بشریٰ بی بی نہیں بلکہ ان کی جگہ ان کی صاحبزادی یہاں آئی ہیں جس کے باعث سیکورٹی کا نظام درھم برھم ہواٹریفک کی بحالی کے دوران مہرونسا کے گارڈزاور پولیس کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی تب پولیس افسران کو خاتون اول کی بیٹی مہرالنسا کی جانب سے کہا گیا کہ “میں تم سب کو دیکھ لونگی ” اس واقعے کے بعد اسی ڈی پی او کی مدبھیڑ خاتون اول کے سابقہ شوہر خاور مانیکا سے بھی ہوئی اس کے بعد پرانے پاکستان کے ساتھ پرانے ڈی پی او کو بھی تبدیل کردیا گیا۔یہ تمام تر واقعات مجھ تک میڈیا کی مدد سے ہی پہنچے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا اس نئے پاکستان میں بھی امیر اور صاحب حیثیت آدمی کے لیے قانون الگ اور اور غریب کے لیے الگ ہوگا؟۔روزانہ اس ملک کی سڑکوں پر ہزاروں ناکے لگتے ہیں اور درجنوں شہریوں کو روک کر ان کی تلاشیاں لی جاتی ہیں مگر ان میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو حکمرانوں سے رشتے داریوں کے باعث چھوٹ جاتے ہیں ؟۔پرانے پاکستان میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے ڈرائیور کے ہمراہ مواٹر وے پرر سفرکررہے تھے کہ تیز رفتاری کے باعث ان کا 750روپے کا چالان کیا گیا جسے معذرت کرنے کے ساتھ فوری ہی ادابھی کردیا گیا یہ خبر اس دن میرے لیے جس قدر خوشی کا باعث بنی یہ تو میں ضرور بتاسکتاہوں مگرموجودہ خاور مانیکا کے واقعے نے دل کو جس قدر نجیدہ کیا ہے وہ میں بتانے سے قاصر ہوں،گو کے اس وقت شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم تھے مگراس نئے پاکستان میں تو سابق شوہر سابق وزیراعظم پر بھاری پڑ رہاہے ،گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے کی جانب سے ایک سرکاری دفتر کے ملازم کے ساتھ بدتمیزی اور تھپڑ کی گونج بھی ابھی تک تھمی نہیں ہے ،اورپھر نئے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار جن پر ماضی میں چھ قتلوں کا الزام رہاہے ان کی فرمابرداری اور سادگی میں وہ وزیراعظم کے مکمل نقشے قدم پر ہیں یعنی ایک ہی ہفتے میں لاہور سے بنی گالہ کے تین جہازی چکر اور وزیراعلیٰ کی وہ ٹھاٹ باٹ اور موجیں کہ اس کے ایکڑوں پر پھیلے گھر میں بجلی تو نہیں ہے مگر ان کوبیگم اور بچوں سمیت سرکاری جہاز میں ہوا کھانے کی مکمل اجازت ملی ہوئی ہے،حکومت کے ایک ہی ہفتے میں تحریک انصاف کی جانب سے نامزد کردہ بلوچستان کے گورنر ڈاکٹرامیر محمد خان جوگیزی پر چھ کروڑ کی کرپشن کے الزامات نکلے اور بعد میں تحریک انصاف کے ترجمان کی جانب سے اس فیصلے کی تردید کرنا اوراس کے ساتھ گورنر سندھ کے منصب کے لیے ایک کم علم آدمی کی تعیناتی یہ تمام تر باتیں ایک ہی ہفتے میں رونما ہوئی ہیں سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے کسی بھی دور میں ان کے فیصلے اس قدر جلد کلین بولڈ نہیں ہوئے جسقدر عجیب وغریب واقعات اس وقت رونما ہورہے ہیں دل ودماغ سوچنے سمجھنے کی کوشش میں ہے کہ یہ سارے فیصلے آخر کرکون رہاہے ؟اوریہ سب کس کے کہنے پر ہورہاہے ؟یعنی کیا یہ ملک اب استخاروں کی مدد سے چل رہاہے آدھی سے زیادہ کابینہ تو مشرف اور دیگر جماعتوں کی موجود ہے اور بیوروکریسی وہ ہی نوازشریف دور کی تو پھراس میں نیا کیا ہے ؟۔ وزیراعظم آئے روز اجلاس پر اجلاس بلارہے ہیں آخر کام کب کرینگے لوگ پوچھنا چاہتے ہیں کہ حکومت کا ہنی مون عوام کو تھپڑ مارتے اور فرض شناس افسرو ں کے تبادے میں ہی گزریگا یا پھر کچھ نئے پاکستان کی حقیقی جھلک بھی دیکھنے کو ملے گی میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کو اب کنٹینر سے اتر کرملک چلانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ شہنشاہ جہانگیر کے قصے میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھاجسے میں تحریر کے شروع میں بیان نہیں کرسکتا تھا یعنی نورجہاں کے فیصلوں نے جہانگیر کو ماضی کا حصہ بنادیاتھااور جہانگیر کے حصے کے جو کام تھے وہ بھی خودکرنے لگی تھی یعنی حکومت کی مکمل مشینری میں سیاہ وسفید کی مالک بن بیٹھی تھی مطلب !!!!!! کہیں نئے پاکستان میں بھی ایسا ہی تو نہیں ہونے والا۔۔؟ ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انظارہے گا۔

Show More

Related Articles

Back to top button