فرشتہ صفت سیاستدانوں کی تلاش۔
تحریر :راؤ عمران سلیمان ۔
جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں ایک کیبنٹ میٹنگ کے دوران تمام ملٹری ڈکٹیٹر،مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرسمیت بہت سے دوسرے لوگ بھی بیٹھے تھے ،اس وقت جنرل ضیاء الحق نے اپنی ایک انوکھی خواہش کا اظہا کیا اور کہاکہ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو ہم سے بہت سی شکایات ہیں کہ تمام پاور ہمارے پاس موجود ہے اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسی باڈی”مجلس شوریٰ” کی ہوجس میں تمام صوبوں کے ایسے لوگ شامل ہو جس میں مندرجہ زیل خوبیاں ہو جن کو دیکھتے ہوئے لوگ ان کی باتوں پر یقین کرسکیں،جو عوام کو اس گمان سے نکالنے کا کام کرسکیں ،جنرل ضیاء الحق کے ہاتھ میں فرشتہ صفت انسانوں کی تلاش میں بنائی گئی ایک لسٹ موجود تھی اوراس محفل میں بیٹھے جنرلز کو جو گورنر بھی تھے کہا کہ اپنے اپنے صوبوں سے مجھے یہ لوگ تلاش کرکے دیں جن میں یہ تمام خوبیاں موجود ہو۔لسٹ میں لکھی پہلی خوبی یہ تھی کہ اس شخص نے کبھی شراب نہ پی ہو،نمبر دو کہ کبھی وہ آدمی غیر شرعی معاملات میں نہ پھنسا ہو ،اور نمبر تین کہ صوم وصلوۃ کاپابند ہو ، اس حکم نامے کے ساتھ ہی جنرل ضیاالحق نے کہاکہ مجھے یہ تمام خوبیوں والے آدمی تین ہفتوں کے اندر اندر چاہیے اس موقع پر جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہی بیٹھے جنرل فضل حق نے لب کشائی کی کہ جہاں تک میری لسٹ کا معاملہ ہے اس میں آپ تین ہفتے کی دیری کا انتظار نہ کریں بلکہ میں ابھی ہی آپ کو بتادیتاہو ں کہ میرے صوبے میں ان تمام خوبیوں والا کوئی بھی بندہ موجود نہیں ہے ، جنرل فضل حق نے کہاکہ آپ نے مجھے بنایا ہوا ہے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹراور میں گورنر بھی اور چیف منسٹر بھی ہوں تو کیا آپ نے مجھ میں یہ تمام خوبیاں دیکھ کر یہ سب کچھ بنایا تھا؟ جنرل فضل حق نے کہاان میں سے کونسا ایسا عیب ہے جو مجھ میں نہیں ہے پھر بھی آپ نے مجھے اس منصب پر فائز کیاہواہے ؟ جنرل فضل حق نے کہاکہ یہ جو آپ کی کیبنٹ میٹنگ بیٹھی ہوئی ہے اب زرا میں ان کا بھی تعارف کرواتا چلوں!! یہ جو فلاں صاحب بیٹھے ہیں ان میں کیا یہ تمام خوبیاں موجود ہیں ؟ جنرل فضل حق صاحب جب باری باری باقی لوگوں کی طرف آنے لگے تو جنرل ضیاء الحق صاحب نے انہیں مزید بولنے سے روک دیا وہ سمجھ گئے کہ یہ اب کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور سب کا ہی زکر خیر کرکے رہیں گے اور انہیں خاموش رہنے کا کہتے ہوئے کہا کہ فضلی فضلی تم کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے ۔ جن فرشتہ صفت خوبیوں والاسابق یا موجودہ عوامی نمائندہ ڈھونڈنے کے لیے جنرل ضیاء الحق صاحب بے چین تھے آج کل ایسا ہی لیڈر ڈھونڈنے کے لیے ہماری میڈیااور عوام بے چین دکھائی دیتی ہے فی الحال اس وقت تمام بدکرداریاں جس انداز میں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کے نام سے لگائی جارہی ہیں اس پر سب کو ہی ایک اعتماد سا ہوچلاہے۔ اور جس لسٹ کو جنرل ضیاء الحق نے اپنی خواہش کے مطابق تیارکیاتھااس کی کابینہ شاید حکومتی بینچوں پر بیٹھی ہے جو یقیناً سارے کے سارے دودھ کے دھلے سیاستدانوں پر مشتعمل ہے جو اپنی مجلس شوریٰ کے لیے جنرل ضیاء الحق کو درکار تھی ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شریف خاندان اور زرداری خاندان نے قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچایاہومگر معاملہ ان دونوں خاندانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہیے جو ان کی حکومتوں کے دوران ان کی کابینہ کاحصہ رہے اور جن میں سے پچاس فیصد سے زیادہ لوگ آج دودھ کی دھلی حکومت میں اپنی اپنی گزشتہ سے پیوستہ ذمہ دارویوں کو اداکرنے میں لگے ہوئے ہیں ،جنرل فضل حق نے جس انداز میں ایک بڑے جنرنیل کے سامنے حق بات کہی تھی لگتا ہے آج پاکستان میں کوئی بھی ایک آدمی ایسا نہیں ہے جو اچھے اور برے سیاستدان کی تشریح اس انداز میں کرسکے جنرل ضیا نے پاکدامنوں کی مجلس شوریٰ کا انتخاب اس لیے کرنے کی ٹھانی کہ ان کی نظر میں وہ لوگ عوام کو زیادہ اچھے طریقے سے سمجھاسکیں گے کہ عوام حکومت کے لیے جو سوچ رہے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ۔جبکہ وہ لوگ جوصوبے میں بیٹھ کر عوام کی اصلاح کرینگے وہ لوگ نہ تو شرابی ہونگے نہ ہی زانی اور بدکردار ہونگے اور سب سے بڑھ کر صوم وصلوۃ کے مکمل پابند ہونگے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس زمین پر ایسے لوگوں کو ڈھونڈے تو کہاں جاکر ڈھونڈیں ، کیا ہمارے منتخب ایوانوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن پر بلکل ایسے ہی اعتبارکیاجاسکے کہ یہ سچے ہیں اور ہمارے لیے ہمیشہ حق گوئی کا راستہ اختیارکرتے ہوئے وہ تمام وعدے پورے کررہے ہیں جو انہوں نے انتخابات سے قبل کیے یعنی ایک کروڑنوکریاں پچاس لاکھ مکانات ،قرضے سے نجات ،مہنگائی نہیں کرینگے ، اور ایک ایسی اسلامی ریاست کی طرز پر حکومت بنائینگے جو مدینے کی ریاست کی طرز پر ہوگی یعنی ، کسی کمر عمر حافضے قران کی بجائے فحش اداکارہ کوقومی اعزاز سے بھی نہیں نوازیں گے،2013میں 126دن کا تاریخی دھرنا پی ٹی وی پر حملہ اوراربوں روپے کا معاشی نقصان کس نے کیا،آج جب کوئی اور اس قسم کا مجمع اکھٹاکرنے کا کہتا ہے تو کہاجاتاہے کہ حکومت اس قسم کی سوچ والوں کو اسلام آباد میں کنٹینر بھی مہیا کریگی ،پوچھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کہتی ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ اپنے لیڈروں کو سزاؤں سے بچانے کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے اس وقت تحریک انصاف بھی تو اقتدار کے لیے ایسا کررہی تھی ایک منتخب حکومت وزیراعظم پر کیاکیا دباؤ نہیں ڈالا گیا استعفیٰ کے لیے اس لیے کہ وہ کرسی چھوڑے گا تو ہم اس پر بیٹھ جائینگے اگر وہ وزیراعظم اس وقت عوام کو کچھ نہیں دینے کے قابل تھا تو کیا آج آپ اس کرسی پر ہیں ، پوچھنا یہ ہے کہ وہ وعدے اب کب پورے ہونگے ؟ جو نوازشریف کو گھربھیجنے اور اقتدار بنانے کے لیے عوام سے کیئے گئے ،ایک سوال اور بھی بنتاہے ۔مجرم نوازشریف اور زرداری ہی کیوں ہیں ؟ کیا کبھی اس اسپیکر پنجاب اسمبلی سے سوال ہوگاجو اسی نوازشریف اور شہباز شریف کو اپنے کاندھے پر بٹھا کر داتا دربار کی حاضری لگوانے کے لیے آیا کرتاتھا، کیا کچھ سوالات ان حکومتی وزرا سے پوچھے جائینگے جو ہر دور میں ہی پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں جن کے ایکڑوں پر پھیلے گھروں کی آمدنی کا زریعہ ہی حکومت میں رہنا بن چکاہے ۔جہاں تک جنرل ضیاء الحق کی ایک نیک مجلس شوریٰ کا تعلق ہے اس میں شیخ رشید صاحب کی کم ازکم غیر شرعی معاملات میں نہ پھنسنے والی خوبی موجودہے جو ان کے ہر فلسفے اور نہ پوری ہونے والی پیشن گوئی کومیڈیا والے بریکنگ نیوزبناکرچلادیتے ہیں ،کیا موجودہ حکمرانوں میں سے شراب نہ پینے والی صفت موجود ہے ،کیا ہماری کابینہ میں سارے کے سارے ہی صوم وصلوۃ کے پابند ہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آخرجھگڑاکیاہے ؟ کیا مجرم صرف میاں نوازشر یف اور آصف زرداری ہی ہیں یا ان کی لوٹ مار میں ساتھ دینے والے بھی برابر کے شریک ہیں اگر ہیں تو وزیراعظم عمران خان صاحب آپ ان کو بھی پکڑیں اور شروعات حکومتی بینچوں سے کریں کیونکہ جو لوگ کل تک ان مجرموں کے ساتھی تھے ان میں سے بہت سے نہیں بلکہ بہت سارے آج آپ کے ساتھی ہیں ۔
آپ کی فیڈ بیک کاانتظاررہے گا۔