Still standing for bread
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے ۔
تحریر :راؤ عمران سلیمان ۔
دنیا کی تاریخ اس طرح کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس میں انتہائی طاقتور اور عوام میں مقبول ترین حکمرانوں کی عزت پلک جھپکتے میں ریت کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی زمانہ حال میں ایک واقعہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کا بہت مشہور ہوا جو صرف عوامی مقبولیت میں ہی نہیں بلکہ عوام کے بھاری ووٹوں سے منتخب ہوکرامریکا میں دنیا کا طاقتور ترین صدربنا،مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ جو انہوں نے نہ صرف اپنے منصب کو کھودیا بلکہ امریکا سمیت پوری دنیا کی عوام نے انہیں بے توقیر کردیااس طرح وہ ایک طاقتور ترین شخص سے سمٹ کرایک عام اور معمولی آدمی میں بدل کررہ گیا،یعنی پھر اس کی آواز پر لوگوں نے کان دھرنا ہی بند کردیئے ۔ دوستوں یہ جو زبان اوردماغ اللہ پاک نے انسان کو دیاہے نہ اس کی اہمیت کو جس شخص بھی جانا ہے اس نے دنیا میں خوب نام بھی کمایا ہے بلکہ اسی دماغ اور زبان کے غلط استعمال نے اسی انسان کو رسوابھی بہت کیاہے ،ترکی کے صدر طیب رجب اردگان کوایک بار ایسی مصیبت نے آگھیراکہ اسے اپنے اقتداراور خود کے بچاؤ کے لیے عوام کی سخت ضرورت آن پڑی مگر اس سے پہلے کے وہ عوام سے اپنے لیے مدد طلب کرتے وہ گھر کی بالکونی سے کھڑے ہوکر دیکھتے ہیں کہ ایک انسانوں کا سمندر ان کی ہر طرح سے مدد کے لیے موجود ہے ترکی کی اسی عوام نے اس طیب رجب اردگان کے لیے ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر اپنی انوکھی محبت کا اظہارکیا، اسی طیب رجب اردگان سے ترکی کی عوام نے ہر محاز پر اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیاجن میں جوان بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہیں حیرت ہے کہ اسی طیب رجب اردگان سے اس ملک کے بچے بھی دلوں جان سے پیار کرتے ہیں اور ترکی کی عوام جو ایک اندازے سے 8کروڑ 19لاکھ سے زیادہ ہے ۔ایک بار ترکی کے صدر طیب رجب اردگان نے اعلان کیاکہ جو بچہ صبح سب سے پہلے اٹھ کر فجرکی نماز اداکریگا میں اسے ایک سائیکل انعام میں دونگا بڑاہی دلچسپ سا مرحلہ تھااس کی اگلی صبح ہی دنیا نے دیکھا کہ ترکی کے لاکھوں بچوں نے نماز فجر کو اداکیااورایک تاریخی جملہ امر ہوا اور یہ کوئی انوکھی بات بھی نہیں ہے حضرت بابافرید شکر گنج کی والدہ محترمہ بھی اپنے بیٹے فرید کو شکر کی لالچ دے کر نماز کی پابندبنانے کی کوشش کرچکی تھی کیونکہ بابافریدکو شکر بہت پسندتھی وہ ورزانہ جائے نماز کے نیچے شکر چھپادیتی تھی کہ اللہ نماز پڑھنے والوں کو شکر دیتاہے اور ایک روز وہ جب شکر کو رکھنا بھول گئی تو خود اللہ پاک نے شکر کو جائے نماز تک پہنچادیا اور ماں اس حالت میں پریشان کھڑی تھی کی میں فرید کو کیا جواب دونگی ،دوستوں اچھے حکمران بھی اللہ کی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زبان اور دماغی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس مقام تک پہنچے ہوتے ہیں جہاں تک انسان کی زبان اور ایک چھوٹے سے دماغ کی بات ہے اس سے ہم بہت سے اچھے کام بھی لیتے ہیں اور بہت سے ایسے کام بھی کربیٹھتے ہیں جس سے کبھی کبھار بہت بڑانقصان اٹھانا پڑتاہے،جس کی مثال میں اوپر امریکی صدر کے حوالے سے دے چکاہوں ، اگر آپ ایک گھرکے سربراہ ہے تو پورا گھرہی ہماری غلطیوں سے پریشان رہتاہے اور اگر آپ اس ملک کے حکمران ہے تو پھر سوال تو بنتاہے نہ کہ یہ نقصان پھر کس کواٹھانا پڑسکتاہے ۔ بس کچھ یہ ہی حال میرے پاکستان کا آجکل چل رہاہے جس کے لیڈر اسی زبان اور دماغ سے اس ملک میں بسنے والے لوگوں سے نہ جانے کیاکیا کہہ جاتے ہیں کیاکیا وعدے کرجاتے ہیں اور اسی دماغ کو بغیر استعمال کیے اس ملک کولندن اورپیرس بھی بنادیتے ہیں بے روزگاروں کو خوابوں میں نوکریاں بھی دے دیتے ہیں اور بے گھروں کوخیالی گھر بھی دے جاتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ابھی تک نہ ایسے لیڈر ہی مل سکیں ہیں جن کے اپنے اعمال ٹھیک ہو اورجو خود ٹھیک نہ ہو وہ بھلااپنے گھر کو کیسے ٹھیک کریگا میاں نوازشریف جب مشکل میں تھاتو ان کے لیے کونسی عوام ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئی تھی اور آصف زرداری صاحب کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے جبکہ اس ملک کے وزیراعظم جو اپنے شعبے میں اس قدر مہارت رکھتے ہیں کہ ان کا نام کرکٹ کی دنیا میں اس قدر مشہور تھا کہ میری پیدائش پر والد محترم نے میرا نام انہیں کے نام پررکھا تھا وہ اسی مقبولیت اور اپنی محنتوں سے اس ملک کے وزیراعظم بن چکے ہیں مگر ایک بار ضرور معذرت کے ساتھ ان کی بیس بائیس سالہ کوششوں میں زبان کو بہت استعمال کیا گیا جس سے بہت اچھے اچھے سنھری خواب دکھائے گئے اور دوسری جانب جو دماغ تھا اس نے شاید اپنا کام اب جاکر شروع کیا ہے جب ان کے ان کے پاس حکومت آچکی ہے یعنی عمران خان وزیراعظم بن کر اس ملک کو سنوارناتو چاہتے تھے مگر ان کی یہ تیاری ہرگز نہیں تھی کہ اس ملک کو کس طرح سے مشکلات سے نکالناہے اگر یہ جھوٹ ہے تو ان کی حکومت کو اب چھ ماہ ہونے کو ہیں وہ خود بھی پریشان ہیں کہ ہم آخر جاکس طرف رہے ہیں یہ ہی زبان اس وقت مخالفین پر تنقید کے نشتر برسارہی ہے اور جو حکومتی دماغ ہے وہ اس کام میں الجھا ہواہے کہ زرداری کو جیل میں ڈالنا ہے نوازشریف کو اتنی سزادلوانی ہے یہاں تک ان سے آجکل وہ میڈیا کے اینکرپرسن بھی نالاں ہیں جو یہ کہا کرتے تھے کہ عمران خان ہی اس ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے ۔ پھر کہاجاتاہے کہ صبر کروابھی تو ہم آئے ہیں بھائی یہ کرکٹ کی پچ نہیں ہمارا ملک ہے جس میں جہاں پہلاآوور بیسٹ مین کو سیٹ ہونے پر لگتاہے جہاں تک صحافیوں کی پریشانی کا تعلق ہے اس کو بھی ہم چھوڑ دیتے ہیں خود عمران خان کا لاکھوں ورکر یہ کہہ رہاہے کہ ہم نے عمران خان کو ووٹ تو دیا ہے مگر ہمیں یہ امید نہیں تھی کہ ہمارے حالات اس قدر تنگ ہوجائینگے یقین جانئے” عمران خان کو بہت ووٹ پڑا مگر جس نے ووٹ دیا وہ ووٹر ان کا نا ہوسکاہے۔” آج اس ملک میں ایک طرف سیاسی خانہ جنگی چھڑی ہوئی ہے اپوزیشن کا بھرپورجواب حکومت دیتی ہے ایک گھمسان کا رن میڈیا میں چل رہاہے معلوم نہیں ہورہا ہے کہ حکومت کونسی ہے اوراپوزیشن کونسی ہے ۔ مگران تمام جھگڑوں میں کسی نے یہ پوچھا کہ اس کشمش میں غریب کا جوحال ہورہاہے اس میں ان کو کن گناہوں کی سزادی جارہی ہے آئے روز سونا مہنگا ہوجاتاہے آئے روز پیٹرول کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور آئے روز ڈالر کا کالر مزیداونچا ہوجاتاہے اور ان سب کا بوجھ ان کسانوں اور مزدوروں کے کاندھوں پر آن گرتاہے جنھوں نے کبھی شیر کے نشان کو ووٹ دیا یاپھر کچھ اچھا نہیں لگا توتیر پر مہر لگادی۔ اور پھر تبدیلی کے لیے بلے کے نشان پر ٹھپا لگادیاان تینوں معاملات میں غریب کا کندھامہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے مزید ڈھلکا ہے اس غریب کوسکون کسی دور میں نہیں مل سکا ہے۔ کل صبح میں جب کراچی میں سول ہسپتال کے ایک علاقے سے گزررہاتھا شدید ٹریفک جام تھا ایک نوجوان سے پوچھا کہ بھائی کیا ہوا یہ کیوں ہزاروں لوگ یہاں موجود ہیں کیا کوئی احتجاجی مظاہرہ ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ سب لوگ ایک کلرک کی نوکری کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں میں نے پوچھا کتنی آسامیاں ہیں تو اس نوجوان نے جواب دیا تین سو آسامیاں ہیں!!! مگر یہ لوگ تو تقریباً 3ہزار ہیں میں نے تشویش کا ااظہار کرتے ہوئے کہا تو اس نوجوان نے مسکراکر کر نہیں تین ہزار نہیں اگر آپ بھی اس لسٹ میں شامل ہیں تو تین ہزار ایک ہوئے ۔میں اس کی بات سن کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا جیسے آسمانوں میں زمین پر پھرنے والے ان کیڑے مکوڑوں کے لیے پچاس لاکھ گھراور ایک کروڑ نوکریاں ڈھونڈ رہاہوں ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتآاررہے گا۔