Stealing and showing power, چوری !پھر سینہ زوری
عنوان:چوری !پھر سینہ زوری!
تحریر:۔ ملک شفقت اللہ
ملک میں احتساب کی جنگ جاری ہے جسے متعصب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عوام کو ان تمام ہتھکنڈوں اور باتوں سے دور رہنا چاہئے یا پھر کم از کم نئی خبروں کی تحقیق ضرور کرے۔ نواز شریف کو سزا ہو چکی ہے اور اب زرداری اس احتساب کی زد میں ہے ۔ لوگوں کو لوٹنا ان کا استحصال کرنا چوری کہلاتا ہے ، اور پھر اسے چھپانے کیلئے جھو ٹ بولنا اور دباؤ ڈالنا عیاری کہلاتا ہے ، پھر اسی دولت کے بل پر عوام الناس کا ناس مار دینا بدمعاشی کہلاتا ہے ۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک کی عوام میں حکمرانوں کے چناؤ کا معیار ماضی میں یہی رہا ہے ۔ لیکن اب اس قوم نے اپنی حالت بدلنے کی ٹھانی ہے اور مشکلات درپیش ہیں۔ تیس سالہ تباہی کو سمیٹنے کیلئے قربانی تو دینی ہوگی اور اس کیلئے ہمیں ہر صورت تیار رہنا چاہئے ۔ ملک میں مختلف طبقے سر گرم ہو چکے ہیں اور اس سے ملک دشمن عناصر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کو ہمیشہ سے مضبوط خارجی و داخلہ پالیسیوں کا فقدان رہا ہے ، جس کی ایک بڑی وجہ ناکام غیر دانشمند بیوروکریسی ہے جو محض سفارشوں پر بھرتی ہونے کے بعد چاپلوسیوں سے وقت پاس کرنے والی قوم ہے ۔
پاکستان ہنوز حالت جنگ میں ہے اور جنگ ضروری نہیں کہ عسکری ہتھیاروں سے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بہت سے ہتھیار موجود ہیں ۔ سب سے بڑا ہتھیار ہماری نوجوان نسل ہے جو اسلاف کی تعلیمات سے دور لبرلز کے پیچھے بھاگتے ہوئے بے کار ہوتی جا رہی ہے۔ ان لوگوں کی ذہن سازی میں میڈیا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ماضی یہ میڈیا کتابوں ، جرائد اور اخبارات کی شکل میں تھا تو ذہن سازی کے اصول بھی الگ تھے۔ لیکن اب سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے پوری ایک نسل کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔ ملک میں بھی دانشمندی کا معیار یہ ہے، جو خبر سن لی اس کے پیچھے دوڑ پڑے یہ کبھی نہیں سوچا تحقیق کر لی جائے کہ حاصل ہونے والی خبر سچی ہے یاجھوٹی۔لبرل ازم ، کمیونزم اور سوشل ازم زدہ معاشرہ اخلاقی اقدار سے کوسوں دور عدم برداشت کا متحمل ہو چکا ہے۔ ہر شخص بدلے کی آگ میں جل رہا ہے ، دولت کے اکٹھے کرنے کو کامیابی جان کر امیری اور غریبی کی دوڑ لگی ہوئی ہے جس میں حلال اور حرام کی تفریق ہی نہیں ہے۔ یہ عدم برداشت اور مادیت پرستی و پسندی ففتھ جنریشن وار کا رد عمل ہے جو غیروں کا ایک تسلط ہے جن کے ہتھیار ہمارے اپنے ہی ہیں۔ اور ان کو بدلنے کیلئے محبت بانٹنے کی ضرورت ہے۔سوشل میڈیا اور نام نہاد لبرلز نے ہمارے نظام کے خلاف نوجوانوں کو بھڑکانا شروع کر دیا ہے۔مریم نواز، حمزہ شہباز، بختاور بھٹو زرداری اور ان کے کرائے کے لوگ ، صحافی ، سماجی طبقے سوشل میڈیا پر جان بوجھ کر ایسی ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور بالکل لاتعلق معاملات کو کیس کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ سن کر ہر عام شخص اور نوجوان اسے سچ سمجھ بیٹھتا ہے اور پھر وہ انہی لوگوں کی زبان بولنے لگ جاتا ہے ۔ پاکستان کے اداروں ، فوج کے خلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے پراپیگنڈوں کا حصہ بن جاتا ہے لیکن اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ جانے انجانے میں ایک ان دیکھی جنگ کا حصہ بن چکا ہے۔
اگر ہم نواز شریف کے خلاف شروع ہونے والے کیسز کا پاناما کے آغاز سے 24 دسمبر کے فیصلے تک کا مبہم سا جائزہ لیں تو ہمیں واضح ہو جاتا ہے کہ نواز شریف اپنے خلاف ہونے والے کیسز میں ثبوت پیش کرنے اور بے گناہی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جن کیسز میں ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے میں ادارے ناکام ہوئے ان میں انہیں با عزت بری کیا گیا لیکن جہاں وہ قصوروار ہیں وہاں ان کو پکڑ میں لایا گیا ۔ آصف علی زرداری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں مسٹر ٹین پرسنٹ رہے ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے ان پانچ سالوں میں کس انتہا کی کرپشن کی ۔ ان کی ہٹ دھرمی کا تو یہ عالم رہا ہے کہ سندھ کا ہر بینک منی لانڈرنگ میں ملوث رہا ہے، ہر پولیس اہلکار ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے ، انہوں نے کراچی اور سندھ کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رکھا ہے ان کے ساتھ جس طرح جی میں آئے سلوک برتا جاتا ہے اس کے باوجود آج جب پاکستان کی عدالتِ عالیہ نے کیسز چلانے کا فیصلہ کیا اور ثبوت سامنے آنے سے کئی کیسز کھل رہے ہیں تو پیپلز پارٹی کے عہدیداروں اور ان کے حواریوں کی جانب سے پاکستان کی سالمیت میں عدم استحکام کی دھمکیاں شروع ہو گئیں ہیں ۔ میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند، تف ہے ایسی سوچوں پر اور ان کی چاپلوسیوں پر ۔ گویا حق کی تو کوئی بنیاد ہی نہیں رہ گئی۔ یہ لوگ پتہ نہیں اس ملک کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں کہ جس طرح ان کے جی میں آئے کریں اور جب ان پر کوئی سوال اٹھائے تو یہ اس کے خلاف پراپیگنڈے شروع کر دیتے ہیں۔
پارلیمنٹ میں پبلک اکائنٹس کمیٹی کا کام کرپشن کی تحقیق کرنا ہے اور اس سفارشات مرتب کرنا ہے۔ اس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیر مین شہبا ز شریف کو بنایا گیا ہیگویا کچھ ایسا ہے کہ بلی کو دودھ کی رکھوالی پر لگا دیا گیا ہو۔ کرپشن کے الزام میں گرفتار شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کا چئیرمین بنتے ہی جو پہلا حکم صادر فرمایا اس میں چئیرمین نیب اور ایف آئی اے حکام کو طلب کر لیا جو شہباز شریف اور دیگر کے خلاف کرپشن کے مقدمات کی چھان بین کر رہے ہیں۔ اب وہ مثال صادق آئے گی 146146 الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے 145145۔ پیپلز پارٹی کے کو چئیرمین آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر پیپلز پارٹی کے راہ نما سر عام دھمکیاں دیتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر آصف علی زرداری کو گرفتار کیا گیا تو ملک بھر میں احتجاج کریں گے اور ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ پھر ملک میں امن نہ رہے گا۔ سب سے پہلے تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ اس خوش فہمی کو دل سے نکال دے کہ پاکستان کی عوام ان کی چوری میں ان کا ساتھ دے گی ، دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ملک دشمن عناصر کے سہولت کار بن کر ایسی کسی سرگرمی کے متحمل ہو بھی جاتے ہیں تو اس میں بھی حکومتی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کو فائدہ ہونے والا ہے۔ ہر ذی شعور انسان کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کل ایک دوسرے کی کرپشن کے خلاف بولنے والے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے راہ نما آج ایک دوسرے کے دفاع میں متحد ہو چکے ہیں ۔ یہ تو وہی بات ہو گئی ایک چوری اوپر سے سینہ زوری