گوجر خان (نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم، تجزیہ: محمد نجیب جرال,11 جنوری 2024)—مسلم لیگ ن نے تحصیل گوجرخان کے امیدواران اسمبلی کو پارٹی ٹکٹ الاٹ کردیے ہیں، پارٹی فیصلے کے مطابق 2013ء کا پینل جس نے الیکشن جیتا تھا وہی پینل اس بار بھی الیکشن لڑے گا یعنی این اے 52 سے راجہ جاوید اخلاص جبکہ پی پی 8میں افتخار احمد وارثی اور پی پی 9میں راجہ شوکت عزیز بھٹی امیدوار ہونگے، ٹکٹوں کا فیصلہ ہوتے ہی گزشتہ روز ٹکٹ کے خواہش مند دیگر امیدواران جن محمد حمید ایڈووکیٹ، قاضی وقار کاظمی، کلب عباس، نوید بھٹی اور یحییٰ فیض نے عجلت میں دولتالہ کے مقام پر پریس کانفرنس کی اور پارٹی فیصلے کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا، ان کا کہنا تھا کہ پارٹی ٹکٹ کسی پارٹی ورکر کو دیے جائیں، راجہ شوکت عزیز بھٹی کو ٹکٹ ملنے پر انہوں نے سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے پارٹی قیادت کا غلطی قرار دیا اور اعلان کیا کہ ہم پارٹی کی مرکزی قیادت کو دودن کا ٹائم دیتے ہیں کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے ورنہ ہم اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، راجہ شوکت عزیز بھٹی کے ٹکٹ ملنے پر دوسرا فریق جو خائف ہے وہ ہے پیپلز پارٹی، اب انہیں پی پی 9 جیتنے کی کوئی امید نہیں رہی وہ توراجہ محمد حمید ایڈووکیٹ کو ٹکٹ ملنے کی دعائیں کررہے تھے۔ دوسری جانب سابق صوبائی وزیر چوہدری محمد ریاض نے اپنے بیٹے رمضان ریاض کو پی پی 8سے ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے اور آج باقاعدہ طور پر کرین پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں اور اپنے بھائی بیٹوں اور بھتیجوں سمیت مسلم لیگ ن چھوڑ دی ہے زمان ہاؤس پر کرین پارٹی کا جھنڈا لہرا دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے باغی گروپ کے رد عمل کو سیاسی حلقے غیر دانش مندانہ حرکت قرار دے رہے ہیں، ذرائع کے مطابق تمام امیدواران میں متفقہ طور پر طے ہوا تھا کہ جس کو بھی ٹکٹ ملا اس کی حمائیت کی جائیگی جبکہ یہ شدید ردعمل ان کی اپنی ساکھ کو متاثر کرے گا اور عوام میں ان کی پذیرائی ختم ہوجائیگی، افتخار احمد وارثی اور راجہ شوکت عزیز بھٹی کی جڑیں عام لوگوں میں بہت مضبوط اور یہ دونوں منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، 2018ء کے انتخابات میں راجہ شوکت عزیز بھٹی کو محمد حمید ایڈووکیٹ نے نااہل کرادیا تھا اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا لیکن بری طرح ہار گئے تھے عوامی حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ انہیں پارٹی کے وجہ سے ووٹ مل تو گئے ہیں لیکن ان کا اپنا ووٹ بینک ان کی یونین کونسل تک ہی محدود ہے اور حلقے کے لوگوں میں ان کی شناسائی نہ ہونے کے برابر ہے، جبکہ راجہ شوکت عزیز بھٹی نااہل ہونے اور پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود پارٹی کے ساتھ منسلک رہے اور اپنے احباب اور حلقے کے عوام کے ساتھ رابطہ برقرار رکھا، محمد حمید ایڈووکیٹ انتہائی شریف النفس انسان ہیں لیکن ان کا مزاج اور رویہ بالکل سیاسی نہیں ہے۔ چوہدری محمد ریاض نے 2018ء کے الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر خرگوش کے انتخابی نشان والے امیدوار کی بھرپور حمائیت کی تھی اور مسلم لیگ ن کی ہار کی چیخیں رائے ونڈ تک پہنچانے کا اعلان کیا تھا لیکن بری طرح ناکام ہوئے تھے اور مسلم لیگ ن تینوں سیٹوں (دو صوبائی اور ایک قومی) پر شاندار طریقے سے کامیاب ہوئی تھی۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کی ساکھ کا تعلق ہے تو پورے پاکستان کی طرح تحصیل گوجرخان میں بھی عوام پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں پارٹیوں سے سخت مایوس اور موجودہ مہنگائی اور عوام کش پالیسوں کا انہیں ذمہ دار سمجھتے ہیں، ن لیگی ورکر کا خیال ہے کہ ”چاچو“ کو آصف زرداری اور اسٹیبلشمنٹ نے پوری طرح ٹریپ کرلیا تھا جس کا سراسر نقصان پارٹی کو ہوا جبکہ عوام کا خیال ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی محض اپنے مقدمات ختم کرانے کے لیے حکومت میں آئے تھے اور انہوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا اور چئیرمین تحریک انصاف کی یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ جب ان کی کرپشن پکڑی جائیگی تو تمام چور اکٹھے ہوجائیں گے۔ تحصیل گوجرخان میں ن لیگ کو سخت امتحان کا سامنا ہے، عوام کو سبز باغ دکھانے لیے ان کے پاس کوئی مدعا نہیں ہے، چھوٹے میاں صاحب ”چاچو“ نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا، مہنگی بجلی، مہنگا آٹا، مہنگی چینی اور آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سب کچھ ان کا ہی توکیا دھرا ہے اب عوام کے سامنے کیا لے کر جائیں گے ان کا سخت امتحان ہے۔ راجہ جاوید اخلاص انتہائی شریف اور دیانت دار انسان ہیں ان پر کرپشن کا کبھی کوئی داغ نہیں لگا، کونسلر سے سیاست کا آغاز کیا اور ضلع ناظم کے علاوہ پارلیمانی سیکرٹری تک جا پہنچے، موروثی سیاست کی داغ بیل ڈالنے کی کوشش کی جسے گوجرخان کی عوام نے پسند نہیں کیا اور انہیں ناکام ہونا پڑا اور ان کے دونوں بیٹے عاصم اور قاسم باری باری ہار گئے، جب صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا کبھی نہیں ہارے، ان کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں جانے والے جنوبی پنجاب کے وڈیرے یہ سمجھتے تھے کہ راجہ جاوید اخلاص بھی شائد اپنے علاقے کا کوئی جاگیردار یا وڈیرہ ہے کیونکہ یہ اسمبلی میں صرف بیٹھتے تھے حلقے کے عوام نے انہیں اسمبلی میں کبھی بولتے دیکھا نہ سُنا، اتنے سادہ ہیں کہ ملزم اور مدعی دونوں کے لیے ایس ایچ او کو فون کردیتے ہیں کہ ان کا خیال رکھا جائے، جب تک ضلع ناظم یا پارلیمانی سیکرٹری رہے جو بھی ان کے پاس کسی کام کے لیے گیا اسے کبھی مایوس نہیں یہاں تک کہ اگر کسی نے اپنے گاؤں کے لیے ائیر پورٹ بھی مانگا تو اس سے بھی وعدہ کرلیا کہ انشاء اللہ ہوجائے گا آپ آٹھ دس بندے لے کر آجانا۔ اپنے حلقے میں کم ہی وقت دیتے ہیں، ان کی رہائش گاہ واقع موہڑہ نوری پر زنگ آلود تالا لگا رہتا ہے، جب بھی ممبر اسمبلی بنتے ہیں تو گوجرخان میں شاہد صراف کا بنگلہ ان کا سیکرٹریٹ بن جاتا ہے، گزشتہ مقتدر پارٹی نے جب پنجاب اسمبلی تحلیل کی اورالیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا اعلان کیا توپارٹی نے انہیں مرکز کے بجائے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا کہا تو تیار ہوگئے یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ الیکشن ہوئے ہی نہیں ورنہ ان کی سیاست کا جنازہ نکل گیا تھا۔ گزشتہ روز پریس کانفرنس کرنے والے ٹکٹ کے خواہش مند تمام پانچ افراد سے راجہ جاوید اخلاص نے ٹکٹ دلوانے کا وعدہ کررکھا تھا شائد اس وجہ سے بھی باغی گروپ کو سخت رنج ہے،جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ سن رسیدہ دونوں راجوں کو اب سیاست سے کنارہ کشی کر لینی چاہیے اب ان کی عمر اللہ اللہ کرنے کی ہے ناکہ الیکشن لڑنے کی۔ آخری بات: درج کیے گئے تمام حقائق کے باجود راجہ جاوید اخلاص کا گراف تیزی سے اوپر جارہا ہے۔
Gujar Khan (Pothwar.com, Analysis: Mohammad Najeeb Jarral, January 11, 2024)— The Muslim League-N has allotted party tickets to the Assembly candidates of Tehsil Gujar Khan. The panel will contest the election this time too, i.e. Raja Javed Ikhlas from NA 52, while Iftikhar Ahmed Warsi will be the candidate in PP 8 and Raja Shaukat Aziz Bhatti in PP 9. , Qazi Waqar Kazmi, Kalb Abbas, Naveed Bhatti and Yahya Faiz hastily held a press conference at Daultala and announced rebellion against the party decision, they said that party tickets should be given to a party worker, Raja Shaukat Aziz. After Bhatti got the ticket, he expressed his anger and called it a mistake of the party leadership and announced that we are giving the central leadership of the party time to withdraw its decision, otherwise, we will announce the next course of action.
On the other hand, former provincial minister Chaudhry Muhammad Riaz has announced that his son Ramzan Riaz will leave the party after not getting a ticket from PP8 and today he has officially joined the TLP Party and left the Muslim League along with his brothers, sons and nephews. The TLP Party flag has been hoisted at Zaman House.
Political circles are calling the reaction of the rebel group of PML-N as an unwise move. According to the sources, it was unanimously decided among all the candidates that whoever got the ticket would be supported, and this strong reaction is due to them. Iftikhar Ahmed Warsi and Raja Shaukat Aziz Bhatti have strong roots among the common people and both of them are seasoned politicians. In the 2018 elections, Raja Shaukat Aziz Bhatti was defeated by Muhammad Hameed. The advocate was disqualified and contested the provincial assembly election but lost miserably. There was a general impression among the public that he got votes because of the party but his own vote bank was limited to his union council. And his familiarity among the people of the constituency is negligible, while Raja Shaukat Aziz Bhatti remained attached to the party despite being disqualified and not getting a party ticket and maintaining contact with his friends and the people of the constituency.
In the 2018 election, Chaudhry Muhammad Riaz had strongly supported the candidate after not getting the party ticket and announced that he would convey the cries of PML-N’s defeat to Raiwind, but he failed miserably and PML-N was victorious in all three seats (two provincial and one national).
As far as the reputation of PML-N is concerned, the people in Tehsil Gujar Khan, like the whole of Pakistan, are disappointed with both the People’s Party and the PML-N and consider them responsible for the current inflation and anti-people policies.
Raja Javed Ikhlas is a very honorable and honest person, he never got any stain of corruption, he started politics as a councilor and rose to the level of parliamentary secretary in addition to district nazim, he tried to eradicate the stain of traditional politics which the people of Gujar Khan did not like and had to fail and his two sons Asim and Qasim lost alternately,