Gujar Khan; The provincial assembly elections announced and the candidates have also submitted their nomination papers
صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بظاہراعلان کردیا گیا ہے اور امیدواروں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرادیے
M Najeeb JarralMarch 19, 2023
گوجر خان (نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم، تجزیہ و تحریر اخلاق احمد راجہ,20،مارچ,2023)—صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بظاہراعلان کردیا گیا ہے اور امیدواروں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرادیے ہیں۔ صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 8سے نمایاں امیدواروں میں چوہدری ریاض کے بیٹے چوہدری خرم زمان مسلم لیگ ن، راجہ خرم پرویز پاکستان پیپلز پارٹی، مولانا اجمل تحریک لبیک، چوہدری جاوید کوثر پاکستان تحریک انصاف، آنسہ اشفاق جماعت اسلامی پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کے علاوہ کچھ آزاد امیدواروں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرادیے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 9سے راجہ جاوید اخلاص مسلم لیگ ن، راجہ پرویز اشرف کے دونوں بیٹوں خرم پرویز راجہ و شارخ پرویز راجہ پاکستان پیپلز پارٹی، چوہدری ساجد محمودپاکستان تحریک انصاف، راجہ بابر کرامت تحریک لبیک پاکستان، حبیب نواز قریشی جماعت اسلامی پاکستان،مفتی محسن نواز جنجوعہ جمعیت علمائے اسلام کے علاوہ جہانزیب اکرم منہاس، قاضی وقار احمد کاظمی، راجہ محمد حمید ایڈووکیٹ، چوہدری سرفراز خان راماں، طارق عزیز بھٹی بھی کاغذات نامزگی جمع کرانے والوں میں شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی کا سہرا کس کے سر سجتا ہییہ ایک الگ بحث ہے۔ تحصیل گوجرخان میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت کی سب سے اہم بات کہ صوبائی اسمبلی کے دونوں حلقوں میں راجہ پرویز اشرف کے دونوں بیٹوں اور حلقہ پی پی 8سے جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعت سے کسی مرد کے بجائے ایک خاتون کا کاغذات نامزدگی جمع کرانا ہے۔ سیاسی حلقوں میں اس بات پر شدید تنقید کی جارہی ہے کہ راجہ پرویز اشرف نے تحصیل گوجرخان کو پس ماندہ صوبہ سندھ کی کوئی جاگیر سمجھ رکھا ہے یا کیا گوجرخان اتنا بانجھ ہوگیا ہے کہ راجہ پرویز اشرف کو اپنے حلقے سے اپنے بیٹوں کے علاوہ کوئی موزوں امیدوار ہی نظر نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی تو روایت ہی یہی ہے کہ یہ پارٹی کی چئیرمین شپ اپنے خاندان سے باہر جانے ہی نہیں دیتے لیکن دعویٰ جمہوریت کا۔ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد بلاول زرداری ابھی کم عمر بچہ تھا کہ پوری پارٹی جس میں رضا ربانی،پرویز اشرف،خورشید شاہ اور قمر زمان کائرہ جیسے جید لوگ اس انتظار میں تھے کہ کب بلاول بڑا ہوتا ہے اور پارٹی قیادت سنبھالتا ہے، پھر وہ بڑا ہوا، اس نے پارٹی قیادت سنبھالی اور اب سارے بوڑھے اس کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ اسی روایت اور مثال پر عمل کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے اپنے دونوں بیٹوں کوتحصیل گوجرخان کا وارث اور امیدوار بنایا ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ہر امیدوار بڑے بڑے جلوس کے ساتھ ریٹرننگ افسر کے دفتر گیا لیکن جماعت اسلامی کی خاتون امیدوار کے ساتھ پورے حلقے سے محض تین افراد کھڑے تھے۔ اپنی خاتون امیدوار کے حوالے جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ ”ہم خواتین کے حقوق کے علمبردار ہیں اس لیے اس مرتبہ ہم نے پی پی 8سے ایک خاتون کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ اس کے برعکس پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف جیسی سیکولر جماعتیں خواتین کا استحصال کرتے ہوئے انہیں محض مخصوص نشستوں تک ہی محدود رکھتی ہیں“۔ جماعت اسلامی کی خاتون امیدوار آنسہ اشفاق راولپنڈی کی رہائشی اور ضلعی ناظمہ ہیں۔کلر سیداں کے صحافتی ذرائع کے مطابق اس سے قبل تحصیل کلر سیداں سے جماعت اسلامی کے ایک کارکن حاجی ابرار نے الیکشن لڑنے کی حامی بھر لی تھی اور کاغذات نامزدگی بھی حاصل کرلیے تھے لیکن عین موقع پر ان کو یاد آگیا کہ ان کے بھائی کے چوہدری محمد ریاض مسلم لیگ ن سے تعلقات ہیں چوہدری محمد ریاض کی ناراضگی کے ڈر سے انہوں نے الیکشن لڑنے سے معذرت کرلی۔ کوئی مرد دستیاب نہ ہونے پر جماعت اسلامی کی ضلعی قیادت نے عجلت میں آنسہ اشفاق اور بشریٰ توقیر کے کاغذات نامزگی جمع کرانے کا فیصلہ کیا۔ جماعت اسلامی کے ایک منہ پھٹ کارکن نے طنز کرتے ہوئے بتایا کہ اگر جماعت اسلامی جیتنے کی پوزیشن میں ہوتی تو پھر ٹکٹ قاضی شوکت، راجہ محمد جواد، چوہدری سعید یا مرزا منیر خوش دلی کے ساتھ جماعت اسلامی کا ٹکٹ قبول کر لیتے۔ ذرائع کے مطابق قاضی شوکت تو جماعت اسلامی کے الیکشن لڑنے کو فضول پریکٹس کہتے ہیں۔ جاوید اخلاص اور شوکت بھٹی میں صلح ہوگئی ہے۔ قاضی وقار احمد کاظمی ٹکٹ نہ ملنے پر سخت دلبرداشتہ ہیں اور سوشل میڈیا پر ”سنا تھا کہ سانپ سوسال بعد انسان بن جاتا ہے لیکن کسی انسان کو سانپ بنتے ہوئے پہلی بار دیکھا ہے“ جیسے کمنٹس اپ لوڈ کر چکے ہیں۔اس کے علاوہ راجہ جاوید اخلاص نے کئی لوگوں کو پی پی 9 کا ٹکٹ دلوانے کے وعدہ کررکھا تھا۔ ذرائع کے مطابق محمد خان بھٹی بھی نجی محفلوں میں راجہ جاوید اخلاص کے الیکشن لڑنے پر بیزاری کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ مخالفین بھی طنز کرتے اور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ راجہ جاوید اخلاص اگلی مرتبہ کونسلر کا الیکشن لڑیں گے۔دوسری جانب بعض سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ یہ پی ڈی ایم کی منصوبہ بندی ہے جس میں یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ مرکز میں راجہ پرویز اشرف کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور صوبائی اسمبلی کی دونیں نشستیں مسلم لیگ ن کو دے دی گئی ہیں بہر حال معاملہ جو بھی ہو جہاں راجہ شوکت عزیز بھٹی کے راجہ جاوید اخلاص کے ساتھ کھڑا ہونے سے ان کی پوزیشن مضبوط ہوگی وہیں قاضی وقار احمد کاظمی اور راجہ بابر کرامت کے بدگمان ہونے سے ووٹ بینک متاثر ہونے کے قوی امکان ہیں۔ راجہ بابر کرامت کے مسلم لیگ ن کو چھوڑ کرتحریک لبیک پاکستان میں شامل ہونے سے راجہ بابر کرامت اور ٹی ایل پی دونوں کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے۔اگر انہوں نے بھرپور طریقے سے محنت اور کمپین کی تو مہنگائی و غربت سے تنگ آئے ہوئے عوام میں ان کی مقبولیت بڑھنے مواقع موجود ہیں۔