روات؛ (پوٹھوار ڈاٹ کام،تحریر: محمد نجیب جرال، 17 نومبر 2022)—اہل دانش کا قول ہے کہ کفر کا معاشرہ تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں۔ ناانصافی، بے رحمیو ظلم کی داستانیں سننی یا دیکھنی ہوں تو عدالتوں میں پیش کیے جانے والے مقدمات دیکھ لیں، ہماری جیلوں میں قید ظلم و جبر کی زندہ تصویر قیدیوں کو دیکھ لیں ہر ایک کی الگ دل دہلا دینے والی کہانی ملے گی۔ وطن عزیز میں اصل مجرم تو بچ جاتے ہیں لیکن بیگناہ و بے آسرا لوگوں کو ظلم و ستم کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔ کسی بااثر وڈیرے جاگیردار یا سیاسی و کاروباری بااثر افراد کی انا کی بھینٹ چڑھ جانے والے بے قصور شمار میں ہی نہیں ہیں۔ اہل اقتدار و طاقتور کے ہاتھوں استعمال ہونے والے قانون نافذ کرنے والوں اداروں یا ایجنسیوں کے پاس بے گناہوں کی کھال ادھیڑنے کے لیے ایسے ایسے ہتھکنڈے ہیں کہ الامان الحفیظ۔اورجب یہ ظلم کا نظام ہمارے محکموں میں سرایت کر جائے تو کچھ ایسی ہی کرب و بلا کی داستانیں جنم لیتی ہیں: نومبر 2021ء کو پانچ جوانوں: شیخ محمد سبحان خالد، رضوان ظفر، ذیشان الطاف، امتیاز رسالت اور عدنان عارف کے ایک گروہ کو ایف آئی اے اسلام آباد کے سائبر کرائم ونگ نے پکڑا اور میڈیا میں اس بیان کے ساتھ پیش کیا کہ یہ لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے جال میں پھنساتے اور بعد میں بلیک میل کرتے تھے۔ میڈیا میں اس کا بڑا شوروغا ہوا اور ایف آئی اے کی کارکردگی کو سراہا گیا۔ایف آئی اے نے مذکورہ افراد کے خلاف سائبر کرائم کی جیسی سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے اڈیالہ جیل بھیج دیا۔ ایک سال مقدمہ چلا اور 10نومبر2022 ء کو اسلام آباد کی معززعدالت نے ملزمان کو باعزت بری کرکے رہا کرنے کے احکامات صادر فرمائے اور ایجنسی کے اہلکاروں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کی کہ بغیر ثبوتوں کے بے گناہ افراد کو کیوں چالان کیا۔ ہم نے جب اس سلسلہ میں مذکورہ جوانوں سے رابطہ کیا تو ایک اور ظلم کی داستان کا انکشاف ہوا۔ذرائع کے مطابق اس اجمال کی تفصیل یوں ہے کہ: پانچ جوان شیخ محمد سبحان خالداور اس کے چاروں دوست رضوان ظفر، ذیشان الطاف، امتیاز رسالت اور عدنان عارف گاڑیوں کی خریدو فروخت کا کام کرتے تھے۔ ایک پارٹی سے ان کا کاروباری معاملہ تھا جس سے انہوں نے بھاری رقم وصول کرنی تھی لیکن وہ پارٹی رقم ہڑپ کرنا چاہتی تھی اور مقررہ ٹائم کے بعد بھی رقم کی ادائیگی سے گریزاں تھی۔ پارٹی چونکہ کہ بااثر تھی اس لیے انہوں نے رقم دینے کے بجائے پیشہ ورلڑکیاں ہائر کیں اور انہیں شیخ سبحان اور اس کے کاروباری شراکت دار لڑکوں کے پیچھے لگا دیا۔ ان لڑکیوں نے انہیں اپنے جال میں پھنسایا اور اپنے مالکان کی ہدائیت کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم میں درخواست دے دی اور موقف اختیار کیا کہ یہ جوان انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ سائبر کرائم نے مذکورہ جوانوں کو گرفتار کرلیا اور یوں ظلم کی ایک دل دہلا دینے والی داستان نے جنم لیا۔ شیخ سبحان خالد نے اپنی پسند کی شادی کررکھی تھی اور اس کے دو بہت ہی پیارے بیٹیمحمد ابراہیم شیخ اور محمد اسماعیل شیخ تھے جن کی عمریں بالترتیب 6 اور 4 سال تھیں۔ شیخ سبحان خالد کو اپنی بیوی اور بچوں سے بلا کی محبت تھی۔ بچے تھے بھی بہت پیارے اور اپنے بابا میں ان کی جان تھی۔ جب شیخ سبحان خالد گرفتار ہوا تو گھر میں یہ خبر بجلی بن کر گری اور اس کے والدین اور بیوی بچوں پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔صورت حال واضح ہونے پر اس کے والد انسپکٹر (ر) شیخ خالد محمود نے مقدمہ کی پیروی کرنے کا تہیہ کرلیا۔ شیخ سبحان خالد کے جیل میں جانے کے چھ ماہ بعداٹھائیس جنوری 2022ء کو اس کا چھوٹا بیٹااسماعیل جو اپنے باپ کو بہت یاد کرتا رہتا تھا جدائی کا صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے چند گھنٹے بیمار رہنے کے بعداچانک اللہ کو پیارا ہوگیا۔ گھر میں تو جیسے کہرام مچ گیا لیکن قدرت نے شائد ابھی شیخ سبحان خالد اور اسے کے والد انسپکٹر (ر) شیخ خالد محمود کا ابھی مزید امتحان لینا تھا پندرہ دن بعد شیخ سبحان خالد کا دوسرا بیٹا ابراہیم داغ مفارقت دے گیا۔ بچوں کے دادا کی تو جیسے کمر ہی ٹوٹ گئی۔ ان کابیٹا شیخ سبحان خالد اڈیالہ جیل میں بے بسی و بے کسی کی تصویر بنا اپنے اللہ سے فریاد کناں ہوگیالیکن ابھی امتحان باقی تھا تین ماہ بعد بچوں کی والدہ پچیس مئی 2022 ء کو اپنے خاوند اور بچوں کی جدائی برداشت نہ کر سکی اور دنیا فانی سے کوچ کرگئی اور یوں ایک ہنستا بستا گھرانا ایف آئی اے کے ظلم و جبر کی بھینٹ چڑھ گیا۔انا للّہ وانا الیہ راجعون۔ گزشتہ روز جب شیخ محمد سبحان خالد اپنے گھر پہنچا تو سب کچھ موجود تھا سوائے اس کی محبوب بیوی اور بچوں کے اس کی دنیا اندھیر ہوچکی تھی۔یہ ایک سال اس خاندان کے لیے تباہی و بربادی کی داستان رقم کرگیا اور اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا:کیا ان کے ماتھے پر لگا ہوا بدنامی کا داغ کبھی دھل سکے گا؟ شیخ محمد سبحان خالد اور اس کے دوست کس کس کو اپنی صفائیاں پیش کرتے رہیں گے؟ کیا شیخ سبحان خالد کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ظلم و اذیت کا ازالہ ہوسکے گا؟ کیا اس خاندان کی دل دہلا دینے والی داستان سے ظالموں کو کچھ رحم آیا؟ اس خاندان پر بیتنے والے کرب و بلا کا ذمہ دار کون ہو گا؟ اداروں میں موجود ظالم اور کرپٹ لوگ ایک پاؤ گوشت کے لیے غریب کا بیل ذبح کردیتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر فرعون کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک موسیٰ پیدا کررکھا ہے۔ آج نہیں تو کل انہیں کائنات کی سپریم پاور (اللہ رب العزت) کے آگے جوابدہ ہونا ہے۔ دنیا کی عدالتوں کو اپنی چالاکیوں اور مکروفریب سے تو گمراہ کرسکتے ہو لیکن اللہ رب العزت کی عدالت میں نہیں۔
سب چراغوں کی ہدایات کا مطلب سمجھے چاند روٹھا تو سیاہ رات کا مطلب سمجھے اس پہ اترے تھے محبت کے صحیفے لیکن اک کافرکہاں تورات کا مطلب سمجھے اس سے پہلے تو دعاؤں پہ یقیں تھا کم کم تُو نے چھوڑا تو مناجات کا مطلب سمجھے جب وہ بھر بھر کے لٹاتا رہا اوروں پہ خلوص ہم تہی دست عنایات کا مطلب سمجھے اب کسی اور طرف بات گھمانے والے میں سمجھتی ہوں تیری بات کا مطلب، سمجھے! تجھکو بھی چھوڑ کے جائے تیرا اپنا کوئی تو بھی اک روز مکافات کا مطلب سمجھے