دولتالہ،گوجر خان:(نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم, محمد نجیب جرال،02دسمبر2021)—عاشق علی عرف گونگا دولتالہ کی ایک عوامی شخصیت تھا، بڑا خوش مزاج اور ہر دلعزیز تھا، اس کی عمر تقریباً سال تھی، اس کی ایک بہن جو عمر میں عاشق علی سے بڑی تھی اس کے ساتھ یہ رہتا تھا اس کی بہن بھی گونگی تھی، دونوں بہن بھائی غیر شادی شدہ تھے، 14جنوری 2017کو وہ اچانک منظر سے غائب ہوگیا، اس کی خبر اس کی بڑی بہن جمیلہ نے اپنے سب سے بڑے بھائی شناخت علی کو دی، شناخت علی نے اپنے طور اسے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن عاشق علی نہ ملا، 27جنوری 2017کو اس نے پولیس چوکی دولتالہ میں درخواست دائر کی، اس وقت چوکی انچارج سب انسپکٹر ظفر گوندل تھا، داد رسی نہ ہونے پر شناخت علی نے 14فروری 2017 ایس ایچ او تھانہ جاتلی ضمیر حیدر نقوی کو درخواست دی کے گونگا آخری بار ندیم درزی نامی شخص کے گھر جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا اس کے بعد وہ غائب ہوگیا، پولیس نے 365 ت پ کے تحت مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی، پولیس نے ندیم درزی کو شامل تفتیش کیا لیکن ظفر اقبال گوندل جوکہ اس کیس کا تفتیشی بھی تھا اس نے ندیم درزی کو بے گناہ قرار دیکر رہا کر دیا، ٹھیک چار ماہ بعد گونگے کی بڑی بہن جمیلہ کو گھر میں بے دردی سے قتل کردیا گیا، اب کی بار پولیس نے گونگے کے بھتیجوں خالد آرائیں اور عاصم آرائیں کو شامل تفتیش کیا تو دونوں بھائیوں نے جو اس وقت سعودی عرب ملازمت کررہے تھے اور انہی دنوں چھٹی گزار کر واپس گئے تھے حرم پاک خانہ کعبہ میں کھڑے ہوکر قرآن پاک پر حلف دیا کہ ہمارا اپنے چچا کی گمشدگی یا پھوپھی کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے، قتل کبھی ضائع نہیں ہوتا اور انشااللہ بہت جلد اصل قاتل بے نقاب ہونگے، دیہات فوکس نے ان کے حلف اور بیانات کو بھرپور کوریج دیتے ہوئے پولیس کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی تھی۔ دولتالہ میں گزشتہ روز اس وقت بھونچال آگیا جب ایک مکان کی کھدائی کرتے ہوئے انسانی ہڈیاں برآمد ہوئیں اور پتہ چلا کہ یہ مکان اسی ندیم درزی کے پاس کرائے پر رہا ہے جس کے پاس عاشق علی عرف گونگا آخری بار جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا، وہی ندیم درزی جسے ظفر گوندل نے اپنی تفتیش میں بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کردیا تھا، اس مکان معروف سیاسی و سماجی شخصیت علاؤالدین قریشی کی ملکیت تھا جس گزشتہ دس سال سے ندیم درزی کرایہ دار تھا، علاؤالدین نے اپنا یہ مکان چند ماہ قبل سجاد شیخ کو فروخت کیا تھا اور سجاد شیخ تہہ خانے بنانے کے لیے اس کھدائی کرارہا تھا، جب اس مکان کی کھدائی کی جارہی تھی تو عینی شاہدین کی مطابق ندیم درزی بے چین ہوگیا اور وہ بار بار وہاں جاکر مزدوروں کو ہدایات جاری کرتا رہا کہ اس جگہ سے کھدائی نہ کرو کیونکہ یہاں گٹر ہے اور دیواریں گر جائیں گی وغیرہ وغیرہ یعنی جس جگہ اس نے گونگے عاشق علی کو قتل کرکے دفنایا ہوا تھا وہا ں سے وہ مزدوروں کی توجہ ہٹانا چاہتا تھا، بہر حال جب ہڈیاں ملیں اور بھائی نے مصنوعی دانت، زیر استعمال انگوٹھی اور ازار بند میں لگے ہوئے موتیوں کی وجہ سے پہچان لیا کہ یہ اس عاشق علی کی باڈی کی ہی ہڈیاں ہیں تو پولیس نے فوراً ندیم درزی کو ڈھونڈ کر گرفتار کرلیا بعد میں اس کی نشاندہی پر باقی ہڈیاں بھی برآمد کرلیں جو ندیم درزی دوران کھدائی شام کو مزدورں کے چھٹی کرجانے کے بعد چوری چھپے نکال کر کسی اور جگہ دفن کردی تھیں۔ پولیس کی تفتیش کے دوران ندیم نے اعتراف جرم کرلیا کہ دونوں بہن بھائیوں کو اسی نے ہی قتل کیا ہے، ذرائع کے مطابق اس نے وجہ قتل کہ بتائی کہ میں گھر میں داخل ہوا تو گونگا میرے بیٹے کے ساتھ بدفعلی کررہا تھا جسے میں برداشت نہ کرسکا اور اس کے سر پر کسی آہنی شے وار کیا جب وہ بے ہوش ہوگیا تو اسے قتل کرکے مکان کے اندر ہی اسے دفنا دیا، جمیلہ کو قتل کرنے کی یہ وجہ بتائی کہ وہ آتے جاتے لوگوں کو بتاتی تھی کہ گونگے کو ندیم نے ہی قتل کیا ہے اور مجھے رستے میں روک بھی لیا کرتی تھی۔ عوامی رائے کے مطابق اگر اس کے اعتراف کو سچ بھی مان لیا جائے تو ذہن میں کئی سوالا ت جنم لیتے ہیں: ندیم درزی کو جب چوکی انچارج اقبال ظفر گوندل نے بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا تھا تو اب اسے گونگی سے کیوں خطرہ تھا؟ تفتیشی ظفراقبال گوندل نے ندیم درزی کو کیوں بے گناہ قرار دیا؟ ؎ ذرائع کے مطابق اب بھی ظفر گوندل کو جب ندیم درزی کی گرفتاری کا علم ہوا تو اس نے اس کیس پر اثر انداز ہونے کی پوری کوشش کی ہے، ندیم درزی کے گرفتار ہونے پر سب انسپکٹر ظفراقبال گوندل کیوں خوفزدہ ہے؟ عوامی و سماجی حلقوں نے ندیم درزی کے وجہ قتل والے بیان کو مسترد کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ندیم درزی منشیات کا عادی ہے اس کی بیوی کے چال چلن پر بھی سوالیہ نشان ہے اورسب انسپکٹر ظفراقبال گوندل پر یہ الزام بھی تھا کہ اسکے ندیم درزی کی بیوی کے ساتھ ناجائز مراسم تھے جس کا کہ ندیم درزی کو بھی علم تھااس لیے اس میں اتنی غیرت پیدا ہی نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ گونگے کو قتل کرتا، اس کے پیچھے حقائق کچھ اور ہیں جنہیں چھپایا جارہا ہے، گونگی اور گونگے کو اکیلے قتل کرنا ندیم درزی کے بس کی بات ہی نہیں تھی، ندیم درزی کی بیوی کو ابھی تک پولیس نے گرفتار کیوں نہیں کیا؟یہ الگ سے ایک سوال ہے۔ اس سے قبل بھی اس کیس کے سلسلے میں پولیس پر کروڑوں روپے بٹورنے کے الزامات ہیں کہیں اب بھی کوئی ایسا ہی معاملہ تو نہیں ہوگا؟ یہ ہیں وہ سوالات جو عوام کے ذہنوں میں ہیں اور پولیس پوری سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقائق معلوم کرنا ہونگے۔ خالد آرائیں اور عاصم آرائیں کی یہ بات سچ ثابت ہوئی کہ پولیس صحیح تفتیش نہیں کررہی تھی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قتل چھپے گا نہیں ایک نا ایک دن سچ سامنے آکر ہی رہے گا اور اصل قاتل پکڑے جائیں گے۔ اب لواحقین نے سی پی او راولپنڈی اطہر اسماعیل سے اپیل کی ہے کہ وہ 14/02/2017 کے پولیس چوکی دولتالہ کے انچارج ظفر اقبال گوندل اور HIU تھانہ جاتلی کے تفتیشی سب انسپکٹر شریف کو چارج شیٹ کریں جنہوں نے دوہرے قتل کے مرتکب ندیم کو بے گناہ قرار دے کر مال بنایا اور خود اس کیس کی انکوائری کریں