Gujar Khan; Political dairy; PML-N can win if it ends factionalism, otherwise the PPP will take poll position, while the PTI, like the PML-Q, will see the same fate.
سیاسی ڈائری, اگر مسلم لیگ ن میں گروہ بندی ختم ہوگئی تو میدان مار لے گی ورنہ پیپلز پارٹی مرد میدان ٹھہرے گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف جیسے ق لیگ غائب ہوئی تھی ایسے ہی ہواؤں میں تحلیل ہوجائے گی
گوجرخان(نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کام,تجزیہ: محمد نجیب جرال )—پی ڈی ایم الگ ن ظریات و افکار رکھنے والی پارٹیوں کا مجموعہ تھی سیاسی ماہرین پہلے ہی پیشن گوئی کرچکے تھے کہ یہ بیل مینڈھے نہیں چڑھنے والی اور پھر ہوا بھی یہی کہ زرداری کی مفاد پرستانہ سیاست نے بیچ چوراہے ہنڈیا پھوڑ دی،اس تحریک نے وقتی طور پر ملکی سیاست میں ہلچل تو مچائی لیکن مختلف نظریات کی وجہ سے حکومت پر کوئی موثر دباؤ نہ ڈال سکی، گو کہ یہ تحریک غیر موثر رہی لیکن اس سے یہ ضرور ہوا کہ وہ مقامی قائدین و کارکنان جو جمود کا شکار تھے متحرک ہوگئے۔
تحصیل گوجرخان میں حکومتی ممبران اسمبلی حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے کارنر ہوچکے ہیں، مہنگائی و بے روزگاری اور انفراسٹرکچر کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے صوبائی ممبران اسمبلی کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے، وہ پارٹی جس نے ہمیشہ تھانہ کچہری کی سیاست کو ہدف تنقید بنایا تھا اس کے ممبران پر کبھی چوکی انچارج تو کبھی تھانیدار کبھی پٹواری تو کبھی تحصیلدار کے تبادلے کے الزامات ہیں، عوامی و سماجی حلقوں میں ان کی تھانہ کچہری کی سیاست ہدف تنقید بنی ہوئی ہے، دولتالہ گوجرخان روڈ ہو یا گوجرخان بیول روڈ سخت ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں، غربی گوجرخان میں رتیال درکالی اور پرانا واپڈا دفتر تا مداری لنک روڈ کی خستہ حالی ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری ساجد محمود کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے، تحصیل دولتالہ کے دعوے بھی ہوا میں تحلیل ہوچکے ہیں، سیاسی و سماجی حلقے تحصیل دولتالہ کا ذکر مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں کرتے ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ کوئی معجزہ ہی ہوگا اگر پاکستان تحریک انصاف کا کوئی امیدوار آئندہ عام انتخابات میں کامیاب ہوجائے۔
پیپلز پارٹی محض راجہ پرویز اشرف سابق وزیراعظم کی وجہ سے نظر آرہی ہے لیکن کب تک عوام کو سبز خواب دکھا کر ووٹ بٹورنے والے عوام کو محض اپنی مجبوریاں بتا کر ٹرخا رہے ہیں، لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ ممبرقومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو حکومت فنڈز دیتی ہے یا نہیں ہمیں تو اپنے کام چاہییں جو راجہ پرویز اشرف کرنے سے قاصر ہیں، راجہ پرویز اشرف کی سیاست فاتحہ خوانیاں اور ولیمے اٹینڈ کرنے اور فوٹو سیشن تک ہی محدود ہو گئی ہے، آج کل سابق ایم پی اے راجہ شوکت عزیز بھٹی اور راجہ پرویز اشرف میں گاڑھی چھن رہی ہے، سیاسی ذرائع کے مطابق راجہ شوکت عزیز بھٹی کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے امکانات روشن ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن میں ان کی جگہ پر قاضی عبدالوقار کاظمی نے سنبھال لی ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائدین میں راجہ جاوید اخلاص اور قاضی عبدالوقار کاظمی کافی متحرک ہیں، راجہ شوکت عزیز بھٹی کے بعد حلقے میں کافی خلا محسوس کیا جارہا تھا، قاضی عبدالوقار کاظمی کے متحرک ہونے سے مسلم لیگ ن کی سیاست میں بھی جان پڑ چکی ہے،بہت کم وقت میں اپنی جگہ بنائی ہے کافی متحرک شخصیت ہیں اور اپنی پارٹی اور حلقے کے لیے اثاثہ ثابت ہونگے، مسلم ن کا ایک اور گروپ جس کی قیادت چوہدری خورشید زمان کررہے ہیں وہ بھی حال ہی میں متحرک ہوا ہے، حلقے کے عوام کا خیال ہے کہ چوہدری خورشید زمان پیراشوٹر ہیں اور عین اس وقت متحرک ہوتے ہیں یا حلقے میں نظر آتے ہیں جب عوام میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے، عوام میں موقع پرست کی حیثیت سے مشہور ہیں، جو بھی ہو عوام صرف راجہ جاوید اخلاص اور اب عبدالوقار کاظمی کو جانتے ہیں اور ان کے مداح ہیں۔
دیگر مذہبی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی اپنی صاف ستھری قیادت اور سیاست کے حوالے ایک مقام رکھتی ہے، اس کے پاس صاف شفاف دیانتدار قیادت موجود ہے لیکن رائج عوامی انداز سے دور ہونے کی وجہ سے عوام میں پذیرائی نہیں مل رہی، راجہ محمد جواد اور چوہدری عابد حسین ایڈووکیٹ متحرک اور عوام میں مقبول ہیں، پڑھے لکھے اور شفاف کردار کے مالک ہیں۔
اگر مسلم لیگ ن میں گروہ بندی ختم ہوگئی تو میدان مار لے گی ورنہ پیپلز پارٹی مرد میدان ٹھہرے گی جبکہ سیاسی ماہرین کے مطابق پاکستان تحریک انصاف جیسے ق لیگ غائب ہوئی تھی ایسے ہی ہواؤں میں تحلیل ہوجائے گی، جب عام انتخابات کا میدان سجے گا تو پارٹی پوزیشن واضح ہوگی، جوڑ توڑ کے بعد حتمی تجزیہ ممکن ہوگا