سماج کے من میں پھیلا حبس
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی
بارش نے سارئے ماحول کو خوشگوار بنادیا تھا۔ حبس کے مارئے لوگ روح کی تازگی کے لیے سڑکوں گلیوں بازاروں میں نکل آئے تھے۔سُنبل بھی اُسی شہر کی باسی تھی جہاں حبس نے بُرا حال کر رکھا تھا۔ ماحول کے حبس نے جہاں چہروں کو گہنا کر رکھ دیا تھا وہاں سماج میں موجود حبس نے روح کو چیرپھاڑ ڈالا تھا۔ زخم تو بہت معمولی لفظ ہے اُس روگ کے لیے جس روگ کی وجہ سے سُنبل اپنے گھر کی چاردیواری کو خیر باد کہہ آئی تھی۔ بیمار ماں بھائی اور بہنوں کی محبت نے اُس کے راستے کو روکنے کی کوشش کی لیکن سنبل نے اپنے دماغ کو جھٹک دیا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی غیر مرئی قوت اُسے گھر سے نکلنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سنبل چوبیس سال کی ایک خوبرو دوشیزہ تھی اُس کی آنکھوں میں بھی وہ سپنے تھے جن سپنوں کیْ آنکھ کے رستے سے روح میں موجود محبت کی تمازت جوانی کے ساتھ ساتھ مزید پروان چڑھتی چلی جاتی ہےْ سترہ سال کی تھی تو باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ ایک بھائی تھا جو ایک کارخانے میں ملازم تھا جس سے گھر کی گزر بسر ہورہی تھی۔ سنبل سے بڑی تین بہنیں تھیں جو ابھی تک بیاہی نہ جاسکی۔
تھیں۔سنبل کی ماں بیٹیوں کی شادی نہ ہونے کے سبب چار پائی سے لگ گئی تھی۔ سنبل نے بی اے کرنے کے بعد گھر میں ٹیوشن سنٹر بنا لیا تھا اور بچوں کو پڑھانے لگ گئی تھی۔ یوں اُس کے ساتھ اُس کی باقی بہنیں بھی پڑھاتی اور گھر کے اخراجات میں آسانی پیدا ہوگی۔ سنبل جب فرسٹ ائیر میں پڑھتی تھی تو کالج آتے جاتے عثمان سے اِس کی آنکھیں دو چار کیا ہوئیں ۔دونوں ایک دوسرئے کی طرف کھنچتے چلے گئے ۔ عثمان اُس سے تین سال بڑا تھا اور مقامی کالج میں فورتھ ائیر کا طالب علم تھا۔ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ گھر والوں سے چوری چھپے باغ جناح ،ریس کورس پارک میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ محبت کی لڑی میں دونوں ایسے پروئے گئے کہ ساری زندگی ساتھ رہنے کے عہد و پیمان کر بیٹھئے۔عثمان کا باپ شہر کا ایک معروف تاجر تھا یوں روپے کی ریل پیل تھی۔ عثمان نے مصمم اردہ کرلیا تھا کہ وہ سنبل کو ہر صورت اپنائے گا۔ سنبل نے اپنی بڑی بہنوں سے بات کی ۔ لیکن بڑی بہنوں کے رشتے ابھی تک طے نہیں ہوئے تھے ایسی صورت میں سب سے سے چھوٹی کی شادی کیسے ہو سکتی تھی وہ بھی محبت کی شادی۔ ماں کو جب پتہ چلا تو اُس نے سنبل کو صاف صاف لفظوں میں سمجھا دیا کہ یہ محبت وغیرہ کی بیماری مت پالو سب فضول ہے۔ ابھی تمھاری تینوں بہنیں گھر بیٹھی ہیں۔دوسرا ہمارا عثمان کے ساتھ کیا جوڑ ۔وہ ایک امیر زادہ اور ہم ٹھرئے دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے۔ سنبل نے بہتیرا اپنی بہنوں کو رام کرنے کی کوشش کی لیکن اُس کی باتوں کو دیوانگی قرار دئے کر سب نے جھٹلادیا۔ بس آج جب بارش ہورہی تھی تو عثمان کا ایس ایم ایس سُنبل کو موصول ہوا کہ بارش رُکتے ہی تم ریگل چوک میں دھی بھلے والے سٹال کے قریب پہنچ جانا۔اور یوں سنبل بارش رُکتے ہی گھر سے چل پڑی تھی شناختی کارڈ اور اپنی تعلیمی اسناد کو اُس نے ساتھ لے لیا تھا۔ جیسے ہی وہ ریگل چوک پہنچی عثمان نے اُس کے قریب آکر کار کو بریک لگائی اور سُنبل سوار ہوگئی ۔ سنبل پریشان تھی اُسے ڈر سا لگ رہا تھا۔ دل ہول کھا رہا تھا۔ تھوری دیر میں وہ دونوں کچہری میں پہنچ چکے تھے اُنھوں وہاں نکاح کیا۔ عثمان کا ایک دوست بھی وہاں موجود تھا جس نے نکاح کے معاملات کو نبٹایا تھا۔ اُدھر ایک دم سنبل کے جانے سے گھر میں کہرام مچ گیا۔ سب نے چیخ و پکار شروع کردی تھی۔ بھائی کو فون کرکے گھر بلا لیا گیا۔ ماں نے تب جاکر بھائی کو بتایا اِس طرح سنبل کی ایک لڑکے کے ساتھ دوستی تھی اور وہ شادی کرنا چاہ رہے تھے۔شاید وہ اُس کی طرف ہی گئی ہو۔بھائی یہ سن کر آگ بگو لہ ہو گیا اُس نے فون کر کے اپنے دو تین دوستوں کو بلا لیا اور عثمان کے گھر وہ لوگ پہنچ گئے۔ گیٹ پر کھڑئے گارڈ سے عثمان کے متعلق پوچھا تو گارڈ نہیں نفی میں جواب دیا کہ وہ گھر نہیں ہے۔ سنبل کا بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ شہر کے بڑے جو تین ہوٹل تھے وہاں پہنچ گیا اور کمروں کی بکنگ کی معلومات اکھٹی کرنا شروع کردیں۔ لیکن وہاں بھی اِس طرح کے کسی جوڑئے کی فوری آمد کے حوالے سے کوئی خبر نہ مل سکی۔ سنبل کے بھائی نے فوری طور پر سنبل کے
موبائل فون کا ڈیٹا نکلوایا جس سے پتہ چلا کہ وہ اسی شہر میں ہیں اور شہر سے بیس کلو میٹر دور ایک فارم ہاوس میں موجود ہیں۔ سنبل کے بھائی کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ فارم ہاوس پہنچ گیا۔ فارم ہاوس کے گارڈ کو انہوں نے یر غمال بنا لیا اور وہ اِن چاروں کو اُس کمرئے میں لے گیا جہاں عثمان اور سنبل موجود تھے۔ دروازہ جیسے ہی کھولا گیا تو سنبل کے بھائی نے اور اُس کے دوستوں نے آتشیں اسلحے سے دونوں کو موقع پر مار ڈالا۔ واپسی پر گارڈ کو بھی اُنھوں نے قتل کر دیا۔ سنبل کے بھائی نے تھانے آکر گرفتاری دئے دی اور باقی دوستوں کو فرار کروادیا۔ پولیس کی تفتیش میں بھی سنبل کے بھائی نے یہ ہی موقف رکھا کہ وہ اکیلا ہی تھا جس نے سنبل اور عثمان کو قتل کیا۔ ماں جو پہلے ہی بیمار تھی اِس واقعہ کے فوراً بعد فوت ہوگئی۔کوئی بھی گوا ء نہ ہونے کی وجہ سے اور استغاثہ کے جانب سے عدم دلچسپی کی بناء پر سنبل کے بھائی کو رہا کردیا گیا۔ آج بھی اُس گھر میں سنبل کی تینوں بہنیں موجود ہیں نہ تو اُن میں سے کسی کی شادی ہوئی ہے اور نہ اُن کے بھائی نے شادی کی۔ گھر میں خاموشی نے ڈیرئے ڈالے ہوئے ہیں اور شاید وہ تینوں بہنیں اپنی اپنی موت کی منتظر ہیں کہ اِس قید بامشقت زندگی سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں۔ دیکھیں کب موت کا فرشتہ اُن پر رحم کھاتا ہے۔