Conspiracy against Pak army /پاک آرمی کے خلاف سازشیں
پاک آرمی کے خلاف فلمیں سازشیں
عبدالوارث ساجد
پاکستان کی فوج پوری دنیا کے ملکوں کی سینکڑوں افواج میں سے واحد فوج ہے جو بیک وقت ایک نہیں بلکہ درجنوں ملکوں کی طرف سے پاکستان پر مسلط کی گئی درپردہ جنگ کو کئی سال سے لڑ رہی ہے پاک فوج ملکی سرحدوں پر بھی اور پاکستان میں چھپے اندرونی دشمنوں سے بھی ایک عشرے سے محیط دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف عمل ہے پاکستان کے وہ دشمن جو پاکستان کے اندر چھپ کر پاکستان کی سا لمیت کے درپے ہیں جنہیں پاکستان مخالف ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ہر طرح کی سپورٹ کر رہی ہیں ایسے دشمن ممالک کے گٹھ جوڑ کے باوجود بھی پاک فوج کی کامیابی ہی ہے کہ یہ مشرق و مغرب کی سرحدوں پر بھی اور پاکستان کے اندرونی محاذوں پر بھی کامیابی و کامرانی سے وطن پاکستان کا دفاع کر رہی ہے ۔ ایسے ہی پاکستان محافظ آئی ایس آئی دنیا کی واحد خفیہ ایجنسی ہے جوپاکستان مخالف ایجنسیوں کے خفیہ ایجنڈوں ان کے جاسوسوں اور ایجنٹوں کے ناپاک ارادے خاک میں ملا رہی ہے۔ دشمن جب میدان جنگ میں شکست کھاتا ہے تو وہ سیخ پا ہو کر پروپگنڈے کا میدان چنتا ہے اس تناظر میں دیکھیں تو پچھلے ایک عشرے سے پاکستان کے دفاعی اداروں پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بے تحاشاپروپگنڈہ جاری و ساری ہے۔ یہودی لابی میڈیا کے ذریعے بھی پاکستان آرمی کو بدنام کر رہی ہے اور خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے بھی۔ پاکستان کاسب سے بڑا دشمن انڈیا پہلے دن سے ہی پاک فوج کے خلاف ہر محاذ پر زہراگلتا چلا آرہا ہے۔ لیکن جب سے پاکستان آرمی نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے جوانوں کا لہوبہا کر بلوچستان میں بھارت کے مکروہ منصوبے کو خاک میں ملایا ہے تب سے اس نے اپنا اصلی روپ دکھاتے ہوئے پاکستان آرمی کے خلاف ایک محاذ کھول دیا ہے۔ بھارت چونکہ برصغیر میں سب سے بڑی فلم انڈسٹری رکھتا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اب اس فلم انڈسٹری سے دھڑا دھڑ پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف فلمیں بننا شروع ہو گئی ہیں۔ گزشتہ سال میں پاک آرمی کے خلاف 1971ء کی جنگ کے سلسلے میں بھارت کی طرف سے دو فلمیں بنائی گئیں جن میں انڈیا نے پاکستان آرمی کے خلاف ایک فلم 1971ء بنائی جو بنگلہ دیش کے حوالے سے لڑی جانے والی جنگ میں قید ہونے والے بھارتی فوجیوں کے متعلق ہے۔ بھارت نے اس فلم میں پاک فوج کے خلاف پڑوپیگنڈہ کیا ہے کہ پاکستانی فوج نے بھارت کے 56 فوجی جنگ کے بعد بھی پاکستان کی مختلف جیلوں میں بندرکھے جو وہاں1988ء تک موجود رہے پاکستان کی فوج جنیوا کنونش کی خلاف ورزی کرتی رہی حالانکہ انہیں جنگ ختم ہونے کے بعد واپس انڈیا بھیجا جاناچاہئے تھا۔
فلم میں دیکھایا گیاہے کہ پاک فوج ان پر بہت ظلم کرتی ہے اور تشدد کی وجہ سے یہ قیدی اپنا نام تک بھول جاتے ہیں ان کی یادداشت چلی جاتی ہے جب ریڈکراس اور ہیومن رائیٹس کے لوگ جیل کا دورہ کرتے ہیں تو بھارتی قیدیوں کو پاکستان بھر کی تمام جیلوں سے نکال کر چکلالہ میں قائم کیئے گئے فوجی کیمپ میں رکھا جاتا ہے وہاں سے پانچ فوجی اس وقت بھاگ نکلتے ہیں۔ جب پاکستانی فوج 14اگست کی تقریب میں گانا سن رہے ہوتے ہیں اور تقریب کے بعد گانے والی ریڈکراس کو بتاتی ہے اور وہ وہاں پہنچتے ہیں فوج کے افسر بدتمیزی سے ان کے ساتھ پیش آتے ہیں بلاآخر تمام بھاگنے والے فوجی ایک ایک کر کے مرتے جاتے ہیں۔
اس فلم میں پاکستان کو انتہائی غیر ذمہ دار ملک ثابت کیا گیا ہے جو نہ جنیوا کنونش کے قوانین مانتا ہے اور نہ ہی ریڈ کراس کے ساتھ تعاون کرتا ہے کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان فوج کاامیج خراب کیا جائے اور اسے ایسی فوج کے طور پر پیش کیا گیا جو چند بھارتی فوج کے آگے بے بس ہو۔ ایسے ہی پاک آرمی کے خلاف ایک فلم راضی بنائی گئی راضی کی کہانی یوں ہے کہ ایک لڑکی سہمت (عالیہ بھٹ) جو مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر ہے اور وادی کی دوسری کالج گوئنگ گرلز کی طرح ہی سادہ مزاج ہے، اُس کے والد ہدایت (رجت کپور)، بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی میں اہم عہدے پرفائز ہیں، یہ 71ء کاماحول ہے جب مشرقی پاکستان کے محاذ کی وجہ سے پاکستان اوربھارت میں خوب ٹینشن ہے اور جنگ کے امکانات پائے جاتے ہیں ہدایت کی دوستی پاکستان کے بریگیڈیئر سید(ششیر شرما) سے ہے، دونوں مل کر دوستی کورشتے داری میں بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور مقبوضہ وادی کی سہمت کی شادی پاکستان کے بریگیڈیئر سید کے بیٹے اقبال (وکی کوشل) سے کر دی جاتی ہے شادی کی آڑ میں سہمت سے جاسوسی کا کام لیا جاتا ہے تاکہ جنگ ہونے پر پاکستان کے فوجی راز بھارت پہنچیں اور یوں وہ برتری حاصل کر سکے شادی سے پہلے سیدھی سادی سہمت کی ٹریننگ ہوتی ہے اور پھر وہ شادی کے بعد اپنے سسرال پاکستان آجاتی ہے جہاں سہمت کی زندگی ہر روز ایک رسک کی طرح گزرنے لگتی ہے، کیا پتا کب راز کھل جائے اور وہ دن سہمت کی زندگی کاآخری دن ہو شوہر اقبال، سہمت سے بہت پیار کرتا ہے، اس کے ساتھ رہتے ہوئے سہمت کی زندگی بدلنے لگتی ہے لیکن مشن نہیں، آخر تک وہ پاکستان میں رہ کر بھارت کے لیے جاسوسی کرتی رہتی ہے، یہاں تک آخر میں پستول تان کر کہتی ہے ’وطن سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں‘ میں بھی نہیں۔۔۔!
افسوس ناک بات یہ ہے کہ بولی وڈ کو ایسے وقت ا ورحالات میں دوستی اور محبت کی بات کرنی چایئے، ناکہ اپنے غلیظ پروپیگنڈے کے ذریعے فلموں کی تیاریاں! صد افسوس کہ ایک طرف تو پاکستان کی حکومت انڈیا کی ہر طرح کی دہشت گردی پر صبر سے کام لے کر اس خطے کے امن کو سلامتی دے رہی ہے اور دوسری طرف بھارتی حکومت مسلسل پاکستان مخالف سرگرمیاں تیز کر رہی ہے ایسے ہی بھارتی فوج لائن آف کنٹرول اور کشمیر میں دہشت گردی کر رہی ہے اور پاک فوج پھر بھی صبر سے کام لے رہی ہے مگر بھارت نے پچھلے سال ایک ہی مہینے میں تین اینٹی پاکستانی فلمز راضی، عمرٹا اور وین او باما لوڈ اُسامہ! بنا کر ثابت کیا بھارت پاکستان مخالف سازشیں کبھی کم نہیں کرے گا ۔ بھارت اپنی ایسی ہی گندی حرکتوں کی وجہ سے عالمی سطح پر سبکی اٹھاتا ہے مگر ایسی اوچھی حرکتوں سے باز نہی ٓاتا ۔ دنیا نے بارہا دیکھا کہ بھارت کی سازشوں کے نیتیجے میں ہمیشہ پاک فوج نے صبر کا دامن نہی چھوڑا تا کہ خطے کا سکون برباد نا ہو ۔ اسی امن پسندی کی وجہ سے تو ہم پاکستانی سافٹ ہارٹڈ ہیں، بھارتی چاہے جس قدر الزامات عائد کریں اور جتنے بھی چھوٹے پڑجائیں، سچ یہ کہ ہمارے یہاں ان کی فلمیں، ان حالات میں بھی ریلیز ہورہی ہیں اور انڈیا والے ہمارے اُن فن کاروں پر بین لگائے بیٹھے ہیں جن کی وجہ سے ان کی فلمیں سجتی سنورتی ہیں، راحت و عاطف کے ذریعے ہندی فلمی موسیقی کوکھوئی نغمگی واپس ملی اور بھارت کے سب سے بڑے سپراسٹار سلمان تو اپنی کسی فلم کو راحت کے بغیر ادھوری ہی سمجھتے ہیں! ایسے ہی پاکستان میں جو بھارتی فن کار آتے ہیں، اُنہیں پاکستان اور یہاں کے میڈیا نے سرآنکھوں پر بٹھایا، نفرت ظاہر کرنے والے ملک سے آنے والے ان انسانوں کو پاک سر زمین پر محبت اور صرف محبت ملی مگر دوسری طرف نفرت کی اندھی آگ ہے جو کسی طرح بھی ٹھندی پڑنے کا نام نہی لے رہی ۔ جب بھارتی خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے پر آمادہ ہوں تو کوئی کیسے سمجھائے؟راضی کے ٹریلر میں پاکستانی رُوپ دھارنے والی مقبوضہ کشمیر کی سہمت (عالیہ بھٹ) پاکستانی شوہر اقبال (وکی کوشل) پرپستول تانے بھارتی پروپیگنڈے کی زبان میں کہتی ہے ’وطن سے زیادہ کچھ نہیں‘ میں بھی نہیں۔۔۔! تو یہ سبق ، پیغام، نصیحت ہم پاکستانیوں کے لئے بھی ، ایک اعلان ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف ہر وہ قدم اٹھا سکتا ہے جو اس کے وطن کا تقاضا ہے یعنی جو ہندو انتہا پسند چاہیں گے اور وہ ایسا ہی کر رہے ہیں تو ، پھر ایسی راضی سے ہماری مکمل ناراضی بجا اور اسی لیے ہم لعنت بھیجتے ہیں ایسی فلم پر اور اس کے بنانے والوں پر جن کی کوششوں سے امن کا خون ہوتا ہے،بارود کی بو ، نفرت کی آنچ آتی ہے! افسوس تو یہ بھی ہے کہ سیکولر دیس کے مسلمانوں کو وفاداری کا سرٹیفکیٹ پانے کے لیے ہندوؤں سے بڑھ کر نفرت ظاہر کرنا پڑتی ہے! اور بھارتی فلم انڈسری میں پاکستان مخالف بننے والی فلموں پر چپ سادھنی پڑتی ہے۔ بھارتی شاعرجاوید اختر جو کئی بار پاکستان آچکے ، پچھلے سال ماہ نومبر میں فیض امن میلہ پر وہ اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان آئے اور انہیں پاکستان میں سرآنکھوں پر بیٹھایا گیا ۔ جاوید اختر اچھے بھلے حساس انسان اور گہرے شاعر ہیں، دیکھ جان چکے کہ ان کے یہاں کے عام آدمی کی نسبت پاکستان کا رہنے والا زیادہ سکھی اور مطمئن ہے لیکن بھارت میں جب کبھی دو ملکوں کا تقابل، بحث اور مقابلہ بازی کی صورت بنتی ہے تو ہر اس پلیٹ فارم پر جہاں اختر موجود ہوں، پاکستان کولیٹ ڈاؤن کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے! کہتے ہیں ’ہمارے بھارت کو دیکھئے‘ لاکھ مسائل کے باوجود پاکستان سے بہتر۔۔۔!، ایسا کہنا اُن کی مجبوری ورنہ کون نہیں جانتا کہ گؤماتا کے دیس میں غدار ٹھہرائے جائیں گے! مسلمانوں کا دردرکھنے والے سکھ گل زار کی بیٹی میگھنا تو جاوید اختر سے بھی کئی قدم آگے نکل گئی ہے، راضی جیسی فلم بنا کر بھارت سےٗ وفاداری ظاہر کرنے کی کوشش میں حقائق مسخ کئے ہیں مگر اتفاق دیکھئے کہ انہی دنوں میں مقبوضہ وادی کی آٹھ سالہ بچی آصفہ کے ساتھ ہندوؤں کے بدتر اور انسانیت سوز سلوک نے بھانڈا پھوڑ دیا تو ایسے میں اختر اور گل زار کی بیٹی (میگھنا) کے لیے بھی چپ رہنا مشکل ہو گیا تھا! عمرٹا، حافظ سعیداحمد کو بدنام کرنے کی مذموم بھارتی کوشش ہے ۔جسے ناہید خان نامی مسلمان خاتون نے پروڈیوس کیا ہے
یوں لگتا ہے کہ مسلمان بھی بھارت میں اپنی زندگی برقرار رکھنے کے لیے ایسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہیں کہ ان سے پتا چلے کہ وہ پاکستان کے وجود کے خلاف ہیں اور انتہا پسندی میں ہندوں کے ساتھ ساتھ ہیں ورنہ ایسی انتہا پسندانہ اور پاکستان مخالف فلمسازی کی کیا ضرورت ؟ایسے وقت میں جب پاکستان اور پاک فوج خطے میں امن کے لیے محبت کا پیغام دے رہی ہے اور کرتار پور جیسے بارڈ کھول کر امن کا پرچار کر رہی ہے اسے اقدام پر تو بھارت کو پاکستان کی امن کوششوں کو سراہنا چاہے اور خطے کی عوام کے مسائل کے حل کے لئے پاکستان کا ساتھ دینا چاہے نا کہ پاکستان مخالف سازشوں سے دشمنی کی ٓاگ بھڑکانی چاہے ۔ بھارتی عوام کی جو کسمپرسی کی حالت ہے اسمیں تو بھارت کو اپنے غربت زدہ عوام کے کھانے اور رہنے کی فکر کرنی چاہے نہ کہ جنگ کا ماحول اور پروپیگنڈہ کرنا چاہے بھارت کے لئے اس وقت دُنیا کو راضی
کرنے کا وقت ہے اور وہ ہے کہ ناراضی بڑھا رہا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ انڈیا اپنی فلم انڈسٹری کو ایک زبردست ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے پاکستان کے خلاف بھارتی فلم انڈسٹری میں پہلے بھی فلمیں بنتی تھیں مگر خال خال۔ اب تو ہر سال درجنوں فلمیں ایسی ریلیز ہوتیں ہیں جو پاکستان اور کشمیر کے موضوع پر بنائی جارہی ہیں۔ ان میں پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے پاکستان آرمی کو بدنام کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور کشمیریوں کو دہشت گرد دکھایا جاتا ہے۔ پہلے پہل صرف بھارتی مسلمانوں ، اسلام اور مسلمانوں کو ہی ٹارگٹ کیا جاتا تھا۔ اور فلموں میں دکھایا جاتا تھا کہ پورے بھارت میں جتنے بھی جرائم ہیں وہ مسلمانوں کے ذریعے پھیل رہے ہیں شراب کا دھندہ۔ بار چلانے والے۔ ہتھیار سپلائی کا کام۔ شراب کی تیاری اور سپاری لے کر قتل کرنے والے سب افراد اور گروہ مسلمان دکھائے جاتے ہیں ان کے نام مسلمانوں کے اور کام شیطانی د کھائے جاتے ہیں یہ ایک طویل عرصہ سے چلاآرہا تھا مگر اب کشمیر کے موضوع پر ہر سال بیسوں فلمیں بننے لگیں ہیں اور پاکستان کے خلاف تو ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا ہے۔ٹارگٹ پاکستان اور پاکستان کی فوج ہے اور صد شکر ان سب سازشوں کے باوجود پاکستان کی فوج سب دشمنوں کے مکروہ عزائم ناپاک بناء رہی ہے اور بناتی رہے گی۔ان شاء اللہ
Picture of the day Dua in Choa Khalsa