متاثرین منگلاڈیم زمینی حقائق,تحریر: یاسر ممتازچودھری,چک سواری
یوں توطاقت اورناانصافی کاقانون جنگل میں رائج ہوتاہے مگرانسانی تہذیب ترقی کی لامحدودمنازل طے کرنے کے بعدآج پھر انصاف کے معاملے میں کنگال ہوچکی ہے۔مجبوروں کی دادرسی،غریبوں کی معاشی کفالت،تعلیم،صحت،روزگار سمیت ترقی کے یکساں مواقع انسانیت کی معراج اورانسانی تہذیب کاطرہ امتیاز توہیں مگربدقسمتی سے ہمارامعاشرہ متذکرہ اوصافِ حمیدہ سے بالکل بے بہرہ ہوچکاہے جس وجہ سے معاشرتی ناانصافیاں عروج پرہیں اورظالم اورمظلوم کے درمیان فرق کرنے کے لیے معاشرتی حیثیت کوجانچاجاتاہے۔طاقت ورکمزروں کے حقوق صلب کیے ہوئے ہیں اورحکومتی مشینری میں موجودبیوروکریسی بالخصوص واپڈاکے آفیسران اختیارات کے ناجائزاستعمال کی دلدادہ ہوچکی ہے غرض چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے ہرمکتبہ فکراپنی اپنی حدودمیں فرعونیت کاروپ دھارے ہوئے ہے۔ایسی ایک حالیہ اورروشن مثال متاثرین منگلاڈیم کی ہے جنہوں نے پاکستان کی ترقی ،خوشحالی اورہریالی کی خاطردومرتبہ اپنا گھربار،آباؤاجدادکی قبور،لہلہاتے اورسونااگلتے کھیت سب کچھ پانی کی نذرکردیامگربدلے میں پہلی مرتبہ کی طرح اپ ریزنگ کے عوض بھی صرف سبزباغ دکھائے گئے۔ناانصافیوں اورزیادتیوں کی داستان ویسے توبہت طویل ہے جوہرموڑپرنیاروپ دھارلیتی ہے مگرذیل کے چندنکات کے ذریعے متاثرین منگلاڈیم کی موجودہ حالت کانقشہ کھینچنے کی کوشش کی جارہی ہے:اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے اوائل میں شروع ہونے والے اس منصوبے کے تحت سال2007ء تک معاوضہ جات کی تقسیم کی گئی مگر10سال گزرجانے کے باوجودآج بھی معاوضہ جات کے حصول کے لیے درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کیس زیرکارہیں جنہیں واپڈانے حسبِ وعدہ فوری یکسوکرناتھا۔اسی طرح ذیلی کنبہ جات کامعاملہ تاحال حل طلب ہے جس کے لیے سابقہ حکومت نے رقبہ کی نشان دہی کی اورمحکمہ مال کے ذمے ضروری کام مکمل کروایامگرواپڈاکی عدم دل چسپی اورفنڈزکی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ مسئلہ تاحال حل طلب ہے۔وعدہ کے مطابق واپڈانے متاثرین منگلاڈیم کی آبادکاری کے لیے نیوٹاؤن چکسواری میں جوسہولیات مہیاکرناتھیں اُن میں سے ایک بھی ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔متاثرین کے بچوں کی تعلیم کے لیے بننے والی بوائزاورگرلزہائی سکول کی عمارات تاحال نامکمل ہیں۔اسی طرح جامع مسجداورکمیونٹی سنٹرکی عمارات کاکام بھی مکمل نہیں ہوا۔صحت کی سہولیات کے حوالے سے بنیادی مرکزصحت کی صرف عمارت موجودہے جس میں ڈسپنسری کاکوئی تصورتک نہیں۔الغرض نیوٹاؤن چکسواری میں تعمیراتی کام صرف60فیصدہوسکا جب کہ متاثرین کواپنے گھروں سے اُجڑے پانچ سے زائدسال ہوچکے ہیں۔اس سلسلے میں جہاں آزادکشمیرکی سابقہ حکومتیں ذمہ دارہیں وہیں موجودہ حکومت کی بھی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ متاثرین منگلاڈیم کے مسائل ترجیحی بنیادوں پرحل کرتی کیوں کہ موجودہ وزیراعظم آزادکشمیرراجہ فاروق حیدرخان نے گذشتہ انتخابات کے دوران اپنے انتخابی منشورکاحصہ بنایااوربارہادفعہ انتخابی مہم کے دوران کہاکہ حکومت قائم ہوتے ہی متاثرین منگلاڈیم کے مسائل کے حل کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی جووزیراعظم پاکستان(وقت)محمدنوازشریف سے ملاقات کرکے متاثرین کے لیے بہترین پیکج کااعلان کروائے گی مگراڑھائی سال زائدعرصہ گزرجانے کے باوجودمتاثرین منگلاڈیم کے مسائل حل ہوناتودرکناوزیراعظم راجہ فاروق حیدرسمیت کسی حکومتی سیاسی زعماء نے نہ ہی نیوٹاؤنزکادورہ کیااورنہ ہی متاثرین کے مسائل جاننے کی کوشش کی۔نیوٹاؤن چکسواری میں متاثرین منگلاڈیم کی آبادی کاری کے لیے تقریباً2300پلاٹس بنائے گئے اورماسٹرپلان کے مطابق مرکزی شاہراہ کے دونوں اطراف درخت لگانے سمیت کمرشل جگہوں کی نشان دہی اوروہاں دُکانات تعمیرکی جانی تھیں مگراس سلسلے میں کچھ بھی پیش رفت نہیں ہوئی۔قبرستان کے لیے سیکٹرAمیں تقریباً23کنال اورسیکٹرDمیں بھی کئی کنال پرمشتمل اراضی کی تاحال نشان دہی تک نہ ہوسکی ہے صرف سیکٹرCمیں قبرستان کی100کنال سے زائداراضی کی نشان دہی اورکچھ حصے پرباؤنڈری وال تعمیرکی گئی ہے۔اسی طرح کروڑوں روپے کی لاگت سے بننے والاریسٹ ہاؤس ملازمین اورمناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تباہی کے دہانے پرکھڑاہے جس پراگربروقت توجہ نہ دی گئی توعوام کے کروڑوں روپے ضائع ہونے کاشدیدخدشہ ہے۔نیوٹاؤنزکے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے اتھارٹی نے ملازمین بھرتی کرنے کی بجائے پہلے سے لگائے گئے ملازمین بھی فارغ کردیے جس وجہ سے ان ٹاؤنزمیں سیورج،صفائی ستھرائی کاکام بالکل بندہوچکاہے بلکہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے چورٹرانسفارمرزسے کوائلیں تک نکال کرلے گئے ہیں۔یہ نہ صرف نیوٹاؤن چکسواری کی کہانی ہے بلکہ متاثرین منگلاڈیم کے لیے بنائے گئے دیگرنیوٹاؤنز کی حالتِ زاربھی ملاحظہ فرمائیں:نیوٹاؤن سیاکھ میں رہائشی پلاٹ476ہیں اورتعمیراتی کام صرف 40فیصد،نیوٹاؤن ڈڈیال میں رہائشی پلاٹ1450اورتعمیراتی کام صرف50فیصد،نیوٹاؤن اسلام گڑھ میں رہائشی پلاٹ تقریباً1600اورتعمیراتی کام60فیصد اورنیوسٹی میرپورمیں رہائشی پلاٹ7000سے زائدہیں اورتعمیراتی کام70فیصدہوسکاہے۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکرہے کہ منگلاڈیم اپ ریزنگ کے منصوبے میں شامل چک ہریام پل جس کاسنگِ بنیادوزیراعظم(وقت)سیدیوسف رضاگیلانی نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران رکھا۔پہلے یہ پُل بین الاقوامی معیارکے مطابق آسٹریلین کیبل برج منظورہوا جس پر لاگت کاتخمینہ5ارب89کروڑلگایاگیاجوپاکستان میں بین الاقوامی معیارکاواحدکیبل برج بنتااوراس سے آزادکشمیرمیں سیاحت کوبھی فروغ ملتا۔بعدازاں آزادکشمیرکے سابق وزیراعظم سردارعتیق احمدخان کے دورِ حکومت میں ایک سازش کے تحت اسے کیبل برج کی بجائے آرسی سی میں تبدیل کیاگیااور7کلومیٹرلمبے پُل کوچار کلومیٹررابطہ شاہرات سے منسلک کرکے مختصرکرتے ہوئے صرف تین کلومیٹرکردیاگیا جودونوں اطراف سے آرسی سی تعمیرہوچکاہے اب صرف درمیانی 482فٹ حصہ جوکیبل برج بنناہے وہ تاحال نامکمل ہے۔پاکستان میں ان دنوں نئے ڈیمزبنانے کی مہم زوروشورسے جاری ہے اورہرفورم پرحکومتی مشنری ڈیم کے لیے فنڈزاکٹھاکرنے میں مصروف ہے مگرراقم ان سطورکے ذریعے وزیراعظم پاکستان عمران خان،چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس میاں ثاقب نثار اورچیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاویدباجوہ سے سوال کرناچاہتاہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے آبی ذخیرے منگلاڈیم کے متاثرین کے مسائل کون سنے گا؟دومرتبہ دربدرکیے جانے والے متاثرین منگلاڈیم اپنی فریادکسے سنائیں؟منگلاڈیم کی ابتدائی تعمیر اوراب دوبارہ اپ ریزنگ میں متاثرین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اورخستہ حالیوں کی داستانیں زبانِ زدعام ہیں۔ایسے حالات میں جن علاقوں میں نئے ڈیمزبنانے کے منصوبے زیرغورہیں وہاں کی عوام کیسے یقین کریں گے کہ اُن کے ساتھ متاثرین منگلاڈیم والاحشرنہیں ہوگااورسفیدہاتھی واپڈامتاثرین منگلاڈیم کے ساتھ دومرتبہ وعدہ خلافیوں کے بعداُن کے ساتھ کیسے وعدہ وفاکرے گا؟ضرورت اس امرکی ہے کہ جہاں نئے ڈیم بنانے کی مہم شروع کی جائے وہیں پہلے سے متاثرہ ڈیم(منگلا)عوام کے مسائل بھی حل کیے جائیں۔حکومتِ پاکستان اگرواقعی تبدیلی کی خواہاں ہے توسفیدہاتھی واپڈاکووعدہ کے مطابق متاثرین منگلاڈیم کوتمام سہولیات پہنچانے اورتمام وعدوں کووفاکرنے کاپابندبنائے بصورتِ دیگرڈیم توشایدبن جائیں مگرعوامی محرومیاں کسی انقلاب کاپیش خیمہ ہوسکتی ہیں۔
Picture of the day, Bhata main road, 15/10/2018