ٹرمپ کی سعودیہ عرب کو دھمکی!تحریر: ملک شفقت اللہ
سعودی عرب اس وقت سازشوں کے گھیرے میں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اقوام عالم مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے اتحاد بنائے ہوئے ہے ۔ کاش امت مسلمہ اپنے نجی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اللہ کے دین کیلئے اتحاد قائم کرتی تو آج سعودی عرب جہاں بیت اللہ ہے ، روضہ رسولﷺ اور جنت البقیع ہے وہ خطرے میں نہ ہوتا۔ شاہ فیصل کی وفات کے بعد سے نفرت کی ریاست کا قیام عمل میں آ چکا تھا جب کہ اس کی بنیاد 1948میں رکھی جا چکی تھی۔ لیکن ہم اس ریاست یعنی اسرائیل کو نہیں مانتے کیونکہ یہ صرف ظلم ، قتل و غارت گری کے بعد حاصل ہونے والی ریاست ہے۔ 1948 میں ہی پاکستان اقوام متحدہ کا رکن بنا تھا ، اس وقت پاکستان میں اسلام کے نام لیوا اور اس پر مٹنے والے زیادہ تھے لیکن جانے کیا بات ہوئی اور کس سوچ کے پیشِ نظر پاکستان اس نام نہاد کھوکھلی انسانیت کی دعویدار تنظیم کا حصہ بن گیا۔ بھلا اسلام سے بڑھ کر بھی کوئی انسانیت کا درس دیتاہے یا آسان تر زندگی گزارنے کی تعلیم کوئی بھی تہذیب دیتی ہے؟ تہذیبیں تو کائنات کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کئی بنیں اور مٹ گئیں لیکن اللہ کا دین ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔
اللہ نے اول دن سے ہی واضح کر دیا ہوا ہے کہ اس کا حکم ماننے والے ایک الگ قوم ہیں اور اس کا انکار کرنے والے الگ قوم ہیں جنہیں ہمارا دین کافر کہتا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم کس مصالحت اور مفاہمت کے نام پر ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں جو اللہ کے احکامات کے منافی ہوں اور پھر خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں ۔ برصغیر پاک و ہند میں ہر طرف مسلمان بادشاہوں کی شہنشاہت تھی اور برطانوی یہاں تجارت کی غرض سے آ کر آباد ہونا شروع ہوئے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اس کے بعد پھر ایک صدی برصغیر پاک و ہند پر حکومت کی ۔ سپین میں ٹیپو سلطان جیسے شیر دل مجاہدوں کو بھی شہید کر دیا اور اس کے پیچھے ان کی صرف ایک ہی پالیسی تھی جس کو وہ Divide And Rule کا نام دیتے ہیں۔ یعنی پہلے آپس میں لڑواؤ اور پھر حکومت کرو۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے اب تک اقتصادیت اور معیشت کا نعرہ لگا کر جس قدر مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ آئے روز اموات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اقوام متحدہ صرف لفظوں میں بیانات داغ کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ صرف عام لوگوں کی نذر میں ہے اگر اس کے پیچھے کے حقائق جاننے کی کوشش کر یں تو با آسانی واضع ہو جاتا ہے کہ ان کا نشانہ صرف عالم اسلام ہے ۔
حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سعودیہ عرب تم تب تک ہو جب تک ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے ، اگر ہم پیچھے ہٹ جائیں تو تم دو ہفتے بھی نہیں رہ سکتے۔ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور متکبرانہ بیان ہے جس کے خلاف ابھی تک اقوام متحدہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور نہ ہی ٹرمپ کو کسی نے جواب دیا ہے۔ میرا ٹرمپ سے سوال ہے کہ وہ کیا ہے؟ عالم اسلام کے حکمرانوں سے سوال ہے کہ تمہاری خودی کہاں مر گئی ہے؟ ایسے بیانات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران مسلمان ممالک میں یہ تاثر پھیلاتا ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اور وہ امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ حالت جنگ میں ہے ۔ جبکہ حقیقت اس میں یہی ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ہی وہ ممالک ہیں جو پوری دنیا میں مسلم ممالک کو آپس میں شیعہ سنی تعصب کی بنا پر لڑواتے ہیں اور ا سلحہ کی فروخت سے انہیں بڑی مقدار میں زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی معیشت کے بڑے حصے کا دارو مدار ڈالر میں تیل کی خریدو فروخت اور دوسرے نمبر پر ان کے اسلحہ کی فروخت پر ہے۔مسلمان حکمران یا تو پچھلی کئی صدیوں سے نا سمجھ ہیں ، یا بکاؤ ہیں جو صیہونی لابی کے اس طرز حکمرانی کو ابھی تک نہیں سمجھ پا رہے جو وہ ہم پر مسلط کئے ہوئے ہیں ۔ اب ا س لابی کو لگام ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان، سعودی عرب، ایران ، افغانستان ، فلسطین، شام وغیرہ جب تک حالت جنگ سے نہیں نکلیں گے تب تک ہم معاشی و اقتصادی سطح پر مستحکم نہیں ہو سکتے۔ ایران اور افغانستان کو بھی اب ہوش میں آ جانا چاہئے کہ امریکہ جس نے پہلے اس سے تمام پابندیاں ہٹا دیں تھیں صرف اس مذموم عزم کیلئے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی برقرار رکھے اب دوبارہ پاکستان کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہوئے تو انہوں نے پھر سے پابندیاں لگا دیں ہیں۔ افغانستان ابھی تک اسرائیل کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر بھارت کو پناہ دئیے بیٹھا ہے، افغانستان ایران اور شام کی حالت سے سبق سیکھنا چاہئے ۔ ترکی کو چاہئے کہ وہ یورپی خطے میں ہونے کا فائدہ عالم اسلام کو دے اور وہاں ان کے ساتھ ڈیوائڈ اینڈ رول پالیسی کھیلے ۔ سعودی عرب کو اسلام کا قلعہ بننا چاہئے ۔ تفرقے میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ خو د منع فرماتا ہے اور میرے نبیﷺ کی یہ سنت بھی نہیں ہے۔ ایران کے ساتھ مذاکرات کرے ، اقوام متحدہ اور امریکہ کی اس بارے میں مت سنے، امریکہ کی دخل اندازی کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ وہ ڈالر میں تیل کی تجار ت سے انکار کر دے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ پنجابی طالبان ، پاکستانی طالبان وغیرہ سے اب بیٹھ کر مذاکرات کرے اور ان کے خلاف کاروائیاں امریکی کہنے پر بند کر دے ۔ افغانستان میں امریکہ خود ہی گھٹ گھٹ کر مر جائے گا اور اسرائیل بھی الٹے پاؤں دوڑے گا۔ بھار ت کبھی بھی مذاکرات پر آمادہ نہیں ہو گا اگر ہوا بھی تو وہ ایفائے عہد نہیں کرے گا کیونکہ وہ انسانیت سے کوسوں دور کی تہذیب پر کاربند ہے۔ اسے انسان بنانے کیلئے پاکستان کو مضبوط ہو جانا چاہئے۔ پوری دنیا میں مسلمان ممالک کو تنہا کر کے مارا جا رہا ہے اور ہم سب ایک دوسر ے کے تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ آج وقت ہے ہمیں سنبھل جانا چاہئے کل پھر موقع نہیں ملے گادنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر ہے۔
Picture of the day 05/10/18
Tourist point in Sehar