ایران پر اقتصادی پابند یوں کا دوسرا مرحلہ ;تحریر۔ عبدالجبارخان دریشک
امریکا ایران کے ساتھ ہونے والے جوہر معاہدے سے باہر ہونے اور اسی تناظر میں ایران پر سخت پابندیاں لگائے جانے کے بعد ایران کی معیشت دن بدن نیچے کی جانب جارہی ہے اس وقت ایرانی کرنسی کی قدر تاریخی کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ایرانی ریال کی قدر آج 26 ستمبر کو مزید 6% کے قریب کم ہوئی جس کے بعد ایک ڈالر کی قیمت 1.7 لاکھ ایرانی ریال تک پہنچ چکی ہے۔ یہ ایران کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ ایرانی ریال نچلی ترین سطح پر ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ دی انسٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس نے کہا ہے کہ 4 نومبر سے ایران پر امریکی اقتصادی پابندیوں کا دوسرا دور شروع ہونے والا ہے لیکن اس سے قبل ایران کی تیل کی برآمدات میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اس ادارے کے مطابق ایران کی معیشت میں رواں برس 3 فیصد اور آئندہ برس 4 فیصد حجم میں کمی ہوگی۔
دی انسٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس نے مزید بتایا ہے کہ رواں سال یکم اپریل سے ستمبر تک ایرانی خام تیل کی برآمدات میں یومیہ 8 لاکھ بیرل کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ حجم اپریل میں روزانہ 28 لاکھ بیرل تھا اور ستمبر میں اس کا یومیہ تخمینہ 20 لاکھ بیرل لگایا گیا ہے۔ امریکا 4 نومبر سے ایران پر دوسرے مرحلے کی پابندیوں کا آغاز کرے گا جس میں ایرانی تیل کی سپلائی کو مکمل طور پر بند کرانے کے لیے پہلے سے اقدامات کررہا ہے، ایران کا بڑا خریدار اس وقت بھارت ہے اب بھارت امریکا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایران سے خریداری بند کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے بھارت ایران سے یومیہ 6 لاکھ بیرل تیل خرید کرتا ہے جبکہ بھارت اس پابندی پر مکمل اطلاق 4 نومبر تک کرے گا لیکن تاحال خریداری میں کم کر دی ہے ایران پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں وہ الگ ہیں لیکن خود بھارت میں تیل کا بجران پیدا ہو گیا ہے۔
بھارت میں آج سے تین چار ماہ قبل پٹرول کی قیمت 60 روپے سے کچھ زیادہ تھی لیکن جب سے امریکا نے ایران جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے تب سے بھارت میں تیل کی قیمتوں میں آضافے کے ساتھ اس کی کرنسی میں بھی دن بدن گروٹ آ رہی ہے بھارت میں اس وقت پٹرول 90 روپے تک پہنچ گیا ہے جبکہ ڈالر 74 روپے سے اوپر ہو چکا ہے۔ خیال یہ ظاہر کیا جا رہا کہ اکتوبر کے ماہ میں بھارت میں پٹرول 100 روپے تک پہنچ جائے گا۔
ایران میں گزشتہ دنوں میں دہشت گردی کا واقعہ تیل کی بندش کرنسی میں گروٹ اندرونی حالات پر اثر انداز ہو رہے ہیں جبکہ امریکا کسی بہانے کی تلاش میں ہے یا تو ایران بھوک سے تنگ آ کر اس کے کسی اتحادی سے جنگ کرے یا ایران میں خانہ جنگی شروع ہو جائے۔دی انسٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس نے اس تمام تر صورت حال پر کہا ہے کہ ایران اب باحالت مجبوری اپنے مرکزی خام تیل کو بڑی رعایت پر فروخت کر رہا ہے اور چین اور بھارت کے لیے مصنوعات کی ترسیل کے لیے بغیر آضافی اخراجات کے اپنے آئل ٹینکروں کو استعمال میں لا رہا ہے تاہم اس کے باوجود اس کے تیل کی برآمدات کا حجم نیچے آ رہا ہے۔گزشتہ روز یورپی یونین نے نیویارک میں ہونے والے ایک اجلاس کے اختتام پر اعلان کیا کہ ایران کے ساتھ تجارت جاری رکھنے اور امریکی پابندیوں سے اجتناب کے لیے ایک متبادل نظام قائم کیا جائے گا۔ اس کا مقصد 2015 میں دستخط ہونے والے ایرانی جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے باوجود سمجھوتے کو بچانا ہے۔ تاہم بہت سے سفارت کاروں نے اس منصوبے کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ اس اجلاس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور ایران نے شرکت کی ہے۔دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ یورپی اور دیگر ممالک کی جانب سے ایران پر امریکی پابندیوں کو غیر مو 191ثر بنانے کے لیے مجوزہ طریقہ کار کسی طور پر کارگر ثابت نہیں ہو گا۔
دی انسٹیوٹ آف انٹرنیشنل فانس کے مطابق اس طرح کا میکانزم غالبا یورپی کمپنیوں کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے گا کہ وہ امریکی پابندیوں کے خوف سے آزاد ہو کر ایران کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں انجام دیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے امریکا کے ساتھ دوبارہ مذاکرات میں ناکامی غالبا ایران کی معیشت کو زیادہ بڑا نقصان پہچانے کا سبب بنے گی۔
4 نومبر کے بعد عالمی سطح پر تلخ جملوں کے استعمال کے ساتھ بیان بازی عروج پر ہوگی اگر روس اور چین امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھتے ہیں تو امریکا چین پر مزید ٹیکس کا بوجھ بڑھا کر اسے بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ امریکا کے یہ سارے اقدامات دنیا کے امن کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کریں گے، جبکہ خود امریکا بند گلی میں بھنستا چلا جائے گا۔
Picture of the day 30th September