کام کم مراعات زیادہ ارکانِ اسمبلی کی موجیں,عبدالوارث ساجد
نئے پاکستان کا آغاز ہو چکا نئی اسمبلیوں کے اجلاس بھی شروع ہو چکے حکومت کی طرف سے نئے عزم اور ولولے کا اعلان ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن ارکان بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا اظہار کر رہی ہے۔ارکان قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے کے بعد جو پہلا اجلاس ہوا اس میں خوب شور شرابا کیا گیایوں آغاز یہ بتاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایوان میں عوامی مسائل کم اور شور زیادہ مچایا جائے گا۔ دوسری طرف کپتان کے نیا پاکستان بننے کے بعد حوصلے اور توقعات دونوں بلند ہیں ۔ بہرحال یہ اسمبلی کیسے چلتی ہے اور ارکان اسمبلی کتنا حاضر ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔اگر گذشتہ حکومت اور ارکان ممبر اسمبلی پر نگاہ ڈالیں تو پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں ارکان اسمبلی کی حاضری خاصی مایوس کن رہی وہ ایم این ایز حضرات جو اسمبلی میں جانے کے لیے الیکشن میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے وہ جب الیکٹ ہو گئے تو اسمبلی میں آتے ہی نہ رہے قومی اسمبلی کاوہ اجلاس جس کا خرچہ کڑوروں روپے ہے اس کا کورم ہی پورا نہی ہوتا تھا عوام کے خون پسینے سے ادا کی ہوئی ٹیکس رقم کیسے ضائع ہوتی رہی کیسی کو کوئی فکر نا تھی اگر ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو جون2013سے مئی 2018 تک جوقومی اسمبلی کا اجلاس چلا ان میں اہم ترین سیاستدانوں کی حاضری کی صورتحال بدترین رہی، منتخب عوامی نمائندوں میں سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے صرف 22 دن قومی اسمبلی کی یاتراکی، سابق وزیر اعلی سندھ علی محمد خان مہر صرف15 دن اسمبلی اجلاس میں آئے سابقہ وزیر اعلی پنجاب کے فرزند حمزہ شہباز صرف 30 دن، آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور 36 جبکہ سابقہ وزیراعظم نواز شریف 61 دن ایوان میں جلوہ افروز ہوئے ۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسمبلی کے قیام کے آٹھ دن بعد حلف اٹھایا تھا، جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس مجموعی طور پر 375دن چلا ہے،لیکن عمران خان صرف 22دن اجلاس میں شریک ہوئے، کپتان 353 دن اسمبلی اجلاسوں سے غیر حاضر رہے، اسی طرح کپتان کی حاضری کی شرح 6 فیصد رہی، اس اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ 383 دن میں سے 281 دن حاضر اور 102 دن غیر حاضر رہے، خورشید شاہ کی حاضری کا تناسب 73 فیصد رہا، جو دیگر سیاستدانوں سے بہت بہتر ہے، وزیرداخلہ چودھری نثار علی 383 دن میں سے 169 دن حاضر جبکہ 214 دن غیر حاضر رہے، ان کی حاضری کی شرح 44فیصد رہی سابق وزیردفاع خواجہ آصف 181دن حاضر جبکہ 202 دن غیر حاضر رہے، ان کی حاضری کی شرح47فیصد رہی، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق 188 دن حاضر اور 195 دن غیر حاضر رہے، سعد رفیق کی حاضری کی شرح 49 فیصد رہی، شاہ محمود قریشی 182 دن حاضرجبکہ 200دن غیر حاضر رہے، ان کی حاضری کی شرح 48فیصد رہی، اسمبلی میں حاضری کا سب سے بدترین ریکارڈ پیپلزپارٹی کے علی محمد مہر ، حمزہ شہباز اور فریال تالپور کا رہا ، علی محمد مہر صرف 15 دن اسمبلی میں آئے اور 368 دن غیر حاضر رہے، ان کی حاضری کی شرح صرف 4فیصد رہی، حمزہ شہباز 30دن حاضر رہے اور باقی 363 دن غیر حاضر رہے ان کی حاضری کی شرح 8 فیصد رہی، فریال تالپور صرف 36 دن ایوان میں آئیں، باقی 347 دن ایوان سے غائب رہیں، فریال تالپور کی حاضری کی شرح 9فیصد رہی ، فریال تالپور کے شوہر میر منورتالپور 118 دن حاضر جبکہ 264 دن غیر حاضر رہے، منور تالپور کی حاضری کی شرح 31 فیصد رہی، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 381 دن میں سے صرف 95 دن اسمبلی میں آئے،باقی 286 دن غیر حاضر رہے، مولانا کی حاضری کی شرح 25 فیصد رہی، اپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ کی طرح محمود خان اچکزئی اور شیخ رشید کی حاضری کا ریکارڈ بھی بہتررہا، شیخ رشید241 دن حاضر جبکہ 142 دن غیر حاضر رہے، شیخ رشید کی حاضری کا تناسب 63 فیصد رہا ، اسی طرح محمود خان اچکزئی 309 دن حاضر اور 74 دن غیرحاضر رہے، اچکزئی کی حاضری کی شرح 81 فیصد رہی۔
یہ جائزہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسمبلی میں پہنچنے والے سیاستدان زبان سے تو کہتے ہیں ہم عوام کے نمائندے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اسمبلی میں آواز اٹھائیں گے مگر الیکشن جیتنے کے بعدیہ اسمبلیوں میں حاضر نہیں ہوتے اور ظاہر ہے جب اسمبلی میں جاتے ہی نہیں تو عوام کے مسائل خاک حل ہوں گے شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام بدحالی کی انتہا کو ہے اور سیاستدان سنجیدہ نہیں ہو رہے سنجیدگی ہوتی تو اسمبلی کی حاضری سو فصید تک پہنچ جاتی۔جو ارکان اسمبلی ایوان میں حاضر ہوتے بھی رہے وہ پانچ سال اپنی فکر فاقے میں رہے جن عوام کے مسائل کی خاطر وہ اسمبلی آئے ان کے لئے کوئی ایسا قانون بنا پائے نا کام کر پائے کہ اسے غریبوں کی خدمت کہا جائے
قومی اسمبلی کی طرح پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نمائندگان نے بھی الیکشن جیتنے کے بعد آرام کو زیادہ ترجیح دی ’’کام‘‘ پہ دھیان کم دیا۔قومی اسمبلی کی طرح پنجاب اسمبلی کے ممبران کی بھی اکثریت اسمبلی میں کم حاضر رہی بلکہ بہت سے ممبر پنجاب اسمبلی ایسے بھی تھے جو آتے اور حاضری لگاکر رفوچکر ہو جاتے تھے۔وہ ایوان میں بیٹھنا فضول سمجھتے تھے اور حاضری لگانے کے بعد اجلاس میں شرکت کی بجائے واپس چلے جاتے تھے اور ایک دن ان ارکان پنجاب اسمبلی کا حاضری لگا کر غائب ہونا اسمبلی دستاویزات سے ثابت ہو گیا، پنجاب اسمبلی کا حاضری رجسٹر ایوان کی کارروائی کے بجائے ٹی اے ڈی اے میں دلچسپی رکھنے والے ارکان کو منظر عام پر لے آیا، ہوا یہ کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس خاص الخاص پری بجٹ بحث کے لیے بلایا گیا تھامگر یہ حکومت اور اپوزیشن کے تنازع کی نذر ہوگیا، حزب اختلاف سیڑھیوں پر احتجاج میں مصروف رہی اور عوامی نمائندوں میں آئندہ بجٹ کے لیے ارکان کو تجاویز دینے میں کوئی دلچسپی نہ پائی گئی، بحث کا آخری روز تھا مگر 6 مارچ سے شروع ہونے والے اجلاس میں ابھی تک 371 کے ایوان میں سے صرف8 ارکان نے بجٹ تجاویز دیں۔ اسمبلی ریکارڈ سے ممبران کی حاضری شیٹ کے مطابق 6 مارچ سے شروع ہونے والے اجلاس کے پہلے روز کم حاضری اور کورم پورا نہ ہونے کے باعث اجلاس ملتوی کرنا پڑا 6 مارچ کو کورم بار بارٹونا مگر رجسٹر میں حاضری182 ارکان کی رہی ، اسی طرح 7 مارچ کو بھی اجلاس کورم پورانہ ہونے کے باعث ملتوی ہوا لیکن رجسٹر میں حاضری لگا کر 185 ارکان مراعات اورٹی اے ڈی اے کے حق دار بن گئے، ایسے ہی 8 مار چ کو بھی کورم کا بحران بدستور برقرار رہا لیکن 198 ارکان اسمبلی نے رجسٹر میں حاضری لگا ڈالی، 9 مارچ کو اپوزیشن میں گئی ہی نہیں اور ایک رکن کے ذریعے بار بار کورم کی نشاندہی کی جاتی رہی، تاہم 184 ارکان نے حاضری لگائی، 10 مارچ کو بھی اپوزیشن ایوان کے بجائے سیڑھیوں پر رہی اور کورم کئی بار ٹوٹا مگر حاضری 196 ارکان نے لگائی، چنانچہ ارکان اسمبلی ایوان میں آنے کو تو تیار نہیں لیکن مراعات چھوڑنا انہیں بالکل قبول نہیں ، حکومتی ارکان کی طرح اپوزیشن ارکان بھی 2 روز اسمبلی کی سیڑھیوں پر عوامی اسمبلی لگاتے رہے مگر ایوان کی کارروائی کا حصہ نہ بننے کے باوجود ٹی اے ڈی اے کے لیے حاضری لگانے میں پیچھے نہ رہے۔ شاید یہ صوبے کے سیاستدان ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اس میں شاید والی کیا بات ہے اعمال اور افعال بتاتے ہیں اسمبلی ہال اگرچہ الگ الگ ہوں ان میں پہنچنے والے سیاستدان ایک ہی سوچ کے مالک ہیں۔
کیونکہ پنجاب کی طرح صوبہ سندھ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا آخر وہاں کے نمائندے بھی تو سیاستدان ہی ہیں نا۔سندھ اسمبلی کے 9ارکان اجلاس میں شریک ہوئے بغیر سرکاری مراعات حاصل کر تے رہے اور انہوں نے سرے سے ہی اسمبلی جانا ہی پسند نہ کیا، 4 ارکان کی بغیر اطلاع غیر حاضری کے 40 دن کا کوٹہ بھی پورا ہو چکا تھا اس کے بعد بھی نا وہ آئے،5 ارکان پارٹی تبدیلی کرنے کے باوجود مستعفی ہوئے اور نہ ہی اجلاس میں شریک ہوتے تھے تاہم ماہانہ معاوضہ ان کے اکاؤنٹ میں جاتا رہا اور وہ مزے سے وصول کرتے رہے نا ڈیوٹی نا کام مگر دام پورا پورا۔ اور مزے کی بات ہے کہ یہ ارکان میڈیکل الائنس کے علاوہ 6 لاکھ سے 37لاکھ روپے تک گھر بیٹھے معاوضہ حاصل کرتے رہے۔ اسمبلی ذرائع کے مطابق 9 ارکان کئی ماہ سے اجلاس میں شریک ہوئے بغیر مراعات سے مستفید ہوتے رہے، جن میں سید اویس مظفر، سابق وزیر اعلی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم، عادل صدیقی، محمد دلاور، شیخ عبداللہ، سید حفیظ الدین، احتز اخلیل فاروقی، بلقیس مختار اور ارم عظیم فاروقی شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سید اویس مظفر جو آصف زرداری کے منہ بولے بھائی بھی ہیں سوا دو سال سے ملک سے باہر رہے اور ان کی چھٹی کی درخواستیں مسلسل منظور ہو تی رہیں اور 28ماہ سے اجلاس میں شریک ہوئے بغیر قومی خزانے سے 27 لاکھ روپے حاصل کر چکے ۔ سابق وزیر اعلی سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم تقریبا ایک سال اسمبلی میں نہیں آئے۔ اسمبلی سیکریٹریٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ چار سال میں وہ 6 سے 7 بار اجلاس میں شریک ہوئے ایسے ہی ایم کیوایم پاکستان کے عادل صدیقی تقریبا ایک سال سے ملک سے باہر رہے اور علالت کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوتے رہے ان کی چھٹی کی درخواست ضرور آتی تھی ۔ پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے والے ایم کیو ایم پاکستان کے 4 منحرف ارکان بلقیس ، محمد دلاور، شیخ عبداللہ، ارم عظیم فاروقی اور تحریک انصاف کے سید حفیظ الدین کے مصدقہ استعفےٰ اسمبلی سیکرٹریز کو موصول نہیں ہوئے اور ان کے بغیر اطلاع کے اجلاس میں غیر حاضر رہنے کی زیادہ سے زیادہ 40 دن کی مدت بھی ہوچکی تھی ۔ مذکورہ تمام ارکان ماہانہ 83 ہزار روپے اور میڈیکل الاؤنس و دیگر سہولیات حاصل کر تے رہے ۔مگر ایوان میں نا آتے رہے۔ قومی اسمبلی ،پنجاب اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے
ارکان اسمبلی کے ایوان میں نہ آنے کی آواز ہر فورم پر گونجی مگر ممبران قومی اسمبلی کے کانوں پر جو تک نہ رینگی ، خبریں لگیں ٹی وی ٹاک شو میں تنقید ہوئی شوشل میڈیا پر دھائی دی گئی ۔مگر جن کو اسمبلی نہیں آنا تھا وہ نہ آئے صورتحال یہ ہوگئی کہ کسی بھی ایوان میں کورم ہی پورا نہ ہوتا تھا اور نہ ہی وزراء دلچسپی لیتے تھے بات اس حد تک بڑھ گئی کہ حکومت کی طرف سے مسلسل عدم تعاون اور وزراء کی متواترعدم دلچسپی پر چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے برہمی کا اظہار کیا اور سینٹ کی تاریخ میں پہلی بار رولز 23کے تحت کارروائی کی۔ چیئرمین سینٹ نے حکومت اور اس کے وزراء کے رویے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دے کر نہ صرف اپنے استعفے کا انتباہ کیا بلکہ تمام پروٹوکول واپس کر کے دورہ ایران بھی ملتوی کر دیا۔ چیئرمین سینٹ نے اپنی تمام سرکاری مصروفیات سے بھی الگ ہونے کا اعلان کیا۔ سینٹ میں اپوزیشن نے چیئرمین سینٹ کی حمایت میں احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔ وزیراعظم اور ان کے وزراء نے چیئرمین سینٹ کی شکایات کو دور کرنے کے بجائے ہر مسئلے کی ذمہ داری اٹھانے والے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو انہیں منانے بھیجا مگر میاں رضا ربانی مطمئن نہ ہوئے۔ ایک دن تو ایسا ہوا کہ چیئرمین نے سندھ کے ساتھ گیس کے تنازع پر بات کرنے کے لیے تیل اور گیس کے وزیر شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں طلب کر رکھا تھا لیکن وزیر موصوف ایوان میں نہ پہنچے۔ اس سے قبل کئی بارروزراء اور محکموں کے سیکرٹری حضرات کو اہم امور پر ارکان کے سوالات کا جواب دینے کی غرض سے ایوان میں طلب کئے جانے پر ان کی عدم حاضری اراکین سینٹ کی برہمی کا باعث بنتی رہی ہے۔
کہنے کو تو پاکستان میں آئینی طور پر پارلیمانی جمہوریت رائج ہے اور اس طرز حکومت میں ملک کا سپریم ادارہ پارلیمنٹ ہوتی ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندے قانون سازی کرتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کو آئینی وقانونی ذمہ داریوں کے بجائے ترقیاتی فنڈز کے معاملات تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اراکین صوبائی و قومی اسمبلی ہوں یا سینٹ کے اراکین انہیں ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ قائدایوان، وزیراعلی، وزیراعظم اور وزراء ایوان میں تشریف لا کر پارلیمانی امور نمٹانے کے بجائے جلسے جلوسوں میں شرکت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جب خود وزیراعظم اور ان کے قریبی رفقاء ایوان میں آنے کی زحمت نہیں فرمائیں گے تو پارلیمانی نظام جس چیک اینڈ بیلنس کا ضامن ہے اور اپنی شکل مسخ کر بیٹھے گا۔ اور ایسا ہی ہوا ایوان قومی اسمبلی و دستور پاکستان کا وقار ان ہی لوگوں کے ہاتھوں مجروع ہوا جو اس ایوان کے ممبر تھے اور جو اس اسمبلی میں پہنچنے کے لیے اربوں روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں قتل و غارت ہوتی ہے۔ دشمنی نسل در نسل چلتی ہے اور اسمبلی سیٹ جیت کر اسمبلی کم آتے ہیں ترقیاتی فنڈ زیادہ لیتے ہیں۔
نواز شریف اور خاقان عباسی کے دور حکومت میں 2013ء سے لے کر 2018ء تک ایسا ہی ہوا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی سطح پر یہ تاثر فروغ پاتارہا کہ وزیراعظم اور وزراء صرف اس وقت ایوان میں تشریف لاتے ہیں جب انہیں کسی بحرانی صورتحال کا سامنا ہو اور حکومت جانے کا خطرہ ہو۔
گزرے وقتوں میں بادشاہ اسی وجہ سے مطلق العنان کہلاتے تھے کہ ان کی حکومت کسی پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتی تھی۔ خارجہ پالیسی بادشاہ کے دوست ممالک سے تعلقات تک محدود ہوتی، وزارت خزانہ صرف بادشاہ اور اس کے خاندان کی مالی ضروریات پوری کرنے کا فریضہ انجام دیتی، شفاخانوں کا کوئی نظام نہ تھا بس ایک شاہی طبیب اور اس کے چند معاونین ہوتے جو شاہی افراد کی صحت کا خیال رکھتے۔ عوام الناس صرف باشندے تھے انہیں شہری کے حقوق حاصل نہ تھے۔ سیاسی نظام کا ارتقاء ہوا تو ریاست اور شہری کے درمیان نیا سماجی معاہدہ تشکیل دیا گیا۔ حکمران کی مطلق العنانیت ختم کر کے اسے عوام کے سامنے جوابدہ بنایا گیا۔ وزارتوں کو شاہی خدمات سے ہٹا کر عوامی بہبود کے کام تفویض کئے گئے۔ جوابدہی اور کارکردگی میں معیار کی خاطر پارلمنٹ جیسا ادارہ سامنے آیا۔
ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں سینکڑوں سوالات تشنہ جواب ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پارلیمنٹ کاجوجمہوری کردار آئین میں مقرر کیا گیا ہے اس سے روگردانی کی جا تی رہی ہے۔گذشتہ اسمبلی تو اپنی مدت پوری کر چکی اور اب نئی اسمبلی کے اجلاس شروع ہو چکے دیکھتے ہیں یہ ارکان اسمبلی ایوان میں حاضری کتنی یقینی بناتے ہیں اور عوام کے مسائل کے لیے اسمبلی میں آتے بھی ہیں یا