عورت کوشمع محفل بنانے کی کوششیں ,عبدالواراث ساجد
عورت کسی بھی ملک کی ہو یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوہر زمانے میں وہ کھلونا بنتی چلی آرہی ہے۔عورت کا مطلب ہے چھپی ہوئی مگر مرد ذات نے اسے ہر دور میں عریاں کرنے کی کوشش کی۔آج بھی اگر دیکھیں تو ہرطرف سے یہی تگ ودو جاری ہے کہ ہر طریقے اور ہر حربے سے گھر یلو عورت بازار پہنچا دی جائے۔آ زادی کے نام پر اسے سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر میں حوا ذایوں کا استصحال ہوتا ہے ۔ان دنوں بھی جو عورتیں دفاتر میں نوکری کرتی ہیں انہیں تحفظ فر اہم کرنے کے لئے حکومتی سطح پر کئی اقدام اٹھائے جا رہے ہیں۔ حکومت نے سرکاری سطح پر شعبہ قائم کر دیا ہے جہاں بلا جھجک کسی بھی وقت کوئی بھی عورت اپنے استحصال کی آواز اٹھا سکتی ہے۔ اپنے اوپر ہونے والے ظلم یا روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کی رپورٹ لکھوا سکتی ہے ۔اس کام پر بے انتہا پیسہ لٹ رہا ہے اور چونکہ یہ مغربی ایجنڈا ہے اور ایسے کاموں پر حکومت کو غیر ملکی امداد بھی ملتی ہے جیسا کہ اس شعبے میں نظر آ رہی ہے۔ مقصد صرف ایک ہے کہ پاکستانی عورت کو گھر سے نکال کر بازار میں لا کھڑا کیا جائے۔ چاہے اسے مرد کی برابری کا لالچ دے کر یا آفس سیکرٹری بنا کر یا کسی این جی اوز کی ہیڈ بنا کر الغرض جیسے بھی ہو عورت بازار کی رونق ضرور نظر آئے۔
رہی تحفظ کی بات تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عورت گھر چھوڑ کر بازار میں آئے اور اس کی عزت و عصمت کو خطرہ نہ ہو۔ لوگ اسے ہوس بھری نظروں سے نہ دیکھیں۔ دفتروں میں انہیں پھول نہ دیئے جائیں اور راہ چلتے اوباش انہیں اغوا نہ کریں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم گوشت کو ننگا کر کے یہ سوچتے ہیں کہ اس پر مکھیاں نہ بیٹھیں ۔ارے بھائی جب بھری محفل میں لیموں کاٹا جاتا ہے تو لا محالہ سب کے منہ میں پانی آ جاتا ہے۔ اس کا حل یہ نہیں کہ آپ لیموں بھی سب کے سامنے کاٹو اور لوگوں کو بھی کہو کہ منہ میں پانی نہ آنے پائے۔ آپ کبھی بھی منہ میں آتا پانی روک نہیں سکتے ہاں یہ ممکن ہے کہ لیموں کو بھری محفل میں لاؤ ہی نا ایسے ہی کوئی شبہ نہیں کہ عورت اور مرد کے میل جول کی حالت میں نفس انسانی کو بہکنے کا موقع ملتا ہے۔ اور شیطان کے لیے دوسروں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا موقع ہاتھ آ جاتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمیں عورتوں پر اعتماد نہیں ہے اور مردوں کو ہم شیطان سمجھتے ہیں، بلکہ ہم عورت اور مرد دونوں کو ہی قابل اعتماد لائق و ثوق یقین کرتے ہیں مگر ساتھ ہی ہم اس کے بھی قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں شہوت و دیعت کی ہے۔ مرد اور عورت کی اس میں کوئی تفریق نہیں اور حالات کی روشنی میں ہم جانتے ہیں بدباطنوں نے پاکدامن عورت اور مرد پر تہمت لگائی ہے اور اس سے پیدا شدہ شروفتن بھی ہمیں معلوم ہیں۔ اس لیے عقل کی روشنی میں ضروری معلوم ہوتاہے کہ ایسی تدابیر اختیار کی جائیں جن سے وہ راستے بند ہو جائیں جن سے فتنہ و فساد کے چشمے ابلتے رہتے ہیں۔
اس لحاظ سے اسلام کے مطابق عورت کا صحیح تحفظ اور اس کا اصل ٹھکانہ گھر ہے۔ وہ گھر سے نکل کر مردوں کی محفل میں آئے تو ضرور فتنے بپا ہوں گے۔ تاریخ یورپ نے مرد اور عورت کے باہمی میل جول کے نتائج جو سامنے پیش کر دیے ہیں اور خود ہمارے ملک میں کالج و یونیورسٹی کی ملی جلی زندگی نے جو تجربات فراہم کر دیے ہیں ان کو سامنے رکھ کر عقل بھی پردہ کا شرعی حکم سراپا رحمت ہے۔ہمارے ہاں دن بدن مخلوط محفلوں سے جو عزتوں کا جنازہ اٹھ رہا ہے وہ ہم روز اخبارات میں پڑھتے ہیں یہی کچھ مغرب میں ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔کیونکہ مسئلے کی اصل وجہ مخلوط ماحول ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ موم کو آتش کے سامنے پگھلنے سے روکا جا سکے۔ ہمارے سامنے مغربی واقعات بطورمثال ہمارے لیے عبرت رکھتے ہیں ۔ اس کے باوجوداگر ہم ’’ فاعتبرو یا اولاابصار‘‘میں شامل ہونا ہی چاہتے ہیں اور عورتوں کو شمع محفل بنانا ہی ہے تو پہلے ان معاشروں پر بھی اک نظر ڈال لیں جہاں عورتیں گھروں سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی جس مغربی تہذیب کے پیچھے ہم چلنے پر بضد ہیں اسی تہذیب کے بارے ذرا ایک خاتون ہی کی زبانی سنیے جو ان الفاظ میں اپنی دلسوزی کا اظہار کرتی ہے:
’’جو لڑکیاں مخلوط تعلیم کی پیداوار ہیں، ان کی اخلاقی سیرت کے متعلق یہ کہنا چاہتی ہوں کہ مخلوط تعلیم سے ان کی خلقی عصمت اور غیرت تباہ ہو جاتی ہے اور ان میں زیادہ سے زیادہ مردانہ اوصاف پیدا ہو کر انہیں زیادہ سے زیادہ خراب کر دیتے ہیں، جس کے بعد وہ گھریلو زندگی کا نظام سنبھالنے کے قابل نہیں رہتیں۔ موجودہ یونیورسٹیوں کی مخلوط تعلیم جو مغربی خطوط پر قائم ہے، ہماری لڑکیوں کے لیے بے سود اور غیر ضروی ہے۔‘‘(روزنامہ زمزم لاہور 15 اکتوبر 1945)
جن ملکوں میں مخلوط تعلیم عام ہے ان کے واقعات ملاحظہ فرمایے۔ امریکہ کے متعلق وہاں کے جج لنڈسے لکھتے ہیں:
’’ہائی سکول کی کم عمر چار سو پچانوے لڑکیوں نے خود مجھ سے اقرار کیا کہ ان کو لڑکوں سے جنسی تعلقات کا تجربہ ہو چکا ہے۔’’اندازہ ہے کہ ہائی سکول کی کم از کم ۴۵ فیصد لڑکیاں مدرسہ چھوڑنے سے پہلے خراب ہو چکی ہوتی ہیں۔‘‘(پردہ از مولانا ابو اعلی موددودی صفحہ 17)
جو کچھ پیش کیا گیا یہ ملاؤں کے بیان نہیں، سب جدید تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کے ہیں جو تجربات کے بعد دیے گئے ہیں اورلکھے گئے ہیں۔ جب تعلیمی اداروں اور تعلیم یافتہ طبقہ کا یہ حال ہو پھر عوام کے متعلق آپ کیارائے قائم کریں گے۔آپ یقین فرمائیں کہ اسلام کی تعلیمات بڑی دور اندیشانہ اور انسانی نفسیات کے بالکل مطابق ہیں۔ عفت و عصمت کے بچاؤ کی شکل یہی ہے کہ اسلام کی تعلیم کو رواج دیا جائے اور اسے جزو زندگی بنایاجائے۔
کوئی ذی عقل اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مختلف طبیعتوں کے لوگ ہر زمانہ میں پائے جاتے ہیں۔ جہاں نیک لوگ بستے ہیں وہیں کچھ بد طینت لوگوں کا بھی بسیرا ہوتا ہے جو ہر وقت برائی کی تلاش میں رہتے ہیں اور جن کی نگاہیں بے باک ہوتی ہیں اور اس جماعت میں مرد اور عورت دونوں شریک ہیں۔ مگر جو لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں وہ اپنے رہن سہن اور طور طریقہ کے اعتبار سے بڑی حد تک جانے پہچانے جاتے ہیں، بد کار مرد ان عورتوں کو خواہ مخواہ دچھیڑنے کی جرات کرتے ہیں جن کے متعلق ان کو کسی رنگ ڈھنگ سے معلوم ہو جائے کہ یہ دوسری قبیل سے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں اور مردوں کی عفت و عصمت کے پیش نظر حکم دیا :
’’اے نبی! اپنی عورتوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیں، اس میں زیادہ امید ہے کہ وہ پہچان لی جائیگی تو ان کو کوئی نہ ستائے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سورہ الاحزاب 59)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ پاک دامن اور مومن عورتیں اپنا دوپٹہ باضابطہ رکھ لیا کریں جس سے نمایاں طور پر معلوم ہوا کہ یہ شریف طبقہ کی عورتیں ہیں، زنا کار اور بد چلن نہیں ہیں تاکہ فاسق اور بد کار مردوں کو معلوم رہے وہ اپنی شر کی وجہ سے ان کو چھیڑنے کی ہمت نہ کریں۔دستور بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ عورتیں جو خاص طرز کا لباس پہنتی ہیں یا خاص طور پر بن سنور کر نکلتی ہیں اور اپنی خوبصورتی اور زینت کا اعلان کرتی ہیں ان کے متعلق کوئی مرد اچھی رائے نہیں رکھتا، ان سے بدقماش قسم کے لوگ موقع پا کر آنکھ لڑانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ عورتیں جن کو اپنی عزت و آبرو کا احساس رہتا ہے، عصمت مآب اور دیندارا ہوتی ہیں ان کے رہن سہن ہی سے پاکدامنی تو نمایاں ہوتی ہے تو کوئی بھول کر بھی ان سے الجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔اسلام ان تمام خطروں سے عفت و عصمت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے جن سے عفت پر حرف آ سکتا ہے۔ کسی مرد کا عورت سے تنہائی میں ملنا جس قدر خطرہ کا باعث ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے پھر مزید اس سے تہمت جو خواہ مخواہ لگے گی وہ پوشیدہ نہیں۔ اس لیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا، ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہیں ملتا ہے مگر تیسرا شیطان موجود رہتا ہے۔‘‘
ایسی حالت میں شیطان جانبین کی شہوت کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہے اور مرد و عورت دونوں کے دل میں برائی کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ یہاں کامیابی نہیں ہوتی تو کسی تیسرے کو بہکاتا ہے کہ ان کے حق میں سوئے ظن کا اظہار کرے اور اس طرح نا کردہ گناہ میں کلنک کا ٹیکا لگوانا چاہتا ہے۔اس مہذب زمانہ میں برائی کا سبب اکثر یہی ہے کہ عورتیں بے باکانہ تنہائی میں اجنبی مردوں سے ملتی ہیں اور باتوں باتوں میں مرد عورت پر اپنی محبت کا غلط سکہ بٹھانہ چاہتا ہے۔اب تک اس باب میں قرآن پاک، احادیث اور عقل انسانی کی روشنی میں بحث کی گئی، مگر کچھ لوگوں کو اس وقت تک تسکین نہیں ہوتی جب تک وہ اہل یورپ کی ر ائے نہیں ملاحظہ کر لیتے۔ چنانچہ ایسے روشن خیال طبقہ کے لیے انسائیکلوپیڈیا وغیرہ کے حوالے سے کچھ اقوال نقل کیے جاتے ہیں جن سے ہمارے مطمح نظر کی تائید ہوتی ہے۔
رومن ایمپائر جو تمام یورپ کی ماں ہے اور جو حکومت تہذیب و تمدن کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھی، یہاں رومن ایمپائر میں بھی عروج و ترقی کے زمانہ میں عورتیں پردہ ہی میں رہتی تھیں، ان کو باہر کے کاموں کے کوئی مناسبت نہ تھی۔ انیسویں صدی کے انسائیکلوپیڈیا میں مذکور ہے:
’’رومانیوں کی عورتیں بھی اسی طرح کام کاج پسند کرتی رہتی تھیں، ان کے شوہر اور باپ بھائی صرف میدان جنگ میں سر فرورشی کا کام سر انجام دیتے رہتے تھے۔ خانہ داری کے کاموں سے فراغت پانے کے بعد، عورتوں کے اہم کام یہ تھے کہ وہ سوت کاتیں اور اون کو صاف کر کے اس کے کپڑے بنائیں، رامانی عورتیں سخت پردہ کیا کرتی تھیں یہاں تک کہ ان میں جو عورت دایہ گری کا کام کرتی تھی وہ بھی اپنے گھر سے نکلتے وقت بھاری نقاب سے اپنا چہرہ چھپا لیتی اور اس کے اوپر ایک موٹی چادر اوڑھتی جو ا یڑی تک لٹکتی رہتی، پھر اس چادر پر بھی ایک اور عبا اوڑھی جاتی جس کے سبب سے اس کی شکل کا نظرآنا تو کیا جسم کی بناوٹ کا بھی پتہ لگنامشکل ہوتا تھا۔‘‘
اس دور میں اس ملک اور قوم کی ترقی و عروج کا آفتاب نصف النہار پر تھا۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں سب سے فائق تھے۔ مگر ٹھیک یہی زمانہ تھا کہ ان کو عیش پرستی اور لہو ولعب کا شوق پیدا ہوا اور پھر اس سلسلہ میں مردوں نے اپنی ہر مجلس نشاط میں عورتوں کو شریک کرنا چاہا کہ ان کے بغیر مجلس سونی بے رونق معلوم ہو رہی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں کو پردہ کی قید سے باہرنکالا اور ان کے دامن عصمت کو داغدار کرنے کی کوشش کی اور کچھ ہی دنوں میں ان کی عورتیں ناچ و رنگ کی محفلوں میں کھل کر آگئیں۔ پھر رومانی حکومت کا کیا حشر ہوا؟ بربادی شروع ہوگئی اور ساری شان و شوکت کی عمارت زمین بوس ہوگئی اور بلاشبہ اس بربادی کا بڑا سبب عورتوں کی آزادی ہی تھا۔
کون نہیں جانتا کہ عورتوں کی آزادی ملک کو تباہ کر ڈالتی ہے، قوم کی ریڑھ کی ہڈی توڑ ڈالتی ہے اور خود عورتوں کو جنت سے جہنم میں پہنچا دیتی ہے۔ عورت اس بیسویں صدی میں خوش ہے کہ اسے حقوق مل رہے ہیں، وہ ہر محکمہ میں ملازمت حاصل کر ہی ہے مگر اسے پتہ نہیں کہ مردوں نے اسے گائے بیل کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، اسے ذرہ برابر چین نہیں۔ اپنے قدرتی فرائض سے دن بن دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مردوں کی تفریح کے لیے عورتوں کو سینما کے پردے پر آنا پڑا۔ مردوں کی دل بستگی کا سامان مہیا کرنے کے لئے ان کو کلب اور ناچ گھروں میں ناچنا پڑا اور حد یہ ہے کہ محض مردوں کی شہوت پرستی کے سلسلہ میں عورتوں کو عریاں کلب بنانا پڑا۔ مگر اب تک عورت یہی سمجھ رہی ہے کہ مردوں کی غلامی سے ہمیں نجات مل گئی۔مرد نہیں سوچتا کہ عورت کی آزادی سے اس کو کیا نقصان ہو رہا ہے، کتنی شریف زادیاں سینما اور تھیٹر وغیرہ کی نمائش بن گئیں۔ کتنے شریف خاندانوں کی بہو بیٹیاں گھر سے نکل گئیں اور کتنی پاک دامن عورتوں کی عصمت دری ہو رہی ہے۔ کالج، یونیورسٹی اور کلبوں میں کیا کچھ ہوتاہے، اس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے،ہر پڑھا لکھا جانتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کی قدم قدم پر اسی وجہ سے عصمت کے معاملہ میں رہنمائی کی ہے کہ نظام تمدن برقرار رہے اور مرد و عورت دونوں اپنے فرائض منصبی بحسن و خوبی انجام دے سکیں، جہاں شرعیت کی بتائی ہوئی راہ کے خلاف مرد و عورت کا اجتماع ہوتا ہے وہاں یقینی طور پر جلد یا بدیر فتنے اٹھتے ہیں اور دونوں ہی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہ اور کاہل ثابت ہوتے ہیں۔عورت کا اصلی ٹھکانا اس کا گھر
کیونکہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں طبعی طور پر نازک اور کمزور ہیں۔ رحمن و رحیم رب نے عورت پر شفقت و عنایت فرماتے ہوئے ان کی سعی اور کوشش کا میدان ان کے گھروں کو بنایا، اور ایک عام قاعدہ اور ضابطہ بیان فرما دیا کہ عورتوں کا اصلی مستقر اور ٹھکانہ ان کے گھر ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو، اور پہلے دور جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔‘‘
یہ کیسے ممکن ہے اللہ نے اپنی مخلوق کو پیدا تو کیا ہو اور جو اسکے لئے بہتر ہو اس سے روکا بھی ہو۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ظاہر سی بات ہے عورت کے لئے بہتری اور فائدہ مند ی ہی تھی کہ اللہ نے اسے گھر میں رہنے کا حکم دیا اور باہر کی دنیا کے تمام تر کام اور ذمہ داریاں مرد کو سونپ کہ عورت کو گھر میں محفوظ بنا دیا۔
سمجھنے والی بات ہے کہ عورت گھر میں رانی بنی اور مرد اس کے لیے دن بھر کام کاج کرئے یہ عورت کے لئے باعث مرتبہ و فخر کی بات ہے نہ کہ شکوہ و شکایات کی کہ مرد اگر باہر ہے تو عورت کو چار دیواری میں کیوں
؟ اور ذلت و ذلالت ہے کہ اللہ نے اسے جو گھر کی ملکہ بنا کر رونق گھر بنایا تھا وہ باہر نکل کر شمع محفل بنی ہے۔