ڈھکے ، چھپے مگر تلخ حقائق! تحریر:۔ ملک شفقت اللہ
پاکستان کے قیام عمل میں آنے سے لے کر اب تک لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے چلے آ رہے ہیں ۔جہاں ہمیں بڑے بڑے ناموں کا ذکر ملتا ہے وہیں عام لوگوں کی حقیقی داستانیں تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتیں، لیکن ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں جو آزادی کے وقت پڑنے والے غدر سے پوری طرح متاثر ہوئے ۔پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے اور آ ج بھی پاک فوج کے جوان اور عوام ان بنیادوں کو اپنا لہو نذرانے میں سینچتے ہیں ۔چودہ اگست کے دن رنگا رنگ تقاریب جاری تھیں ، میں بھی اپنے ہمسائے کے گھر آزادی کی خوشیاں بانٹنے اورآزادی کی مبارک باد دینے کیلئے گیا ، حسبِ معمول وہاں کی بڑی بی ، محو ذکر تھیں لیکن آج ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگی تھیں۔پہلے تو اپنے بچگانہ انداز میں انہیں مبارکباد دی لیکن جب چہرے سے اترتے آنکھوں کے موتی دیکھے تو وجہ پوچھنے پر انہوں نے جو کچھ سنایا وہ میں آپ کو آج انہیں زبانی پڑھانے کی کوشش کروں گاجو انہوں تتھلائی ہوئی آواز میں مجھے سنائی تھی۔ شریفاں بی بی نے بتایا کہ انکی باقی زندگی پاکستان کے پسماندہ شہر جھنگ میں گزری لیکن وہ جوان کرنال میں ہوئی تھی ۔تقسیم ہند سے پہلے میرے بھائی ، والد اور دیگر عزیز کلکتہ میں بیوپار کا کام کرتے تھے ، ان کی کرنال میں ایک حویلی تھی جہاں سارا کنبہ رہتا تھا ان میں دو چچا بھی تھے اور میری شادی ایک چچا زاد بھائی سے کر دی گئی تھی۔ جس دن غدر پڑا اس سے قبل گھر کے تمام مرد اپنے اپنے کاروبار پر شہر سے باہر گئے ہوئے تھے جبکہ میرا شوہر گھر پر تھا ۔درحقیقت کام کیلئے گئے مرد حضرات گاہکوں سے اپنا پیسہ لینے گئے ہوئے تھے اور حالات کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے وہ بھی تیاری میں تھے تاکہ پاکستان کی جانب ہجرت ہو سکے ۔آس پاس کے گاؤں میں آہ و پکار کی آوازیں بلند ہوئیں تو میرا شوہر جو کڑیل خوبصورت نوجوا ن تھا نے لاٹھی اٹھائی اور حویلی سے باہر نکل گیا اتنی دیر میں آس پاس کی عورتیں بھی اس حویلی میں اکٹھی ہو گئیں ۔میرے شوہر نے حویلی کا دروازہ اندر سے بند کرنے کیلئے میری ساس کو کہا ،میری والدہ اور تائی ، تایا پہلے ہی وفات پا چکے تھے لیکن میری ساس ہمارے پاس تھی۔ہماری حویلی کافی بڑی تھی اور اس کا نقشہ کچھ یوں تھا کہ مغرب کی طرف رہائشی عمارت ، مشرق کی جانب مہمان خانہ، شمال میں پانی کا کنواں تھا اور جنوب میں مال مویشی کا باڑہ بنا ہوا تھا جبکہ حویلی کی چھت پر سیڑھیاں مہمان خانے کے پاس سے چڑھتی تھیں ۔وہ ہمیں سمجھانے لگی کہ اگر کافروں کا کوئی ٹولہ دھاوا بولے او ر وہ حویلی کے اندر گھسنے کی کوشش کرے تو کنویں میں کود کر جان دے دینا لیکن ان کے ہاتھ نہ لگنا ۔اس کے بعد اچانک باہر شور سنائی دیا تو میں اور میری ساس جھٹ سے چھت پر چلی گئیں دیکھا کہ میرا شوہر لاٹھی سے تلواروں اور ڈنڈے اٹھائے کافروں کے ٹولے سے مقابلہ کر رہا تھا ، تلواروں کے مقابلے میں لاٹھی کٹتے کٹتے بالکل چھوٹی رہ گئی تو اس کے بازو تلوروں کے وار روکنے لگے جب وہ بھی بری طرح زخمی ہو گئے تو ان ظالموں نے میرے شوہر کا سر تن سے جدا کر دیا ، وہ شہید ہوگیا ،میں اور میری ساس چھت پر کھڑی یہ سارا ماجرا دیکھ رہیں تھیں اور چیخ و پکار کر رہیں تھیں کہ کوئی ہمیں بچالے آ کر ۔ہماری آہ و پکار اور باہر لڑائی کا شور سن کر آس پاس سے پناہ لینے والی لڑکیوں میں سے چند نے کنویں میں کود کر پہلے ہی جان دے دی ،اب میں ، میری ساس اور میری رشتہ دار بچیں تھیں ۔اس کے بعد کافر حویلی کے دروازے کی طرف بڑھے اور توڑنے کی کوشش کرنے لگے لیکن کوئی آہنی چیز نا ہونے کی وجہ سے تھک ہار کر واپس لوٹ گئے ۔میں اور میری ساس تیزی سے نیچے آئیں اور حویلی کا دروازہ کھول کر باہر نکلیں ، میں نے اپنے شوہر کا دھڑ گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ لگایا اور میری ساس نے اس کا سر اٹھا کر اس کی گردن پر رکھنے کے بعد اپنی چادر سے لپیٹ دیا ابھی یہی ہوا تھا کہ کافروں نے دوبارہ دھاوا بول دیا ، ہم حویلی کے دروازے کی طرف لپکیں مگر اندر موجود خواتین نے گھبرا کر دروازہ پہلے ہی بند کر دیا اور کئی بار آہ و پکار کے باوجود انہوں نے دروازہ نہیں کھولا ، اتنے میں کافروں کے ٹولے نے ہمیں گھیر لیا اور ایک سکھ میری طرف بڑھا ،لیکن میری ساس میرے آگے آ کر کھڑی ہو گئی اور سکھ کے سامنے ملتجیانے لگی کہ ہمیں چھوڑ دو ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے ؟ سکھ نے لاٹھی سے میری ساس کے سر پر وار کیا تو وہ وہیں ڈھیر ہو گئی اور پھر وہ سکھ مجھے وہاں سے اٹھا کر لے گئے ۔انہوں نے زبان نکال کر دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ زخم کانشان مجھے چیخ و پکار کی وجہ سے انہیں کافروں نے دیا تھا ، میری زبان میں سوراخ کر دیا تھا جس کی وجہ سے میری زبان میں تتھلاہٹ آ گئی ۔میری شادی کو صرف نو دن ہی ہوئے تھے اور ہاتھوں کی مہندی کا رنگ ابھی پھیکا نہیں پڑا تھا کہ میرا سہاگ بھی چل بسا اور کافروں نے مجھے چھ ماہ تک اپنے پاس قید رکھا ۔ پیسہ وصولی پر جانے والوں میں سے میرے دو کزن وہیں سے پاکستان بھاگ آئے اور تین کو شہادت نصیب ہوئی جبکہ میرا سسر وہیں رہ کر مجھے ڈھونڈتا رہا یہاں تک کہ میری ایک کزن کو بھی کافر اغواہ کر کے لے گئے ۔ میرا سسر پاکستان نہیں آیا اور وہیں رہ کر مجھے تلاش کر تا رہا ،چھ ماہ بعد جب میں بری حالت میں اسے ملی تو وہ مجھے ساتھ یہاں پاکستان لے آیا جبکہ میری کزن سات سال بعد لوٹی ، ہندؤں میں سے اس کے تین بچے بھی تھے جو وہ وہیں ہندؤں کو دے آئی ۔پاکستان کی آزادی کے وقت ہندوؤں کے ظلم کی کئی ایسی حقیقی کہانیوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جن کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا ، اگر ایک لمحے کیلئے وہ منظر تخیل میں لائیں کہ وہ بوڑھی عورت کس طرح جھریوں بھری اپنی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہا رہی تھی اور کپکپاتی ، تتھلائی آواز میں اپنی آپ بیتی سنا رہی تھی ۔ تو ایسا محسو س ہوگا کہ یہ ظلم اس کے ساتھ ماضی قریب میں ہی ہوا ۔آج ہم اسی پاکستان کو دیکھیں جس کیلئے ایسے لوگوں نے عظیم قربانیاں پیش کیں ہیں، تو ایسا لگے گا کہ جیسے اس مملکت خداداد کو گدھ نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اس کے وارثان ہونے کے دعویدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کی بنیادیں کھوکھلی کرکے اپنے محل اور جائیدادیں بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔ لیکن ان معصوموں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ، ایک ایسا دن ضرور آئے گا جب یہ پاک دھرتی ناپاک لوگوں سے صاف ہو جائے گی ۔شریفاں مائی جیسی لاکھوں عورتوں اور مردوں کیلئے پاکستان ایک عظیم نعمت سے کم نہ تھا ، جسکی قدر ہماری نسل میں نہیں رہی جو ایک المیہ ہے۔