DailyNews

فلاحی ریاست کے بنیادی اصول !!! تحریر:۔ ملک شفقت اللہ

طبیعت پاکیزگی اور زہد و تقویٰ کی طرف راغب ہو ، دل ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خوف سے لبریز ہو تو پاکیزگی نفس اور تقدس شخصیت کا ایک نہایت ہی اہم اور خصوصی وصف بن جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص خدا کی اطاعت کرے اور اس کی طرف آپ کو بلائے تو اس کی اطاعت ضروری جانو ، اور اگر کوئی خدا کی نا فرمانی کرے تو اس کی بات نہ مانو۔ حکمرانی ایک بار گراں ہے ، جو انسان اپنے نفس کی خواہشات میں اندھا ہو جائے وہ اپنی ذات کو مطلق العنان محسوس کرنے لگتا ہے حالانکہ مطلق العنانی او ر ساری کائنات کا خالق، مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔اللہ کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ چیز جو زمین میں ہے ، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کیلئے تعریف ہے ، اور وہ قادر ہے ہر چیز پر ۔ وہی ہے جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہم میں سے کوئی کافر ہے تو کوئی مؤمن ، اور اللہ وہ سب دیکھ رہا ہے جو ہم کرتے ہیں ۔ اسی نے زمین و آسمانوں کو بر حق پیدا کیا ، ہماری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی اور اسی کی طرف آخر کار ہمیں پلٹنا ہے ۔ اگر کوئی شخص سورۃ تغابن کی آیات نمبر ایک اور دو کے اس مفہوم کو سمجھ لے تو اس کا دل اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خوف سے لبریز رہے گا ۔ پھر نہ تو کوئی دنیا کا خوف رہے گا اور نہ ہی کوئی دنیاوی لالچ۔ دنیا میں بہترین طرزِ حکمرانی آج تک قرآن پاک ، آپ ﷺ کے کردار اور تعلیمات سے ملتا ہے ، ریاست مدینہ کے امور رہتی دنیا تک مثالی ہیں اور خلافت کا حسن جمہوریت ہے جس میں تمام تر معاملاتِ حکمرانی باہمی مشاورت اور عین شرعی امور کے تحت چلائے جاتے ہیں ۔ جمہوریت ، سیاست ، خلافت یہ پاکیزہ شعبے ہیں جنہیں ہنوز نے بدنام کر کے رکھ دیا ہے ۔ ریاست مدینہ تب مثالی بنی تھی جب وہاں مشاورت کو اہم عنصر بنایا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر بیالیس میں صالح لوگوں کی یہی پہچان بتائی ہے کہ وہ رب کا حکم ماننے والے ، نماز قائم کرنے والے اور اپنے معاملات آپسی مشورے سے چلانے والے ، اور اللہ جو انہیں رزق دیتا ہے وہ اس میں سے خرچ کرنے والے ہیں ۔اور پھر سورۃ العمران کی آیت نمبر 159 میں اللہ تعالیٰ نبی آخرالزماں محمد الرسول اللہ ﷺ کو حکم دیتا ہے کہ وہ معاملات دین میں بھی ساتھی صحابہؓ کو شریک مشورہ کر لیا کریں ، اور پھر جب عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کریں ۔ آپ ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے خلافت راشدہ کو تازہ کیا جس میں ٹھیک طور پر اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی ۔عنان حکومت جب بنو امیہ کے ہاتھ آئی تو انہوں نے خلافت کو موروثی بنا کر ملوکیت میں تبدیل کر دیا حالانکہ خلافت جمہوری ادارہ ہے ۔خلافت راشدہ کا نظام عوام کی رائے اور مشورہ اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر قائم تھا ۔ آپ کے مختصر دور خلافت میں رعایا کی فلاح و بہبود کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات کئے گئے ، خلیفہ بننے سے قبل نو مسلموں سے بھی جزیہ وصول کیا جاتا تھا ،آپ نے اسے ظلم قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کی۔ اس پر صرف مصر میں اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی اور وہاں کے حاکم نے آپ سے شکایت کی کہ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس کے جواب میں آپ نے لکھا کہ جزیہ بہر حال ختم کر دو ، حضورﷺ ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے محصل نہیں ۔ملوکیت کی امتیازی خصوصیت مٹانے کی پوری کوشش کی۔ بیت المال کی حفاظت کا سخت انتظام کیا گیا اور قومی امانت کا درجہ دیا، دفتری اخراجات میں تخفیف کی گئی ۔ ملک کے تمام معذورین اور شیر خوار بچوں کیلئے وظیفے مقرر کئے ۔ نو مسلموں پر جزیہ معاف کر دینے سے آمدنی گھٹنے کے باوجود سرکاری خزانے سے حاجت مندوں کے وظائف مقرر کئے لیکن ناجائز آمدنیوں کی روک تھام ، ظلم کے سد باب اور مال کی دیانتدارانہ تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک سال بعد یہ نوبت آ گئی کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے ۔آپ نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں جن میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کا حکم دیا ، شراب کی دوکانوں کو بند کروا دیا اور حکم دیا کہ کوئی بھی مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے ۔ آپ نے اپنے دور میں علم کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی ۔ آپ نے تدریس و اشاعت میں مشغول علمائے کرام کیلئے بیت المال سے بھاری وظیفے مقرر کر کے ان کو فکر معاش سے آزاد کر دیا ۔ آپ کا سب سے بڑا تعلیمی کارنامہ احادیث نبوی کی حفاظت و اشاعت ہے ۔ آپ کے دور میں بڑے پیمانے پر تبلیغ اسلام کے باعث ہزاروں لوگ مسلما ن ہوئے جن میں راجہ داہر کا بیٹا جے سنگھ میں شامل تھا ۔ آزادیِ پاکستان برصغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا معرکہ تھا جس میں لاکھوں قربانیاں ہوئیں اور پاکستان کیلئے قربان ہونے والے صرف اسی لئے پاکستان کا سفر کر رہے تھے کیونکہ یہاں انہیں شرعی اصولوں اور اللہ کے قوانین کی عملی پریکٹس کا آزادانہ موقع ملنا تھا ۔ اس غرض سے پہلی دستور ساز اسمبلی نے لیاقت علی خان مرحوم کی ہدایات پر مملکت خداداد پاکستان کے دستور وضح کئے جس میں شریعہ کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی کی گئی ، اس کے بعد جتنے بھی آئین مرتب کئے گئے سب میں شریعتِ خداوندی کو نافذ کرنے کیلئے مختلف دستور بنائے گئے جنہیں نافذ کرنے کیلئے ادارے بھی موجود ہیں لیکن افسوس کہ آج تک پاکستان پر حکومت کرنے والوں نے اسے برطانوی طرز پر چلانے کی کوشش کی ۔ حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف بھاری مینڈیٹ لے کر کامیاب ہوئی ہے اور اس کے چئیر مین عمران خان وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں جنہوں نے کامیاب ہونے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں بہت بلند پایا دعوؤں میں پاکستان کو مدینہ جیسی مثالی ریاست بنانے کا بھی اعلان کیا ہے ۔ ان کے سامنے خلفائے راشدینؓ اور عمر بن عبدالعزیز ؒ کے ادوار حکومت بھی ہیں ، مغربی طرزِ حکمرانی بھی سامنے ہے جس سے وہ بخوبی خلافت اور ملوکیت کا فرق دیکھ سکتے ہیں ۔ آج تک جتنے بھی عوامی نمائندوں یا آمروں نے پاکستان پر حکومت کی انہوں نے ملوکیت کا مظاہرہ کیا ، لیکن یہ واحد شخص ہے جس سے خلافت یعنی اسلامی جمہوریت کی امید عوام کو وابستہ ہوئی ہے ۔ اگر عمران خان صرف ان اسلامی دفعات کا نفاذ پاکستان میں یقینی بنا دیں جو آئین پاکستان کا اہم حصہ ہیں اور آج تک نافذالعمل نہیں ہو سکیں تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان اللہ کی توفیق سے ضرور خوشحال بھی ہو جائے گا اور صحیح معنوں میں اسلامی ملک بن کر بھی سامنے آئے گا ۔ کیونکہ آج تک پاکستان کا سیاسی نظام مغربی طرز پر چل رہا ہے جس میں فساد ہی فساد ہے ۔ 

Show More

Related Articles

Back to top button