جنتر منتر سب ڈھونگ ,تحریر عبدالجبار خان دریشک
جب انسان کی عقل اور سوچ پر دوسروں کا اختیار چلنے لگے ، تو اس کی ذات پر اس کا نہیں کسی اور کا کنٹرول ہوجاتا ہے ، ایسا تب انسان کے ساتھ ہوتا ہے جب اس میں علم اور شعور کی کمی ہوجائے اس کی عقل پر پردے پڑ جائیں ، تو وہ خود سے شعور حاصل کرنے کی بجائے دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے ، کبھی کبھی انسان کے ساتھ یوں بھی ہوتا ہے وہ لاحاصل کو حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جاتا ہے ، ایسے میں وہ لا حاصل کو شعور کے اجالوں میں ڈھونڈنے کی بجائے جہالت کے اندھریوں میں کھوج لگانا شروع کر دیتا ہے ، وہ اندھیروں میں ایسے پر اسرار راستوں پر چلتے ہوئے بھٹک جاتا کہ واپسی کی لاکھ کوشش بھی کرنا چاہے تو اسے شعور کی روشنی نصیب نہیں ہوتی ، پھر اس تاریکی میں ایسے غرق ہوتا ہے کہ اس کے جسم کو روح تک چھوڑ جاتی ہے پروہ اندھیروں سے زندہ اپنے شعور سے واپس نہیں آتا۔
انسان اکثر اپنی خوہشات کی تکمیل ، پریشانیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے بجائے محنت اور صبر کرنے کے اس کو حاصل کرنے یا چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے خدا کی ذات کی بجائے ایسے کرداروں کا سہارا تلاش کرتےہے جو اس کو مسائل کا حل منٹوں میں دینے کا دعویٰ کرتے ہیں ، لیکن ایسے کردار اپنی بہت ساری خواہشات کے خدا کی ذات مانگ رہے ہوتے ہیں ، یہی لوگ وہ اندھیرا ہیں جو پریشان حال انسانوں کو سچائی کے اجالے میں نہیں آنے دیتا۔
معاشرے میں ایسے بہت سارے ڈھونگی لوگ نہ تو عامل ہوتے ہیں نہ ہی ان کے پاس کی قسم کی غائب کی قوت ہوتی ہے ، بس ان کے سارے جھوٹ اور چالیں ان کے پیٹ اندر کی بھوک اور مادی خواہشات کی وجہ ہوتی ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ آج کے اس جدید دور میں جب انسان کے آدھے کام مشینں انجام دے رہی ہوں ، میڈیکل سائنس نے ترقی کے ہمالیہ عبور کر لئے ہوں پھر بھی انسان ان جنتر منتر پر یقین رکھتا ہے ۔
یکم جولائی کو بھارت کے شہر دہلی میں ایک ہی خاندان کے گیارہ افراد کی لاشیں برآمد ہونے والا پر اسرار واقعہ اسی نوعیت کے اندھیروں میں رہنے والوں کا تھا ، ان سب گیارہ مردہ افراد کا تعلق ایک ہی خاندا ن ربراڑی برادری سے تھا ، یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے جس میں ایک ہی گھر کے گیارہ افراد جن کی عمریں 16 سے لے کر 70 سال تک تھیں سب نے اجتماعی طور پر خودکشی کر کے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔ابتدائی طور پر یہ معاملہ میڈیا میں آیا تو ہرسننے والوں کے ساتھ پولیس کے بھی ہوش اڑ گئے کہ ایک ہی ساتھ 11 افراد کیسے خودکشی کر سکتے ہیں ، کیاان افراد کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کا رنگ دیا گیا ہے ، لیکن پولیس نے اپنی تفتیش جاری رکھی ، لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا گیا جن کے جسم پر کسی قسم کے زخم نہ تھے، اور نہ ہی کوئی مذاحمت محسوس ہوئی ، دہلی پولیس ہر زاویے سے تحقیق کر رہی ہے لیکن واقعہ کے کچھ دن بعد معاملہ پولیس کی سمجھ میں آ رہا ہے کہ اس فیملی کے ساتھ معاملہ نفسیاتی نوعیت کا ہے جن کو جنتر منتر مطلب جادو ٹونے کے لیے قائل کیا گیا ۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ اس گھر میں ایک لڑکا للت جو ان مرنے والوں میں شامل تھا اس کے ہاتھ کے لکھے رجسٹر ملے ہیں جن کو وہ 27 مئی 2013 سے بلاناغہ لکھ رہا تھا اور ان رجسٹروں کی تحریریں لگ بھگ 200 صفحات پر مشتمل ہیں ، ان میں سے ایک رجسٹر کے ایک ہی صفحہ میں تفصیل سے تمام باتیں ہندی میں لکھی ہوئی ہیں۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ 146پرماتما میں لین ہورہے ہیں۔ آنکھیں بند کررہے ہیں تاکہ بھاری اور بری چیز کو نہ دیکھ سکیں، مزید رجسٹر میں لکھا ہے کہ سات دن بعد مسلسل پوجا(ہندو مذہب کی عبادت) کرنی ہے۔ کوئی گھر میں آ جائے تو آئندہ جمعرات یا اتوار کے دن کو منتخب کریں۔ رجسٹر میں مزید لکھا ہے کہ بیبے(دادی) کھڑی نہیں ہو سکتی توالگ کمرے میں لیٹ سکتی ہیں۔ بببے شائد اس 70 سالہ بزرگ خاتون کو کہا گیا ہے جس کی لاش الگ کمرے میں سے برآمد کی گئی۔پولیس یہ بھی تفتیش کررہی ہے کہ متاثرہ خاندان کس گرو کو مانتا تھا۔ آیا کہ اس خاندان کو خودکشی کے لئے اکسایا تو نہیں گیا جس طریقہ سے یہ افراد لٹکے ہوئے تھے اس طریقے کی باتیں رجسٹر میں لکھی ہوئی ہیں۔ پولیس کے مطابق دونوں رجسٹروں میں موت اور موکش پر ایک کہانی نما لمبی تحریر موجود ہے ، جس میں کسی روحانی گرو کا نام نہیں ہے لیکن موت کے طریقوں پر ایک بڑا حصہ مو جو د ہے۔
پولیس کو پڑوسیوں اور جاننے والے لوگوں سے یہ پتہ چلا ہے کہ پورا خاندان نہایت مذہبی تھا، ان کے گھر میں ہر دوسرے دن شام کو کیرتن (ان کی مذہبی عبادت) ہوتے تھے۔ گھر کے باہر ہر روز ایک تختی پر شلوک (ان کے مذہبی کلمات) لکھے جاتے تھے۔ کنبہ کے تمام 11لوگ ہر ورت (ان کی مذہبی عبادت)ساتھ میں کرتے تھے۔ کنبہ کا ایک رکن گزشتہ دو تین برس سے مون ورت( ان کی مذہبی عبادت) پرتھا۔پولیس سبھی اطلاعات کو یکجا کر کے سائیکالوجیکل آٹوپسی کرانا چاہتی، میڈیکل سائنس میں سائیکالوجیکل آپٹوسی کی مدد سے مرنے والے کے دماغ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ آخر مرنے سے پہلے اس کے برتاو 191 میں کس طرح کی تبدیلی آئی تھی۔للت نے رجسٹر کے نوٹس میں لکھا ہے کہ آخری وقت خواہش جب پوری ہوگی تو آسمان ہلے گا، زمین کانپے گی۔ اس وقت تم ڈرنا نہیں۔ منتروں کو اور بڑھا دینا۔ میںآکر تمہیں اتار لوں گا۔ دوسروں کو بھی اتارنے میں مدد کروں گا۔146 قابل ذکر ہے کہ للت کو خواب میں اس کے والد نظر آتے تھے۔ رجسٹر میں لکھی تمام باتوں کا یہ مطلب نکالا جا رہا ہے کہ یہ میسج للت کو اس کے والد نے دیا اورللت نے خاندان کے دیگر ارکان کو ویسا ہی کرنے کو کہا۔
پولیس کا شک ایک بابا پر ہے جو جیل میں بند ہے۔ اور اس خاندان کا تعلق اس بابا سے رہا ہے ، یہ معاملہ سارے کا سارا جنتر منتر کا ہے کیونکہ اس واردات میں 11 کے ہندسے کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور ملنے والے رجسٹروں میں مختلف جگہوں پر تحریر میں 11 کے ہندسے کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے ، جیسے گیارہ مردے ، گیارہ پائپ ، گیارہ کھڑکیاں ، اور گیارہ اینگل۔ اب پولیس اس معاملے کی مزید تحقیق کررہی ہے ، جو کس رخ جاتی ہے لیکن بات تقریباً واضع ہو چکی ہے، معاملہ سارا جادو ٹونے اور پراسرار دنیا کی سوچ میں رہنے کی وجہ سے ہوا ہے ، معاشرے میں اس طرح کے جعلی عامل پیر ڈھونگی بابے بہت ہیں ، خاص کر برضعیر کے باشندے ان پر بہت زیادہ اعتبار کرتے ہوئے ان کا ہر کہنا ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں ، جس کی بنیادی وجہ جاہلت اور تعلیم کی کمی ساتھ شعور کی کا فقدان ہے
اکثر واقعات میں گھر کے افراد کی خودکشی کے واقعات گھریلوں جھگڑوں ، مالی پریشانی پر ہوتے ہیں جس میں باپ یا ماں بچوں سمیت خودکشی کر لیتی ہے ، اسی طرح جادو ٹونے والے دوسروں کی جان لے لیتے ہیں ، ایسے واقعات بھی پیش آچکے ہیں جادو کرنے کی خاطر جعلی عامل کے کہنے پر اپنے بچوں تک کو مارنے زندہ قبر میں دفن کرنے کے واقعات ہو چکے ہیں ، پیروں اور عاملوں کی طرف سے تشدد کی وجہ سے اجتماعی طور پر لوگوں کے مرنے کے بھی واقعات ہوئے ہیں ، لیکن دہلی میں رابڑی برادری کاواقعہ اپنی نوعیت انوکھا واقعہ ہے جس میں 11 افراد ایک ساتھ خودکشی کرتے ہیں جن کو کسی قسم کی مالی یا کوئی اور پریشانی نہ تھی