انتخابات نے بڑے بڑے برج الٹ دئیے,اکرام الحق قریشی
انتخابات نے بڑے بڑے برج الٹ دئیے، عوام نے امیدواروں کو نہیں عمران خان کو ووٹ دئیے اور تبدیلی کے دعوے کو ممکن بنایا۔ بلے کے انتخابی نشان نے مقبولیت حاصل کی، عمران خان کے نامزد امیدوار سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، شہباز شریف، سعد رفیق ، فاروق ستار، مولانا فضل الرحمان ، سراج الحق، بلاول بھٹو زرداری کو ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ نواز شریف کے ساتھی محمود خان اچکزئی بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ چوہدری نثار علی خان خود ڈوبے جماعت کو بھی راولپنڈی ڈویژن میں لے ڈوبے، ان کی جیب تین پنکچر ٹائروں کے ساتھ شاہراہ دستور کی بجائے پنجاب اسمبلی تک بمشکل پہنچی ۔ ان کی اس جیت میں پی ٹی آئی کے تین امیدواروں نوید سلطانہ، چوہدری محمدا فضل اور چوہدری محمد افضل آف پڑیاں مدد گار ثابت ہوئے۔ پوٹھوہار سے ن لیگ کا مکمل صفایا ہوگیا، فیصل آباد بھی ن لیگ کے ہاتھ سے نکل گیا جبکہ گوجرانوالہ سے قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھری جہاں اب اسے حکومت کے لیے کسی کے اتحاد کی ضرورت نہیں۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہوئی کہ کراچی میں الطاف حسین کا طلسم بحیرہ عرب میں غرق ہوتا دکھائی دیا، کراچی سے پی ٹی آئی کی کامیابی تازہ ہوا کا جھونکا ہے، پاک سرزمین پارٹی کو مقتدر حلقوں کی جماعت جانا جاتا تھا یہ پی ٹی آئی کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ انتخابات میں جیپ کے بڑے چرچے تھے مگر لوگوں نے جو سلوک جیپ والوں کے ساتھ کیا وہ بھی تادیر یاد رہے گا۔
پی ٹی آئی نے چترال، سوات، اپردیر، لوئردیر، مالاکنڈ، بونیر، بٹ گرام، ایبٹ آباد، ہری پور، صوابی، چارسدہ، نوشہرہ، پشاور، کوہاٹ، ہنگو، کرک، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، باجوڑ، مہمند، خیبر، اسلام آباد، اٹک، چکوال، جہلم، میانوالی، جھنگ، ملتان، لیہ ، خوشاب، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، جیکب آباد اضلاع کی تمام نشستیں جیت لیں۔ مسلم لیگ ن نے سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ ، سرگودھا، اوکاڑہ، پاک پتن، بہاول نگرجبکہ پیپلز پارٹی نے لاڑکانہ، قمر شہداد کوٹ ، سکھر، خیر پور، نوشہرو فیروز، نواب شاہ، سانگھڑ، عمر کوٹ، تھرپارکر، مٹیاری، ٹنڈواللہ یار، ٹنڈو محمد خان، سجاول، ٹھٹھہ، دادو اضلاع میں کلین سویپ کیا۔ کامیاب ہونے والوں میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، سید خورشید شاہ، نوید قمر شامل ہیں۔ نواز شریف کے بیانیے کا جادو سرچڑھ کر نہ بول سکا، عوام نے بلے کی بھلے بھلے کردی، یہ عوامی فیصلہ ہے یہی جمہوریت ہے تمام تر خرابیوں کے باوجود جمہوریت ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم منزل تک پہنچ سکتے ہیں، افراد اور جماعتیں بدلتی رہتی ہیں۔ کسی زمانے میں جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کا طوطی بولتا تھا آج لوگ اس کے نام سے بھی واقفیت نہیں رکھتے، ذوالفقار علی بھٹوکی پیپلز پارٹی کسی زمانے میں لوگوں کے دلوں پر راج کرتی تھی آج اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجی ٹیسٹ ٹیوب بے بی ق لیگ مقبول جماعت تھی آج اس کے لوگوں کو عمران خان کے نام پر اسمبلی تک پہنچنا پڑا۔ نواز لیگ کی مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی ۔ ادوار بدلتے رہتے ہیں، آج لوگوں نے عمران خان کو تبدیلی کے لیے ووٹ دیا۔ بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا، اب بال عمران خان کی کورٹ میں ہے انہیں قوم سے کیے اپنے وعدے پوری کرنا ہوں گے اور یہ بات ابھی سے ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ پانچ سالہ اقتدار گزرتے زیادہ دیر بھی نہیں لگتی۔ 2017کے اوائل میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نواز شریف اور ان کی جماعت کو 2018تو کجا 2023میں بھی شکست دینا ممکن ہے ، مگر چشم فلک نے دیکھا کہ نواز شریف کی ن لیگ خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ کاش ہمارے حکمران یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اصل اقتدار اعلیٰ کی مالک ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے وہ لوگوں کو اقتدار دے کر اور چھین کر بھی آزماتی ہے۔