DailyNews

سیاسی ڈائری,تحصیل گوجرخان,تحریر و تجزیہ: محمد نجیب جرال

عام انتخابات 2018 ،گزشتہ انتخابات کے برعکس نظریات کے بجائے ذاتیات کے ہونگے، دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ صوبائی اسمبلی میں اگر لوگ ووٹ تحریک انصاف کو دینے کا وعدہ کررہے ہیں تو قومی میں مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کو، اسی طرح کہیں مرکز میں تحریک انصاف کو ووٹ مل رہی ہے تو صوبائی میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کو، اس لیے سیاسی تجزیہ کاروں کے لیے عوام مزاج یا رجحان کا اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے۔
تحصیل گوجرخان ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر مشتمل ہے، گزشتہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے یہاں سے کلین سویپ کرتے ہوئے تینوں نشستیں جیت لی تھیں، قومی اسمبلی میں راجہ جاوید اخلاص جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر افتخار احمد وارثی اور راجہ شوکت عزیز بھٹی براجمان ہوئے تھے، اس بار افتخار احمد وارثی تحصیل گوجرخان کی بالائی قیادت کے رویے سے نالاں ہوکر احتجاجاً الیکشن کی دوڑ سے باہر ہوگئے ہیں جبکہ راجہ شوکت عزیز بھٹی کی اہلیہ کو اپنی ہی پارٹی کے تحصیل صدر نے نااہل کرادیا ہے، اس طرح تحصیل گوجرخان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کس امیدوار کو اس کی اپنی ہی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے نااہل کرا دیا ہو۔
راجہ پرویز اشرف سابق وزیر اعظم پاکستان بُری طرح شکست سے دوچار ہوئے تھے، شکست کھانے پر وہ مایوس ہونے کے بجائے وہ مسلسل اپنے حلقے میں موجود رہے اور عوام سے رابطہ قائم رکھا، پچھلے تین سالوں سے وہ اپنی الیکشن کمپین میں مصروف رہے، باوثوق ذرائع کے مطابق افتخار احمد وارثی اور راجہ شوکت عزیز بھٹی کا ووٹ بینک سے بھی انہیں فائدہ پہنچنے کا امکان ہے، اس کے برعکس راجہ جاوید اخلاص نے ترقیاتی کام تو بہت کرائے لیکن حلقے میں اپنا دفتر نہ بنانے اور مسلسل پانچ سال فون بند ہونے کی وجہ سے وہ عام لوگوں کی پہنچ سے دور رہے، حلقے میں اپنے دورے کے موقع پر ان کا ٹھکانہ اپنے گھر موہڑہ نوری کے بجائے گوجرخان میں شاہد صراف یہ کسی اور مسلم لیگی رہنما کے گھر میں ہوتا تھاجس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کے آبائی گاؤں میں ہر گھر پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا ہے اور یہ اندیشہ بھی ہے کہ تاریخ میں پہلی بار وہ شائد اپنا آبائی پولنگ سٹیشن بھی نہ جیت سکیں، مزید بدقسمتی یہ کہ افتخار احمد وارثی اور راجہ شوکت عزیز بھٹی سے شدید اختلافات نے بھی ان کے ووٹ بینک کو سخت نقصان پہنچایا، راجہ شوکت عزیز بھٹی اور افتخار احمد وارثی کسی صورت میں بھی ان کی کمپین میں شرکت نہیں کریں گے جس کا ناقابل تلافی نقصان راجہ جاوید اخلاص کو پہنچے گا، اس سب کے باوجود سیاسی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ راجہ جاوید اخلاص وہ سیاسی جن ہے جسے ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، آنے والے دنوں میں وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرلیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چوہدری محمد عظیم بھی مسلسل حلقے میں رہے مذکورہ بالا دونوں امیدواروں کے برعکس ان کا اپنا گھر موضع تھاتھی میں ہے اور وہ مسلسل یہاں موجود رہتے ہیں لوگوں کے مسائل حل بھی کرتے ہیں اور ان کے دکھ درد میں شریک بھی ہوتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ ان کا اپناذاتی ووٹ بینک بھی ہے اور حلقے میں وہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، اس کے علاوہ اپنی غریب پروری کی وجہ سے وہ لوگوں میں مقبول بھی ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں۔

متحدہ مجلس عمل اور تحریک لبیک کے امیدواران بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور وہ مقابلے کی صف میں نہ ہونے کے باوجود بھی اچھا خاصا ووٹ بینک رکھتے ہیں،مذہبی حلقے اپنا ووٹ بینک ان دونوں جماعتوں کے پلڑے میں ڈالیں گے، ن لیگی حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے مذکورہ بالا دونوں جماعتیں اس کے ووٹ بینک پر اثر ڈالیں گی۔
صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 8 میں پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کے بیٹے راجہ خرم پرویز کو ٹکٹ دیا ہے، راجہ خرم پرویز حلقہ عوام کے لیے نامانوس اور غیر مقبول ہیں، سابق وزیر اعظم کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ان میں عوام میں گھلنے ملنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں ہے، راجہ پرویز اشرف کی طرح ان کا مزاج عوامی نہیں ہے اور ویسے بھی اس فیصلہ سے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نے محض خانہ پری کی ہے ان کی نظریں صوبائی کے بجائے قومی اسمبلی کی سیٹ پر ہیں، اس حلقے سے مسلم لیگ ن نے چوہدری محمد ریاض کو ٹکٹ دیا ہے، چوہدری محمد ریاض ماضی میں راجہ جاوید اخلاص سے زیادہ منجھے ہوئے سیاستدان تھے، وہ صوبائی وزیر کے علاوہ قومی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں، سیاست کے میدان کے بڑے کھلاڑی تھے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سیاسی صلاحیتیں جن کا ماضی میں وہ مظاہر کرتے رہے ہیں اب بھی موجود ہیں یا؟؟اس حلقے میں ان کا پارٹی کے علاوہ برادری کا ذاتی ووٹ بینک بھی ہے جس کا یقیناًوہ فائدہ اٹھائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چوہدری جاوید کوثر اس حلقے میں مقبول لیڈر ہیں، افتخار احمد وارثی کے الیکشن نہ لڑنے کا علاقائی عصبیت کی بنیاد پرسب سے زیادہ فائدہ چوہدری جاوید کوثر کو پہنچے گا، پڑھے لکھے اور صاحب بصیرت انسان ہیں، گوجرخان شہر میں تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے راجہ طارق کیانی بھی ان کی جیت میں اہم کردار ادا کریں گے، اس کے علاوہ ثاقب علی بیگ ایڈووکیٹ کے گروپ کی حمائیت بھی سونے پہ سہاگہ ہوگی، ایم ایم اے کے امیدوار راجہ محمد جواد بھی مقابلے کی صف میں شامل ہوتے جارہے ہیں، گوجرخان شہر سے مذہبی و تجارتی تنظیموں کے علاوہ بااثر سماجی شخصیت راجہ عزیز بھی ان کی حمائیت کا اعلان کرچکے ہیں جنکا انہیں خاطر خواہ فائدہ پہنچے گا۔
حلقہ پی پی 9 میں چوہدری ساجد محمود کی پوزیشن فیصلہ کن حیثیت اختیار کرچکی ہو، سابق ممبر صوبائی اسمبلی راجہ شوکت عزیز بھٹی کی اہلیہ کے کاغذات اپنی ہی پارٹی کے تحصیل صدر راجہ محمد حمید ایڈووکیٹ نے مسترد کرانے کی وجہ سے وہ زخمی شیر بن چکے ہیں، راجہ شوکت عزیز بھٹی کا بیس ہزار سے زائد ذاتی ووٹ بینک ہے، مسلم لیگ ن کا ٹکٹ محمد حمید ایڈووکیٹ کو مل چکا ہے، محمد حمید ایڈووکیٹ کی تعلیم اور شرافت پر کوئی سوالیہ نشان نہیں لیکن سیاسی بصیرت اور عوامی رابطہ کی کمی کی وجہ سے وہ دیگر قائدین کی طرح عوام میں مقبول نہیں، صرف ٹکٹ کا ملنا ہی کافی نہیں، اگر راجہ شوکت عزیز بھٹی کے بھائی کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے جس کا کہ امکان ہے تو اصل مقابلہ راجہ فیصل عزیز بھٹی اور چوہدری ساجد محمود میں ہوگا،پیپلز پارٹی کا ٹکٹ چوہدری سرفراز خان آف راماں کوملا ہے، چوہدری سرفراز خان کا تعلق ایک بااثر سیاسی گھرانے سے ہونے کے باوجود عوام میں ان کی جڑیں نہ ہونے کے برابر ہیں، گزشتہ بلدیاتی الیکشن میں انہیں محض 891ووٹ ملے تھے، سیاسی حلقوں کے مطابق راجہ پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے چوہدری ساجد محمود کا زور توڑنے کے لیے ٹکٹ دیا ہے، چونکہ چوہدری سرفرازخان اور چوہدری ساجد محمود کا تعلق ایک ہی گجر قبیلے سے ہے اور چونکہ گجر قبیلے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے اس لیے چوہدری ساجد محمود کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، چوہدری ساجد محمود کا ذاتی ووٹ بینک ہونے کے علاوہ پارٹی کا ووٹ ہے جو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے علاوہ چوہدری ساجد محمود اپنے حلقے میں عوام کے دکھ سکھ میں شریک رہے اس لیے عوام میں ان کی پذیرائی موجود ہے، مسلم لیگ ن میں اختلاف کا فائدہ بھی یقینی طور پر چوہدری ساجد محمود کو پہنچے گا، متحدہ مجلس عمل کے چوہدری عابد حسین ایڈووکیٹ ایک متحرک شخصیت ہیں جماعت اسلامی حلقہ پی پی 9کے امیر بھی ہیں، بہت کم وقت میں انہوں نے حلقے میں اپنا مقام بنایا ہے، شرافت، دیانت اور صداقت کے پیکر ہیں، نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں، اب وقت بتائے گا کہ قوم صداقت و دیانت کو ترجیح دیتی ہے یا روائتی سیاستدان ہی پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔
عوامی رائے کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلی میں امیدواروں کی پوزیشن:
:NA-58

پوزیشن
نام امیدوار
پارٹی
ریمارکس
1st
راجہ پرویز اشرف
پاکستان پیپلز پارٹی
سیاسی حلقوں کے مطابق شائد پنجاب میں یہ واحد سیٹ ہوگی جو پیپلز پارٹی جیتے گی
2nd
چوہدری محمد عظیم
پاکستان تحریک انصاف
چوہدری محمد عظیم کی پوزیشن میں بہتری آرہی ہے اور پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے امکانات موجود ہیں
3rd
راجہ جاوید اخلاص
پاکستان مسلم لیگ ن
سیاسی حلقے عوامی سروے ماننے کو تیار ہی نہیں ، ان کا خیال ہے کہ راجہ جاوید اخلاص ایک سیاسی جن ہے جسے ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے

صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی8:
1st

چوہدری جاوید کوثر
پاکستان تحریک انصاف
ان کی پہلی پوزیشن پر کوئی سوال نہیں
2nd
چوہدری محمد ریاض
پاکستان مسلم لیگ ن
سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ چوہدری محمد ریاض پہلی پوزیشن پر پہنچ سکتے ہیں
3rd
راجہ خرم پرویز
پاکستان پیپلز پارٹی
عوامی و سماجی حلقے کہتے ہیں کہ راجہ پرویز اشرف نے محض خانہ پری کے لیے اپنے بیٹے کو ٹکٹ دیا

صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 9:
1st

چوہدری ساجد محمود
پاکستان تحریک انصاف
بلا مبالغہ پہلی پوزیشن پر ہیں 
2nd
چوہدری سرفراز خان
پاکستان پیپلز پارٹی
اگرراجہ فیصل عزیز بھٹی کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی جس کا کہ امکان ہے تو پھر یہ مقابلے کی صف سے نکل جائیں گے 
3rd
راجہ محمد حمید ایڈووکیٹ
پاکستان مسلم لیگ ن
حلقے کے تمام چیئرمینوں نے ان کی حمائیت کا اعلان کیا لیکن عوام میں پذیرائی بہت ضروری ہے

نوٹ: یہ سیاسی تجزیہ اور سروے آجمورخہ 28/06/2018تک کا ہے، ابھی پولنگ میں پورا مہینہ باقی ہے لمحہ با لمحہ بدلتی ہوئی صورت حال میں کون سی جماعت عوام میں مزید پذیرائی حاصل کرے گی حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا، 

Show More

Related Articles

Back to top button