DailyNews

الیکشن اور ہمارا نظام,تحریر: خاور جتوئی

ایک نظام باقاعدگی سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے اور انحصار کرنے والے عناصر کا مجموعہ ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک کا نظام اپنے مقامی حالات اور محلِ وقوع سے متاثر اور اپنے ماحول اور گرد ونواح سے گھرا ہوتا ہے جسے ہم اس کے مقاصد، بناوٹ اور ترکیب کے مطابق پرکھ سکتے ہیں۔ آئین اور قانون، روایات، طرزعمل، قواعد و ضوابط، طرز حکمرانی، ادارے اور اسی طرح کے دیگر عوامل کسی بھی ملک کے نظام کو واضح کرتے ہیں۔
روزمرہ کے امور کی انجام دہی کےلیے وضع کیے گئے قواعد ہی دراصل 148نظام147 کہلاتے ہیں؛ جس کےلیے آئین اور قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ہر ملک کا آئین عوام کی اکثریت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور آئین میں ترامیم بھی بظاہر عوام کے مفاد میں کی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود چند افراد کا ٹولہ عیاشی کی زندگی گزار رہا ہے۔ نظام بنائے تو جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس پر عمل کتنا کیا جاتا ہے۔ اس لیے اگر ہم یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ نظام ایک کتابی دستاویز نہیں، ایک رویہ ہے۔ یہ صرف سربراہ حکومت ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری مشینری کے روزمرہ امور کی انجام دہی کا طریقہ ہے، اس لیے بظاہر ایک چہرے یا خاندان کی تبدیلی سے نظام میں وہ تبدیلی نہیں آئے گی جس کی اشد ضرورت مملکت پاکستان کو ہے۔ ہمارا نظام فالج زدہ اور ناقابل اصلاح ہوتا جا رہا ہے اور اس میں بنیادی تبدیلی کے بغیر الیکشن کے عمل کو جاری رکھنے سے کوئی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔
یہ کھیل ہم کئی سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جب عوام میں اس نظام سے بیزاری پیدا ہوتی ہے تو چہرے یا حکمران جماعت ہی تبدیل کردی جاتی ہے یا اسی جماعت کے افراد کو لے کر ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کردی جاتی ہے۔ نئے نعرے اور نام سے عوام کو پھر سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں اور بھولی عوام پھر تبدیلی کے نعرے پر بے وقوف بن جاتی ہے۔ 
پرانے آزمائے ہوئے انجن اور ڈبوں پر مشتمل ٹرین کبھی منزل مقصود پر نہیں پہنچاسکتی۔ وہ جو خود اس نظام کی پیداوار ہیں اور کل تک اس نظام سے مفادات حاصل کرتے رہے، وہ کبھی نظام کی تبدیلی کی جدوجہد کریں گے اور نہ اس جدوجہد کو کامیاب ہونے دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کے نعرے میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے اور اب چہرے کی تبدیلی اور اقتدار کے حصول کو اصل مقصد بنالیا گیا ہے۔
قابل ذکر ووٹ حاصل کرنے والی تمام جماعتیں جو اس وقت اقتدار کا عرصہ گزار چکی ہیں لیکن انیس بیس کے فرق کے علاوہ کوئی انقلابی تبدیلی تو کیا تبدیلی کا نشان بھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔ تو پھر عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک تبدیلی اور حقوق کے حصول کےلیے ان ہی لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے؟ جن سے مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ عوام ایک بار اس نظام انتخابات کو ہی مسترد کیوں نہیں کردیتے جس میں تبدیلی چاہنے والے کبھی قابل ذکر تعداد میں اسمبلی کے فلور پر نہیں پہنچ سکتے۔ اس نظام میں جیتنے کےلیے پیسہ، دھونس، دھاندلی، ظلم، جبر اور مافیا کی سرپرستی چاہیے اور یہ شرائط کوئی بھی انقلابی ذہن رکھنے والا لیڈر پوری نہیں کرسکتا۔ اس نظام کے تحت ہونے والے الیکشن کے اجزائے ضروری نہ ایسے لوگوں کے پاس ہوں گے اور نہ وہ قابل ذکر تعداد میں اسمبلی میں پہنچ سکیں گے133 
نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی!
یہاں تبدیلی کو بھی چوروں اور بھگوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان کی شمولیت پر خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہر آنے والا باغی اور چھوڑ کر جانے والا داغی بن جاتا ہے۔ یہ نظام ان ہی لوگوں کا ہے، وہی اس نظام کی ضروریات رکھتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اس نظام میں کوالیفائی (Qualify) نہیں کرتی۔ یہ نظام ان کا ہے اور وہی اس میں کھیلیں گے۔ یہ کھیل شرفائ کا نہیں، چاہے وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عبدالستار ایدھی جیسے محسن پاکستان ہی کیوں نہ ہوں۔
کیا کسی تحریک کے سربراہ ہی فقط کرپٹ ہوتے ہیں؟ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں کیا وہ کرپٹ نہیں؟ جو ان کا ساتھ دیتے ہیں کیا وہ ساتھ کسی نظریے، عوام، پاکستان اور اسلام کی خدمت کے لیے دیتے ہیں؟ جو کروڑوں لگا کر اپنی سیاست بناتا اور الیکشن لڑتا ہے، وہ عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہے! یہ سب سے بڑا جھوٹ، فریب اور مکر ہے۔ اس کرپشن کے دسترخوان سے سب ہی مستفید ہوتے رہے اور ہورہے ہیں۔ اور زیادہ کی تلاش میں ایک سے دوسری پارٹی میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ نہ ان کا کوئی نظریہ ہے اور نہ لیڈر، ان کا مقصد بس اپنے مفادات کا تحفظ ہے۔ ان لیڈران کے سابقہ اور نئے لیڈران کی تعریف اور تحفظ میں بیانات دیکھ لیں۔ اگر پھر بھی عوام یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان کے وفادار رہیں گے تو میں یہی کہوں گا کہ وہ بیوقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں نظریہ، منشور، قابلیت، ایجنڈے اور کارکردگی کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی۔ ووٹ ذات، برادری، قومیت، مسلک اور لاشوں پر دیے جاتے ہیں۔ پھر تبدیلی کیسے ممکن ہے؟ یہی وجہ ہے کہ سیاست پر چند خاندانوں کا کنٹرول ہے اور عوام کی اکثریت کےلیے یہ ایک شجر ممنوعہ ہے۔
جہاں تک عوامی انجماد کا تعلق ہے کچھ یقین کیے بیٹھے ہیں کہ اب تبدیلی کا قطعی امکان نہیں، کچھ کسی طاقتور مسیحا، اللہ دین کے چراغ یا جادو کی چھڑی کا انتظار کر رہے ہیں اور کچھ خود بھی مایوس ہیں اور دوسروں کو بھی مایوس کر رہے ہیں کہ اب یہی قوم کا مقدر ہے –
تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی انقلاب , کوئی بھی تبدیلی لانے میں چند لوگوں کا کردار ہی ہوا کرتا ہے۔ اور وہ چند لوگ عام سطح کے ہوتے ہیں۔ کسی اشرافیہ سے نہیں ہوتے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ قوم میں تبدیلی کا شعور اور خواہش ہو۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

Show More

Related Articles

Back to top button