اسلام اور آج کا معاشرہ,تحریر: فخرالدین
عبادات معاملات ہر ایک کو اسلامی طریقے کے مطابق ڈھالنا 146146اصلاح معاشرہ145145 کہلاتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کی حدود بہت وسیع اور محیط ہے۔ اسلامی معاشرے کی سب سے پہلی بنیاد لباس، اخلاق وایمان اور ماحولیات کی تطہیر وتنظیف ہے۔ دوسری بنیاد عبادات کی اصلاح ہے۔ اصلاح معاشرہ کی تیسری بنیاد 146146شادی بیاہ145145 کی اصلاح ہے۔ اصلاح معاشرہ کی چوتھی بنیاد 146146سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہے145145۔
اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری کس پہ ہے؟ ہر کلمہ گو مسلمان پہ اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری ہے۔ کیا معاشرے میں بگاڑ پہلے سے موجود تھا یا بعد میں رونما ہوا؟ ایسے چند سوالات کا اگر جواب ڈھونڈا جائے تو یقیناًیہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا کہ اصلاح کیسے ممکن ہے۔ معاشرے میں بگاڑ پہلے سے موجود نہیں تھا، رفتہ رفتہ یہ بگاڑ پیدا ہوا اور اب بھی جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ویسے ویسے معاشرے میں تبدیلیاں رونماں ہورہی ہیں۔ ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے تو دوسری طرف نوجوان نسل بگڑتی چلی جارہی ہے۔ اس خرابی اور بگاڑ کے ذمہ دار میں اور آپ ہیں ، ہمارا پسندیدہ مشغلہ یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھراتے رہتے ہیں، معاشرے کی اصلاح کے لئے ہم خود کوئی عملی اقدام نہیں کرتے ۔ دوسروں کے حق میں ہم بہترین جج اور اپنے حق میں بہترین وکیل ہے۔ دوسروں پر ہم جھٹ سے کفر، شرپسند یا فسادی ہونے کا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور اپنی ہر چھوٹی بڑی غلطی کی ہزاروں تاویلیں، دلائل پیش کرکے اپنی دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے واحد کام جو ہم کرتے ہیں وہ دوسروں کو نصیحت ہے ،ہم ہر اچھے کام کی دوسروں کو نصیحت کرکے سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا اور اسی نصیحت پر خود عمل پیرا ہونا بھول جاتے ہیں،جبکہ عمل قول سے ذیادہ تاثیر دیتا ہے معاشرے کی اصلاح خود ہمارے اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے (ایک مفتی صاحب سے کچھ سادہ لوح افراد نے مسئلہ معلوم کیا کہ ایک کنویں میں کتّا گِر کر مرگیا ہے اس صورت میں کیا حکم ہے؟ مفتی صاحب نے مسئلہ بتایا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے ، عوام نے کنویں کا تمام پانی نکال کر مفتی صاحب سے کہا کہ پانی تو نکال دیا ہے مگر بدبو اب بھی باقی ہے ، وجہ معلوم کی گئی تو پتا چلا کہ پانی تو نکال دیا گیا پر کتا اب بھی کنویں میں موجود ہے) آج ہمارے معاشرے میں یہی ہورہاہے ہم دنیا کی بدبو ختم کرنے کے درپے ہے لیکن اپنے اندر کی بدبوں دور کرنے پر ہماری کوئی توجہ نہیں ہے۔ جب تک اپنے گردوپیش کے سدھار اور اصلاح سے پہلے ہم خود کو سدھارنے اور سنوارنے کی کوشش نہیں کریں گے معاشرہ نہیں سدھر سکتا۔
اسلام نے انسان پر نہ صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری عائد کی ہے ، بلکہ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالی ہے۔ اولاد، عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کو راہراست پر لانیکا فریضہ بھی گھر کے سربراہ پر عائد کیا ہے۔ خود انبیاء علیہ السلام بھی اس فریضے سے مستثنی قرار نہیں دیے گئے، حتیٰ کہ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پہلا حکم دیا گیا وہ یہ تھا 146146اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایے145145۔ یعنی تزکیر و ترہیب اپنے گھر سے شروع کریں، چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیزواقارب اور اپنے خاندان کو کھانے پر جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا 146146اے بنی عبدالمطلب، مجھے اللہ کی طرف سے تمہارے حق میں کوئی اختیار نہیں تم میرے مال میں سے جتنا چاہو مجھ سے لے لو، خدا کی قسم جو چیز میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں، مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان معلوم نہیں جو اپنے قوم کے پاس اس سے بہتر کوئی چیز لایا ہو ، میں تمہارے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی طرف دعوت دو تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرے ہاتھ مضبوط کرے اور اس کے نتیجے میں میرا بھائی بن جائے145145۔ (تفسیر ابن کثیر )
اس طرح ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے خطاب کے ذریعے اسی بات کی تنبیہ فرمائی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے 146146اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے145145 اس آیت میں گھر کے سربراہ کو حکم دیا جارہا ہے کہ خود بھی دوزخ کے عذاب سے بچے اور اپنے ماتحتوں کو بھی عذاب سے بچائے۔
بقول ایک داعی اورمفکر:146146آپ کے لیے فکرکی بات یہ نہیں ہے کہ سماج بگڑرہاہے ،فکرکی بات یہ ہے کہ ٓاپ بگڑرہے ہیں، آپ سدھرجائیں توسماج سدھر جائے گا، خرابی سماج میں نہیں خرابی آپ میں ہے ۔ حیرت ہے کہ ٓاپ باہر کی خرابیوں کے تذکرے کررہے ہیں حالانکہ خرابی جو کچھ ہے آپ کے اندرہے ۔ تعجب ہے کہ آپ دوسروں کی اصلاح کے لئے بے چین وبے قرارہیں حالانکہ اصلاح کی ضرورت آپ کو ہے ۔آپ کو دوسرے لوگ مریض نظرآرہے ہیں حالانکہ سب سے بڑے مریض آپ ہیں۔ آپ کی اپنی کشتی بھنورمیں ڈانواڈول ہے لیکن آپ کو دوسروں کی کشتیاں ساحل سے لگانے کی بیتابی ہے ، آپ کے گھر کا کل اثاثہ راکھ کا ڈھیر بنتاجارہاہے لیکن آپ دوسروں کی لگی آگ تلاش کرنے میں مصروف ہیں کہ اسے بجھادیں۔ اس طرزفکروعمل میں آپ تنہانہیں ہیں ہرایک آپ ہی کی طرح سوچ رہاہے۔ ہرایک چاہتاہے کہ اصلاح ہولیکن دوسروں کی،ہرایک چاہتاہے کہ برائیاں ختم ہوں لیکن دوسروں کی زندگی سے ،ہرایک کی تمناہے کہ نیکی اوربھلائی کاچلن عام ہو لیکن یہ سب کچھ دوسرے کریں،ہرایک سارے جہاں کاجائزہ لینے کے لئے نہایت چاق وچوبندہے لیکن اپنے جہاں سے بے خبرہے اوراس بشر کی پستی کایہی اصل سبب ہے145145
جب ایک شخص اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کریگا تو اس سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا اور جب ایک معاشرہ اپنی صحیح راہ کی طرف چل پڑے گاتو دھیرے دھیرے اس کے اچھے اثرات پوری قوم میں منتقل ہوں گے اور پوری قوم میں اصلاح کا جذبہ بیدار ہوگا۔ آخر میں معاشرے کی اصلاح کی طرف ذہن و دل متوجہ کرتے ہوئے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا دردِ دل ملاحظہ ہو 146146اگر آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آپ کا دین برحق ہے اور مرنے کے بعد سزا و جزا کے مراحل پیش آنے والے ہیں تو خدا کے لیے اپنے اولاد کو بھی اس سزا و جزا کے دن کے واسطے تیار کیجیے، انہیں ضروری تعلیم دلوائیے، ان کے ذہن کی شروع ہی سے ایسی تربیت کیجئے کہ ان میں نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو ، ان کی صحبت اور ماحول درست رکھنے کا اہتمام کیجیے ، اپنے گھروں کو تلاوت قرآن اور اسلاف امت کے تذکروں سے آباد کیجیے ، گھر میں کوئی ایسا وقت نکالے جس میں تمام گھر والے اجتماعی طور پر دینی کتب کا مطالعہ کریں، اپنی ذاتی عمل کو ایسا دلکش بنائیے کہ اولاد اس کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرے۔