ڈاکٹر عارف علوی صدارتی منصب کا سہی حقدار۔تحریر: حلیم عادل شیخ
اب تک وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جس قدر بھی وفاقی اور صوبائی حکومت کے حوالے سے فیصلے کیے ہیں وہ سب کے سب قابل ستائش اور لائق تحسین ہیں ان کے تمام تر فیصلوں میں ایک بڑااور سب سے اہم فیصلہ صدر مملکت کا انتخاب تھا جس کے لیے انہوں نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا کہ جس پر اپوزیشن جماعتوں سمیت تحریک انصاف کے کسی ایک فرد نے بھی اعتراض نہ کیا ،اور یوں آج الحمداللہ ڈاکٹر عارف علوی کے صدر پاکستان منتخب ہونے کے بعد حکومت کا سیٹ اب مکمل ہوچکاہے اور حکومت اپنے منشور میں کیئے گئے وعدوں کو مکمل کرنے کے لیے اب مکمل طور پر تیار ہوچکی ہے ،کہا یہ جارہا تھا کہ ایک تبدیلی تحریک انصاف کے ہاتھوں ہوئی تو دوسری تبدیلی اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھوں سے ہوگی مگر ایسا کچھ نہ ہوا اور قوم نے دیکھا کہ تمام تر چالاکیوں اور سازشوں کے باوجود انہیں ڈاکٹر عارف علوی کی صورت میں ایک محب وطن صدرمملکت مل چکاہے ،اور اس طرح یہ ملک اب حقیقی جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوچکاہے ،میں نے ڈاکٹر عارف علوی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ان کے ساتھ اندرون سندھ کے گنجان آباد علاقوں میں سفر کیا اور اس کے علاوہ پاکستان کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں ان کا ہمسفر رہاہوں وہ ایک ایمانداردواندیش اور مستقبل شناس آدمی ہیں جس پر یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ نہایت خلوص نیت اور ایمانداری کے ساتھ وفاقی حکومت کے لیے اپنا مثبت کردارکرینگے ۔مجھے یقین ہے کہ ان کے صدرپاکستان منتخب ہونے کے بعد اب عوام ملکی سیاست میں آئین اور قانون کی حکمرانی کا دور پھلتے پھولتے ہوئے دیکھے گی ،آج جس طرح سے عمران خان اس ملک میں عوام کے لیے امید کی کرن بنے ہوئے ہیں بلکل اسی طرح ڈاکٹر عارف علوی بھی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملکر اس ملک کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں اپنا بھرپور کرداراداکرینگے ،ہم نے دیکھا کہ وطن عزیز کے 13ویں صدارتی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹرعارف علوی 553ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ،ان کے مقابلے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے بیرسٹر اعتزازاحسن 124اور مسلم لیگ ن کے شفقت زدہ مولانا فضل الرحمان صاحب یوم پاکستان کی مخالفت کے بعد 184ووٹ لیکر سب کے سامنے ہیں ،ممکن ہے کہ یہ اپوزیشن جماعتیں اگر مل کر صدارتی انتخاب میں حصہ لیتی تو مقابلہ سخت ہوجاتامگر جہاں تک جیت کا سوال ہے یہ ناممکن ہی تھا کیونکہ تحریک انصاف اس وقت اس ملک کے چاروں صوبائی اسمبلیوں اور وفاق میں ایک مظبوط ترین جماعت کے طور پر موجود ہے جسے ہرانا سراسر ناممکن سا عمل تھا،قوم نے دیکھا کہ جس انداز میں صدارتی کرسی کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کو اپنی سیاسی اوقات دکھائی ہے اس کی نظیر کسی بھی دور میں دکھائی نہیں دیتی جب ان دونوں جماعتوں سے کچھ نہ بن سکا تو صدارتی انتخاب کے آخری روز ان لوگوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانا شروع کردیا تھا،یہ ہی وجہ تھی کہ تحریک انصاف کے صدارتی امیداور نے قومی اسمبلی ،سینٹ ،خیبر پختونخوا،پنجاب،سندھ اور بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کے امیداروں کو شکست سے دوچار کیا،ڈاکٹر عارف علوی کی کامیابی کے بعدان سے اس ملک کی عوام کو ہی نہیں بلکہ کراچی کی عوام کو بہت زیادہ توقعات ہیں وہ ہمیشہ سے ہی کراچی کی عوام میں گھلنے ملنے والوں میں سے رہیں ہیں ،کراچی میں تحریک انصاف کی شاندار کامیابی بھی ڈاکٹر عارف علوی کی دن رات کی کوششوں کا نتیجہ ہے ،یقیناً ڈاکٹر عارف علوی بطور صدرمملکت کراچی کی رونقیں لوٹانے میں اپنا اہم کرداراداکرینگے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ تحریک انصاف کے فاؤنڈرممبر ہیں اور انہیں یہ منصب تحریک انصاف کے ووٹوں اور اتحادی جماعتوں کے تعاون سے ملاہے مگر صدر مملکت کا یہ منصب انہیں صرف تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کا صدر ہی نہیں بناتی بلکہ وہ ریاست پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے اس ملک کی تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں سمیت اس ملک کی 22کروڑ عوام کے بھی صدر ہیں لہذا اب انہیں ہر ایک اس کارکن کی بھی خدمت کرنا ہوگی جن کا تعلق خواں کسی بھی جماعت سے ہوگا،علاوہ ازیں عمران خان کا شروع دن سے ہی ماننا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے ساتھ داخلی اور خارجی راستوں میں ناکامی کا معاملہ بدعنوانی ہے کرپشن ہے رشوت ستانی اور سب سے بڑھ کر اقرباپروری ہے جس نے نہ صرف پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کردیاہے بلکہ اس عمل نے پاکستان کو صدیوں پیچھے دھکیل رکھا ہے لہذا ان تمام وجوہات کے خاتمے کا جو عزم وزیراعظم عمران خان کے لیے سب سے بڑ اچیلنج ہے اس میں ان کا ساتھ دینے کے لیے قوم کو ایک متحرک اور ایماندار صدر میسر ہوچکاہے ،صدارتی انتخابات کے دنوں ہی مولانا فضل الرحمان نے یوم آزادی نہ منانے کا اعلان کیا تھا اس دن سے ہی اس ملک کی عوام اس میں خواہ بزنس کمیونٹی کے لوگ ہو ،چاہے ،اس ملک کے فنکار ہو ،چاہے کھلاڑی ہوسب نے ہی ان پر شدید اعتراضات کیے کچھ نے تو ان پر اس قدر تنقید کی کہ اللہ کی پناہ لوگوں نے تو انہیں غدار وطن اور ملک بدرکرنے کا بھی مشورہ دیا مگر افسوس اس ملک کی دوسری بڑی جماعت جو کئی مرتبہ اس ملک میں اقتدار میں رہی یعنی مسلم لیگ ن اس کے بہت سے لوگوں نے بھی مولانا کی ہاں میں ہاں ملائی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ مولانا کے الفاظ کسی بھی محب وطن شخص کے لیے ناقابل قبول ہیں اس کے باوجود مسلم لیگ ن نے صدارتی انتخاب کے لیے مولانا فضل الرحمان کو اپنا متفقہ امیداور قراردیا جس کا حشرپھر قوم نے دیکھ لیاہے ،کیونکہ یہ ملک لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے شاید دینی علوم کے ماہر مولانا کو اس بارے میں علم نہ ہو کہ آزادی کتنی بڑی نعمت کا نام ہے ،شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ ملک وقوم کی آزادی کسی بھی شخصیت یا جماعت یاپھر زات سے بالاتر ہوتی ہے ،بھلا جس شخص کو اس ملک کی آزادی ہی قبول نہ ہو بھلااسے اس ملک کا صدر مملکت کیسے بنایا جاسکتاہے ؟۔انہوں نے اس قسم کا بیان دیکر نہ صرف پوری قوم کا دل دکھایا بلکہ انہوں نے اپنے عمل سے بھارت اوراس ملک کے لیے براسوچنے والوں کی ترجمانی بھی کی ،خیر ابھی یہ قوم مولانا کے کہے گئے الفاظوں کو اس قدر جلد نہیں بھلانے والی مجھے یقین ہے کہ یہ ہی الفاظ مولانا فضل الرحمان کی سیاست کے خاتمے کا باعث بھی بنیں گے ،جہاں تک ڈاکٹرعارف علوی کا معاملہ ہے وہ تحریک انصاف کے ابتدائی دور کے متحرک کارکن ہیں اور مولانا فضل الرحمان کی نسبت ایک سچے محب وطن اور پاکستانی ہیں ،
ڈاکٹر عارف علوی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہیں بین الاقوامی امور کی بھی سوجھ بوجھ ہے،لہذااب یہ اپنی ڈپلومیسی سے پاکستان کی بین الاقوامی ڈپلومیسی میں معاون ثابت ہونگے ،اس لیے ان سے امیدیہ کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی پالیسیز میں حکومت بھرپور رہنمائی کرینگے۔