DailyNews

کیا بیوہ عورت میں نحوست ہے؟عبدالوارث ساجد

یہ ایک عقیقے کی تقریب تھی۔ شادی کے کئی سال بعد اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت دی تھی اگر چہ نرینہ نہیں مگر پھر بھی خوشیوں کا اظہار بتا رہا تھا کہ پیدا ہونے والی بچی بڑی منتوں اور دعاؤں کا ثمر ہے خاندان کے سبھی افراد گھر میں موجود تھے مگر باپ بننے والے کی سگی بھتیجی موجود نہیں تھی دُور دُور سے لوگ آئے تھے مگر وہ محلے میں رہنے کے باوجود حاضر نہ تھی۔ تقریب میں موجود ایک شخص نے اپنی قریبی عزیزہ کی غیر حاضری کا سبب پوچھا تو اہل خانہ نے جواب دیا۔
’’ہم نے انہیں دعوت میں نہیں بلایا‘‘؟ جواب نے تشویش اور بڑھادی یہ تشویش سوال بن کر لب پہ آئی کہ آخر سگی بھتیجی کو کیوں نہ دعوت دی۔ میزبان نے جواب دیا ’’وہ حال ہی میں بیوہ ہوئی ہے آپ کی بھابھی کہتی ہیں کہ بیوہ کی نحوست بچی پر پڑے گی اس لیے انہیں بلانا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘
یہ جواب اس قدر افسوس ناک اور کرب انگیزتھا کہ وہ صاحب خوشیوں بھری محفل میں بیٹھے مسلمان ہونے پر افسوس کرتے رہے کہ ہم مسلمان ہندوؤں کے پیچھے چلتے چلتے آخر کہاں تک جا پہنچیں گے۔
ہماری عورتوں کے اندر ہندوؤں کی فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر ہندو مذہب اس قدر راسخ ہو گیا ہے کہ وہ اپنے قول وفعل طور طریقے اور خوشی غمی کے ہر رسم و رواج کوہندوانہ طریقے سے منانے کے ساتھ ساتھ ان کے مذہب اور سوچ کو بھی اپناتی جا رہی ہیں۔ بیوہ عورت کے متعلق ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ منحوس ہے۔ہندوعورتوں کو شوہر کے فوت ہونے پر ہی اس کی چتا کے ساتھ زندہ جلا دیا کرتے تھے۔جسے ستی کہا جاتا ہے۔
ہندوؤں کے نزدیک بیوہ عورت چڑیل سے بھی بدتر سمجھی جاتی تھی ۔ اس سے ہر شخص دور بھاگتا تھا اسے گھر سے نکال دیا جاتا برتن رہن سہن تک الگ ہو تا تھا۔بیوہ عورت کی اپنی اولاد کے سوا اس کے سائے سے ہر شخص بچتا تھا ہندوؤں کا کہنا تھا کہ بیوہ کی موجودگی ہر چیز پر تاریک اثر ڈالتی ہے اس لیے اسے کبھی بھی خاندان کے تہواروں میں شریک نہیں کیا جاتا ۔ یہی نہیں بلکہ کہا جاتا تھا کہ جب تک بیوہ زندہ ہے یہ ہم سب کے لیے بدبختی کا سبب بنتی ہے۔ یہی وہ وجوہات تھیں کہ عورت کو بیوہ ہوتے ہی ستی کر دیا جاتا تھا جب اس کے شوہر کی چتا جلتی تھی تو اس بے چاری عورت کو پکڑ کر زندہ جلا دیاجاتا تھا۔
ہندو دھرم ، مذہب سے زیادہ سماج ہے۔ برصغیر کے زیادہ تر مسلمان ہندو سے مسلمان ہوئے۔ ہندو سماج میں عورت کی اہمیت نہیں۔ وہ ماں ہوتب بھی اہمیت نہیں۔ ماں وہی قابل احترام ہے جو دیوی ہو۔ درگاہ دیوی بھی درگاماتا ہے ۔ کالی دیوی بھی کالی ماتا ہے اور پاربتی دیوی بھی شیراں والی ماتا ہے۔ جو دیوی ہے وہ ماتا ہے باقی ماتائیں چونکہ دیوی نہیں، حالات اچھے ہوں تو ان کے پاؤں چھو کر ایک واجبی احترام دیا جاتا ہے، معاملہ جائیداد کی تقسیم کا ہو تو جس کے پاؤں چھوئے جاتے تھے، اس کی بلی دینے میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ ستی کیے جانے کی رسم کو تو انگریز نے ختم کر دیا۔ جب ماتا کے بیوہ ہونے پر خود پاؤں چھونے والے چتا پر لٹا کر زندہ جلادیا کرتے تھے۔ اب بیواؤں کو ستی نہیں کیا جاتا۔ہندؤ اب بھی کہتے ہیں کہ انگریز نے یہ رسم مٹا کر بڑا ظلم کیا۔ ستی ہونے والی بیوہ آڈھ گھنٹے کی اذیت اٹھا کر مکت ہو جاتی تھی ۔ اب جو کچھ ہندوستان میں بیواؤں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ اذیت اس کے مقابلے میں نعمت تھی بھارت میں پانچ کروڑ بیوائیں ہیں۔ وہاں عورت بیوہ ہوتی ہے تو اس کا معاشرہ بائیکاٹ کر دیتا ہے برداری والے منہ موڑ لیتے ہیں گھروالے بات تک نہیں کرتے۔ بیوہ عورت کو آشرم میں لے جاکر بیٹھا دیا جاتا ہے۔اسے آرائش کی ہر شے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ دو وقت دودھ مٹھی پھیکے چاول۔ یہ کل غذا ہے۔ پھل ، پھلاری، مٹھائی، پکوڑے ہر قسم کی کھانے والی چیزان کے لیے منع ہے دو مٹھی چاول جب بٹتے ہیں تو بیاؤں کی لمبی قطار لگ جاتی ہے، بھوک سے سلگتے پیٹ اور قطعی ناکافی، دو مٹھی چاول کا انتظار۔ گلی کے بھوکے کتوں کو راشن بانٹو تو ان پر ایسی وحشت طاری نہیں ہوتی جیسی ان بیواؤں پر ہوتی ہے۔ کبھی موقع ملے تو دلیپ مہتہ اور دیپامہتہ کی ڈاکومنڈی ’’دی فارگوئن وومن‘‘ دیکھیے۔ تب اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی کہ ہندوؤں کے ہاں بیوہ کے ساتھ کس قدر بدتر سلوک روارکھا جاتا ہے۔بیواؤں کو ان کے خاندان گھر میں رکھنے کے رو ادار نہیں ہوتے، انہیں باہر نکال دیتے ہیں، سرکار کے کارندے چاہیں تو انہیں اٹھا کر آشرم میں لے جائیں نہیں تو وہیں گلیوں میں بھیک مانگ کر بیماریوں اور زخموں سے چور، خون تھوک تھوک کر مر جاتی ہیں اور ہندوسماج کی رسم ہے کہ بیوہ کا انتم سنسکار نہیں کیا جاتا۔ کمیٹی والے اٹھالے جائیں بھلے اُسے کتے کھا جائیں۔
عورت کے ساتھ ہندو مذہب میں ہر روپ میں ہی ظلم روا رکھا گیا ہے۔ جبکہ اسلام نے اسے ہر روپ میں عزت احترام دیا اس کو حقوق دیئے برابری کی بنیاد پر انسانیت کا فخر بنایا ایسے ہی بیوہ عورت کو حقوق دیئے وراثت میں اس کا حق رکھا وہ ماں بن کر فخر سے باقی زندگی گزارتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عورتوں کے متعلق اسلام کے احکام چھوڑ کر بندوؤں کے قوانین کو بہتر سمجھا جا رہا ہے۔ اسلام کیا کہتا ہے مسلمان عورتیں اس پر دھیان نہیں دیتی انہیں یہ یاد رہتا ہے کہ انڈیا کے فلاں ڈرامے میں بیوہ کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا تھا اس کا سب نے بائیکاٹ کیاتھا اسے منحوس سمجھا تھا اس لیے ہم نے بھی ویسا ہی کرنا اور ایسا ہی ہوتا ہے۔’’ پچھلے دنوں بانوناگواری نے ایسا ہی ایک واقعہ لکھا کہ مجھے شادی کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا ۔ اسٹیج پر مہندی کی کوئی رسم چل رہی تھی کہ دلہن کی مام کو کسی نے مخاطب کیا، ’’آپا ! نرمین کہاں ہے؟ نظر نہیں آرہی، بلوائیں اسے وہ بھی آکر رسم کر لے۔‘‘انہوں نے جواباً کہا ، ’’ارے نہیں بھئی! رہنے دو، اسے نہ ہی بلاؤ تو اچھا ہے ، میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی کی خوشیوں پر اس کی پرچھائی بھی پڑے۔‘‘ دلہن کی ماں کی بات سن کر میں نے نرمین کے بارے میں جاننا چاہا تو پتا چلا کہ محترمہ دلہن کی سگی پھوپھو ہیں مگر انہیں بھتیجی کی خوشیوں میں اس لیے شریک نہیں کیا جا رہا ہے کیوں کہ وہ خاتون بیوہ ہیں۔ میں حیران پریشان کھڑی سوچتی ہی رہ گئی کہ کیا بیوگی اتنا بڑا جرم ہے کہ انہیں اپنوں کی خوشیوں سے بھی دور کر دیا جائے؟‘‘
یہ تو قدرت کا قانون ہے کہ انسان جتنی عمرلے کر آتا ہے ، اتنی گزار کر اپنے وقت پر دنیا سے چلا جاتا ہے ، تو کیا اگر کوئی شخص مرجائے تو اس کی بیوہ کا جینا ہی دشوار ہو جائے؟ ایک تکلیف دہ زندگی اس کا مقدر بن جائے؟
آپ نے بھی اکثر ایسی بیوائیں دیکھی ہوں گی جو اگر ذرا بناؤ سنگھار کر لیں، کبھی اچھے کپڑے پہن لیں تو طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں، طنزیہ جملے کسے جاتے ہیں، ان کے کردار پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ شوہر کے مرنے پر انتہائی بے دردی سے ان کی چوڑیاں توڑ دی جاتی ہیں یہ جانے بغیر کہ وہ خود کس کرب میں ہو گی اس کے مسکرانے پر پابندی، ہنسنے بولنے پر پابندی، انہیں خوشیوں میں شامل کرنے پرپابندی، ان کو منحوس خیال کرنا کہ کہیں ان کی نحوست ان کی بچیوں کی خوشیاں نہ چھین لے۔ کبھی دین اسلام کا مطالعہ کیجیے۔ اسلام بیوہ سے نفرت کا درس نہیں دیتا۔ پھر ہم کیوں کسی بیوہ کے لیے ایسے جاہلانہ رواج اپنائیں؟

Show More

Related Articles

Back to top button