Gujar Khan; The people of village Jatli set an example by laying lanterns on the dilapidated roofs of six rooms of the Girls High School Jatli with money from their own pockets
گاؤں جاتلی کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت15 لاکھ روپے سے زاہد فنڈز سے تاریخی منصوبہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جاتلی کے چھ کمروں کی مخدوش ہونے والی چھتوں پر لنٹر ڈال کرتحصیل گوجرخان میں ایک مثال قائم کر دی
گوجرخان ,جاتلی (نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کام )— گاؤں جاتلی کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت15 لاکھ روپے سے زاہد فنڈز سے تاریخی منصوبہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جاتلی کے چھ کمروں کی مخدوش ہونے والی چھتوں پر لنٹر ڈال کرتحصیل گوجرخان میں ایک مثال قائم کر دی سکول انتظامیہ نے نہ صرف گاؤں بلکے دیگر دیہات کے مخیر حضرات اور سیاسی و سماجی شخصیات کے لوگوں کا بھی شکریہ ادا کیا تفصیلات کے مطابق ہمیشہ کی طرح گاؤں جاتلی کے لوگوں نے جس بھی کسی فلاحی کام میں مدد کے لیے پُکارا گیا تو انہوں نے اُس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا جس کی جیتی جاگتی مثال پچھلے کئی سالوں سے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول جاتلی کاچھ کمروں پر مشتمل مڈل حصہ جس کی تعمیر بھی گاؤں کے لوگوں نے ہی اپنی مدد آپ کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچایاتھااس حصے کو تعمیر ہوئے تقریبا60سال سے زاہد کا عرصہ گزر چکا تھا اورتقریباتین سال قبل اس حصے کے کمروں کی چھتوں کی حالت انتہائی نازک ہو چکی تھی اور سکول کی ہیڈ مسڑیس نے اس نازک صورت حال کو بروقت بھانپ لیا اور محکمہ کو تحریری طور پر آگاہ کیا جس پر محکمہ نے بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم نے سکول کے کمروں کا وزٹ کیا انہوں نے ان میں سے تین کمروں کو انتہائی خطرناک قرار دے دیا لیکن عرصہ دو سال تک کوئی عمل درآمد نہ ہو سکا جب ان کمروں کی صورت حال مذید خراب ہوئی تو سکول انتظامیہ نے گاؤں کے معززین کو آگاہ کیا جس پر گاؤں کے لوگ حرکت میں آئے اور چند ماہ میں اتنا بڑا15لاکھ روپے سے زاہد تاریخی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیااور تحصیل بھر میں ایک مثال قائم کر دی سکول انتظامیہ نے گاؤں کے لوگوں کے علاوہ دیگر دیہات کے مخیر حضرات سیاسیی و سماجی شخصیات کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیا
Gujar Khan; The people of village Jatli set an example in Tehsil Gujjar Khan by installing lanterns on the dilapidated roofs of six rooms of the historic Government Girls High School Jatli with funds of Rs. 1.5 million.
خطہ ء پوٹھوہار ہر دور میں اہل اللہ اور صوفیہ کرام کا مرکز رہا ,قادریہ آستانہ عالیہ رتالہ شریف
Aastana Alia Rattala Shareef
by Mohammad Najeeb Jarral
گوجرخان (نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کام ,تحریر محمد نجیب جرال)—خطہ ء پوٹھوہار ہر دور میں اہل اللہ اور صوفیہ کرام کا مرکز رہا ہے ان بزرگوں نے ہر دور میں مخلوق کی رہبری کے لئے کوششیں کیں خانقاہیں اور زاویے قائم کئے خطہ ء پوٹھوہار کے دل گوجر خان کی تحصیل میں رتالہ ایک قدیم گاؤں ہے اس گاؤں کے نزدیک ایک روحانی شخصیت سید عطا حسین شاہ المعروف بابا مرچو مجذوب ؒ کا ڈیرہ تھا ان بزرگ کے ایک خادم خاص اور خلیفہ غلام حسن صاحب تھے ایک دن سائیں مرچو سرکار نے کسی خاص کیفیت کے تحت خلیفہ غلام حسن سے فرمایا: کہ جاؤ!اور صوبیدار معز اللہ خان کو بلا لاؤ خلیفہ غلام حسن نے سائیں صاحب کا پیغام صوبیدار صاحب کو دیا اور صوبیدار صاحب خلیفہ غلام حسن کے ساتھ ہی سائیں مرچو سرکار کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چل پڑے۔
یہاں یہ بتاتا چلوں کہ صوبیدار معز اللہ خان صاحب کے جد امجد اپنے چار بھائیوں کے ساتھ اٹھارویں صدی کے آخری عشرے میں ریاست جمو ں و کشمیر کے ضلع راجوری سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوئے تھے یہاں اس وقت جنگل ہی جنگل تھا انہوں نے اس جنگل کو آبادی میں تبدیل کر دیا معز اللہ خان صاحب کے چار بیٹے تھے اور اس وقت تک کسی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔
خیر جب صوبیدار معز اللہ خان سائیں سید عطا حسین کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے فوری طور پر خلیفہ غلام حسن کو انہیں قہوہ پیش کرنے کا فرمایا۔ خلیفہ جب قہوہ بنا کر لایا تو سائیں سرکار نے اس میں خوب نمک اور مرچ بھی ڈال دیا اور معز اللہ خان کو قہوہ پینے کا حکم دیا۔خان صاحب نے بلا جھجک وہ قہوہ پی لیا اس پر سائیں مرچو سرکار نے ان کے بیٹوں کو صاحب اولاد ہونے کی دعا دی اللہ تعالیٰ کی عطا اور سائیں سرکار کی دعا کے سبب صوبیدار معز اللہ خان کے تیسرے بیٹے کرم داد خان کے گھر بیٹے کی ولادت ہوئی محمد افسر23مارچ 1938میں پیدا ہوئے دو دن بعد 25مارچ کو ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا اور وہ ماں کی آغوش محبت سے محروم ہو گئے۔
وہ اپنے داد ا کے بہت لاڈلے تھے محمد افسر سات سال کی عمر کے تھے پہلی بار جب وہ اپنے دادا جی کے ساتھ مجذوب سائیں سید عطا حسن سرکار کے ڈیرے پر گئے تو سائیں سرکار نے خصوصی شفقت فرمائی اور انہیں تھپکی دی تو اسی دن سے ہی محمد آفسر جو بعد میں حضرت پیر محمد آفسر نقشبندی القادری کے نام سے معروف ہوئے کم عمر میں ہی شب بیدار تہجد گزار اور پرہیز گار ہو گئے اللہ تعالیٰ جن سے کوئی اہم کام لیتا ہے ان کا کردار بچپن سے ہی اُجلا اور شفاف بنا دیتا ہے۔
صوبیدار معز اللہ خان صاحب کے چار بیٹے تھے حکم داد خان جہانداد خان، کرم داد خان اور صوبیدار امیر افسر خان، اور پھر حاجی کرم داد خان صاحب کے ہاں بھی چار بیٹوں کی ولادت ہوئی محمد آفسر،مرزا محمد گلفراز خان، حاجی محمد افضل خان اور حاجی محمد صفدر خان۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سب صوم و صلوۃ کے پابند ہیں۔
پیر محمد افسر صاحب جب جوان ہوئے تو پاک آرمی جوائن کر لی اس دوران1965اور 1971کی جنگوں میں بھی حصہ لیا۔پھر کچھ عرصہ بعد والد صاحب کے حکم پر فوج کو خیر باد کہہ دیا(فوج کے طریقہ کار کے مطابق ڈسچارج لے لیا)کیونکہ والد صاحب انہیں برطانیہ بھیجنا چاہتے تھے اس مقصد کے لئے آپ پانچ ہزار روپے لے کر گھر سے براستہ لاہور کراچی کے لئے روانہ ہو گئے اور وہاں سے آگے برطانیہ جانے کا انتظام بھی ہو چکا تھا لیکن جب لاہور میں حضر ت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ کے دربار پر رات جاگتے ہوئے گزاری تو اگلے دن ان کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد جب وہ باہر نکل رہے تھے تو ایک روحانی شخصیت نمودار ہوئی اور ان سے کہا کہ فی الحال تمہیں برطانیہ جانے کی اجازت نہیں ہے یہ سنتے ہی پیر محمد آفسر صاحب نے برطانیہ جانے کا ارادہ ترک کر دیا دراصل یہ ایک روحانی سسٹم کے تحت ان تک یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے کسی عظیم مقصد کے لئے چنا ہے۔ چونکہ انہیں روحانیت سے شروع سے ہی لگاؤ تھا سو آپ کوہاٹ چلے گئے اور دربار عالیہ نقشبندیہ گھمکول شریف سے منسلک ہو گئے۔
گھمکول شریف میں قیام کے دس سال بعد مرزا سرور صاحب نے انہیں ایک بار پھر برطانیہ بھیجنا چاہا لیکن پیر محمد آفسر صاحب نے منع کر دیا اور کچھ عرصہ بعد آپ کو دربار عالیہ موہڑہ شریف جانے کا اشارہ ملا۔ جب آپ وہاں پہنچے تو دربار شریف کے داخلی دروازے پر ہی ایک بزرگ ملے اور فرمایا بیٹا ہمیں تمہارا انتظار تھا۔ پھر پہلی حاضری کے موقع پر پہلے دن ہی حضرت پیر محمد آفسر صاحب کو خرقہ خلافت نصیت ہوا۔ خرقہ خلافت تصوف کی ایک اصطلاح ہے جس میں کسی مرید کو اپنی خلافت یا جانشینی عطا کی جاتی ہے اسے خرقہ درویشی بھی کہا جاتا ہے اور یوں آپ نقشبندی سلسلہ میں سرفراز ہوئے اس دوران ہی آپ نے رتالہ شریف میں اپنا آستانہ ایسی جگہ قائم کیا جوآسیب زدہ مشہور تھی اور لوگ وہاں سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے آبادی سے دور ویران جگہ پر الحاج پیر محمد آفسر صاحب کئی سال عبادت و ریاضت میں مصروف رہے اور اس مقام کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روحانی مرکز بنا دیا پیر صاحب کی چلہ گاہ ایک مٹی کی غار آج بھی آستانہ عالیہ رتالہ شریف میں موجود ہے۔
آستانے کے ساتھ مسجد،دینی مدرسہ اور سکول بھی قائم ہے، مسجد میں باجماعت نماز، تلاوت قرآن مجید اور مجالس ذکر کا اہتمام ہوتا ہے۔اس مقام پر شروع سے لے کر آج دن تک ہزاروں متلاشیان علم و حقیقت راہ حق پر گامزن ہوئے اور ان کی زندگیاں بدل گئیں اور یہ سلسلہ تقریبا نصف صدی سے جاری ہے۔
دور و نزدیک سے آنے والے مہمانوں کے لئے لنگر شریف کا احسن انتظام ہوتا ہے۔
حضرت پیر صاحب مد ظلہ کو 21مرتبہ زیارت حرمین شریفین کی زیار ت کی سعادت نصیب ہوئی۔ اپنی چلہ گاہ میں آپ زیادہ تر وقت مٹی کی غار میں نیچے بیٹھ ذکر کرتے ہیں اور نماز کے وقت مسجد میں آپ اول کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ افضل ذکر اس قدر پڑھتے ہیں کہ کئی لوگ آپ کو کلمے والے پیر کے نام سے مخاطب کرتے ہیں۔
پیر صاحب کو القادری کا لقب دربار بغداد شریف سے عطا ہوا۔ سلطان الاولیاء محبوب سبحانی پیر پیراں حضرت سیدنا الشیخ عبدالقادر جیلانی الحسینی قدس سرہ العزیز بغداد شریف کے موجودہ سجادہ نشین نے پیر محمد آفسر القادری رتالہ شریف کو سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت فرمایا اور سلطان الاولیاء کی نسبت سے آپ کو خاص بشارت دی اور ان کے لئے دعا فرمائی۔
پیر عبیداللہ القادری
پیر محمد آفسر القادری صاحب نے اپنے صاحبزادے عبید اللہ القادری کو ان کے اخلاص اور سلسلے کی تعلیمات اور معمولات کے ساتھ کامل وابستگی نیز مریدین کے اصرار پر اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ صاحبزادہ پیر عبید اللہ القادری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار کے مدرسے جامعہ قادریہ سے حاصل کی مزید دینی تعلیم کے لئے ظہور الاسلام گوجر خان میں جناب پروفیسر اعجاز احمد صاحب کے پاس چلے گئے دیگر دینی علوم کی تحصیل حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری بھیروی ؒ کی جامعہ بھیرہ شریف سے کی۔ علوم دینی میں مزید مہارت کے لئے ان کے والد بزرگوار نے مدرسہ قادریہ آستانہ عالیہ رتالہ شریف میں خصوصی طور پر انتظام کیا اور اعلی پائے کے اساتذہ کرام مقرر فرمائے۔ دینی علم کی تحصیل کے علاوہ انہوں نے پاکستان میں انٹر میڈیٹ تک پڑھا اور کالج کی تعلیم مکمل کی پھر اعلی تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے اور وہاں مینجمنٹ کے شعبے میں تعلیم اور پریکٹیکل ٹریننگ حاصل کی اس کے علاوہ کالج میں انگلش زبان کی مزید تعلیم بھی تین سال تک حاصل کی تا کہ غیر مسلموں تک انہی کی زبان میں دین اسلام کا پیغام پہنچایا جائے دنیا کی کئی یونیورسٹیوں کا تعلیمی دورہ کیا اور وہاں مختلف موضوعات پر نامور علمی شخصیات کے لیکچر ز سنے اور ان کی کتب کا مطالعہ کیا صاحبزادہ پیر عبید اللہ القادری کی تحریر میں انتہائی پختگی پائی جاتی ہے صاحبزادہ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ذوق سخن سے بھی نوازا ہے اور ان کا ایک شعری مجموعہ قندیل کے نام سے اپریل 2005میں شائع ہو چکا ہے شاعری میں تخلص علیم ہے یعنی انکا ا دبی اور قلمی نام علیم ہے۔
اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہیں بھی ذکر و دعا اور تلاوت قرآن مجید سے بے حد محبت ہے اور کئی بار ماہ مقدس رمضان المبارک کا پورا مہینہ انہوں نے مسجد میں اعتکاف کیا تا کہ نزول قرآن مجید کے مہینے میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کا اہتمام ہو سن 2005یعنی اپنی اوائل جو انی میں ہی انہیں حج کرنے کی توفیق بھی ملی اور انہوں نے اب تک تین بار حج و عمرے کی سعادت حاصل کی۔ دعوت و تبلیغ کے جذبے سے سرشار وہ اپنے مریدین اور وابستگان کی دعوت پہ اب تک ترکی،قبرص، مصر، سعودی عرب، دبئی،سویٹزرلینڈ،فرانس،سپین، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور بیلجیم کے دورے کر چکے ہیں ان روحانی اور دعوتی اسفار میں اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابیوں سے نوازا اور سینکڑوں گم کردہ راہ ان کی تبلیغی مساعی کے سبب صراط مستقیم پر گامزن ہوئے اور غیر مسلموں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ صاحبزادہ صاحب جہاں تعلیمی و دعوتی خدمات میں دن رات سرگرم عمل رہتے ہیں وہی سماجی خدمات میں کبھی پیچھے نہیں رہے ان کی سماجی خدمات جو محض رضائے الہی کے حصول کے لئے ہوتی ہیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان تمام مصروفیات کے باوجود کاغذ اور قلم سے بھی اپنا رشتہ قائم رکھے ہوئے انہوں نے درس ِ قرآن مجید کی پانچ جلدوں کی تدوین کا کام بھی پایہ تکمیل تک پہنچایا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ اس علمی،روحانی اور سماجی آسانیوں کے مرکز اور اس کے سرپرستوں کو تادیر ان خدمات کو سر انجام دینے کی توفیقات سے نوازے رکھے۔ اور ان کے معاونین کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔