Rawalpindi; PTI becoming obstacle to Chak Bale Khan becoming Tehsil
چک بیلی خان کو تحصیل کا درجہ دینے کا سیاسی وعدہ پورا ہونے کے وقت پی ٹی آئی کے اپنے ہی رکاوٹ بننا شروع ہو گئے
چک بیلی خان سے مسعود جیلانی
چک بیلی خان راولپنڈی سے دور وہ شہر ہے جو عرصہ دراز سے علاقہ کے مرکز کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے یہ یقیناً اس علاقے کا وہ واحد مقام ہے جہاں گلگت، پشاور، فیصل آباد اور ملتان سمیت ملک کے کونے کونے سے آ کر لوگ زرق کما رہے ہیں کچھ تو نسلوں سے آباد بھی ہو چکے ہیں 1988ء میں اس کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ میاں نواز شریف نے یہاں دورہ کے موقع پر اسے تحصیل کا درجہ دینا چاہا لیکن اس وقت کے ایم این اے جناب چوہدری نثار علی خان نے صرف سب تحصیل پر اکتفا کرنے کو کہا اس کے بعد آج تک لوگ جناب چوہدری نثار علی خان صاحب سے اس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں کہ وہ اسے مکمل تحصیل کا درجہ نہیں دیتے حالیہ الیکشن میں جناب غلام سرور خان نے بھرے جلسوں میں چک بیلی خان کو تحصیل کا درجہ کا وعدہ کیا ان کے ساتھی بھی ہر محفل میں چیخ چیخ کر تحصیل بنانے کے دعوے کرتے رہے کچھ عرصہ قبل جناب غلام سرور خان نے ضلع راولپنڈی کے ڈی سی آفس میں ایک میٹنگ کی تھی جس کی پریس ریلز بھی جاری کی گئی جسے نہ صرف مقامی بلکہ قومی اخبارات نے بھی شائع کیا بلکہ مقامی اخبارات نے تو اسے جلی سرخیوں میں شائع کیا اب جب جلد اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے زور شروع ہوا تو اچانک اسی پارٹی کے لوگوں نے چک بیلی خان کے متبادل مقامات کے نام بھی لینا شروع کر دئیے جس سے یہ اندازہ کیا جا رہا ہے کہ یہ محض وعدے سے منحرف ہونے کی راہ کے سوا کچھ بھی نہیں حالانکہ جس وقت چک بیلی خان کو سب تحصیل کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا اس وقت بھی یہ مقامات اپنی جگہوں پر موجود تھے دوسرا یہ علاقے نسبتاً راولپنڈی کے قریب ہیں وہاں تحصیل ہیڈ کوارٹر بنانا چک بیلی خان کے علاقہ یونین کونسل دھندہ، رائیکا میرا اور مہوٹہ موہڑہ وغیر کو راولپنڈی برابر فاصلے پر دھکیل دینے کے مترادف ہے دوسر ی جانب دھمیال گاؤں جیسے اور راولپنڈی سے جڑے ہوئے علاقے کو ٹاؤن بنایا جا رہا ہے اس صورتحال میں تو یہ بات نظر آرہی ہے کہ سیاسی شخصیات کے آبائی گاؤں ہی ترجیحات میں شامل ہو رہے ہیں جبکہ عوامی ضروریات کو پورا کرنے اور قدرتی طور پر شہر کی صورت میں ابھرنے والے علاقے بالکل نظر انداز ہو رہے ہیں چک بیلی خان اور اس سے منسلک علاقہ جسے مقامی زبان میں میرا کا علاقہ کہا جاتا ہے قدیم زمانے سے محرومی کا شکار ہے یہاں کے باسیوں کو ہر دور میں محروم رکھنے کا شکوہ ملحقہ علاقے سواں سے تعلق رکھنے والی لیڈر شپ سے رہا ہے اور انگریز دور سے آج تک جہاں تک نگاہ دوڑائی جائے تو سواں کی حاکمیت اور میرا کے علاقے کی محکومیت ہی نظر آئے گی اس وقت چک بیلی خان بغیر کسی حکومتی لقب کے اس علاقے کا سب سے بڑا معاشی مرکز ہے اگر تحصیل کا لفظ چک بیلی خان سے ہٹ کر کسی اور علاقے کو منتقل کر دیا جاتا ہے تو یہ اس شہر کی ترقی پر چلنے والی سب سے بڑی تلوار ہوگی یہاں میں ارباب اختیار اور دیگر ناموں کو سامنے لانے والوں کے ذہن میں ایک بات ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں کہ چک بیلی خان کے سوا کسی اور مقام کو یہ نام دینا چک بیلی خان کی ترقی کو تو متاثر کر سکتا ہے البتہ اس نام کاحصول کسی اور علاقہ کی ترقی کا باعث نہیں بن سکتا بلکہ اس سے تحصیل کے نام کے حصول کا مقصد بھی ختم ہو کر رہ جائے گا یہاں چونترہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں تھانہ بنایا گیا سواں اور میرا دونوں علاقوں کے لوگ جب جیل اور کچہری جاتے تو یہ تھانہ ہی ان کا تعارف ہوتا ہے لیکن اتنا قدیم تھانہ ہوتے ہوئے بھی آج بھی اگر چونترہ میں فوٹو سٹیٹ کاپی کی ضرورت پڑ جائے تو وہ دکان بھی بمشکل ہی ملتی ہے اسی نام کی وجہ سے وہاں رورل ہیلتھ سنٹر بنایا گیا ویرانی کی وجہ سے وہاں ڈاکٹر بھی رکنا پسند نہیں کرتے ہمیں میڈیکل روپورٹ کے لئے ڈاکٹروں کے گھروں میں راولپنڈی جانا پڑتا ہے ہسپتال کے ساتھ کوئی میڈیکل سٹور کی دکانچی سی بھی نظر نہیں آتی اطراف میں قبرستان ہے جہاں قبریں ہی قبریں ہیں جب بھی کسی بڑے نام کے لئے ایسے علاقے کا انتخاب ہو گا تو یہی کچھ نظر آئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ چک بیلی خان جیسے اس شہر جس میں ایک ایک پراڈکٹ کی سوسو دکانیں پہلے سے موجود ہیں تمام طرح کے بینک ہیں جس شہر کے بارے میں قول مشہور ہے کہ اس میں اگر کتا بھی بھوکا آ جائے تو وہ بھی واپس گھر کو نہیں جاتا اسے تحصیل بننے دیا جائے اس میں اس ایک شہر کا نہیں پورے علاقہ کا فائدہ ہے