عجیب اتفا ق ہے کہ مجھے آج اپنے ہی پروفیشن کے خلاف قلم اٹھانا پڑا آج کل لاہور بار میں دفتروں کی بندر بانٹ پر خوب لے دے ہورہی ہے ہوا پھر وہی ہے جو ہمارے ہاں ہوتا چلا آرہا ہے۔ کچھ لوگوں کو نواز نے کیلئے سارے کا سارا معاملہ بگاڑ ڈالا میرے خیال ناقص کے مطابق توبڑا آسان تھا کہ بار کے چند معزز اور غیر متنازعہ سینئرز کو ایک بڑے او رکھلے اسٹیج پر بیٹھایا جاتا اور تمام درخواستیں ڈبے میں ڈال کے ایک ایک کرکے نکالتے جاتے جس تقریب میں تمام ممبران بار کو مدعو کیا جاتا سب کے سامنے تمام پرچیاں پڑھی جاتی اور پھر جن کے حصے میں آفس آتا وہ شکر کرتے اور جن ممبران بار کو نہ ملتا وہ صبر ، جس سے بار کے عہدہ داران کا نام بھی روشن ہوتا اور بار کی نیک نامی میں بھی چار چاند لگتے ۔ مگر ہوا اس کے برعکس جس کا نتیجہ کیا ہوگا اللہ ہی بہتر جانے مگر ایک ری ایکشن تو سب کے سامنے ہے کہ نئی خوبصورت بلڈنگ کا حلیہ بگاڑ کے پھر قبضے اور جھگڑے وکلاء کے حصے میں آئے ۔ اسی معاملے کودیکھتے ہوئے میر ا ذہن ماضی کے جھروکوں سے تاکنے لگا کہ جس وقت سیشن عدالتیں نئی بنی تھیں وہاں پر بھی اسی طرح سے کیا گیا تھا پھر ضلع کچہری اور ایوان عدل کو بد نما بنانے میں بھی ہم سب نے ملکر حصہ ڈالا تھا جس پر شاید ہم نازاں بھی ہیں ۔ میرا المیہ یہ ہے کہ میں نے دنیا کے چند ملکوں کا سفر کیا ہے جہاں ترقی زیادہ ہے ہم سے پر ٹیلنٹ نہیں تو میرے حیرت زدہ ہونے کو آپ بھی حق بجانب گردانیں گے ہم کیوں اپنی اصلاح نہیں کرسکتے مجھے اس سلسلے میں ایک خیال گزرا کہ کتنا اچھا ہو کہ ہم تمام عدالتوں کے ساتھ بڑے بڑے بار رومز بنا دیں اور وہاں پر بغیر نام کے تمام بار ممبران بیٹھ سکیں اور وہاں کا فرنیچر اور کھانا پینا بھی معیار کے مطابق ہو۔
ایک ہال ایک کینٹین کے سلسلے کو ختم کرکے جدید طرز پر استوار کیا جائے اور اچھے او رمعیاری ریسٹورنٹس کی برانچز کھولی جائیں جس سے ایک طرف تو وکلاء بھی اچھی غذا اور ماحول کو انجوائے کرسکیں اور خوبصورت زندگی کی مثال پیش کرسکیں جوکہ ہمارا پرانا طریقہ ہے ٹیبل کرسیوں اور سٹنگز کی لڑائی اور آنکھوں کو بُرا لگنے والا نظارہ اس سے بھی چھٹکارا ممکن ہو جب تمام ممبران کے ساتھ یکساں سلوک ہو تو میرا نہیں خیال کہ کسی بھی ممبر بار کو بُرا لگے یا ناقابل قبول ہو۔
عدالتوں کے احاطے خوبصورت اور ویل منٹین ہوں تو آنے والے لوگوں کو کم ازکم یہ احساس تو ہوکہ یہ انصاف کے لئے بنائی گئی جگہ ہے۔ کم ازکم ایک ہال سائیلن کیلئے بھی ہو جہاں بیٹھ کر وہ انتظار کے لمحات سے محفوظ ہوسکیں۔
اب رہا سب سے اہم سوال کہ ان سب کیلئے پیسے کہاں سے آئیں گے تو میرا ماننا یہ ہے کہ صرف اچھی نیت اور لگن کی ضرورت ہے ۔ہال تو وہ ملٹی نیشنل اور نیشنل فوڈ والی کمپنیاں بھی تعمیر کردیں گی جن کو وہاں برانچز کھولنے کی اجازت دی جائیگی مگر ان کو ایک ہی یقین دلانا ضروری ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی زیادتی نہ ہو گی اور یہ بھی اوپن آکشن کے تحت الاٹ کئے جائیں گے۔
پھر آپ کی تمام چھوٹی بڑی عدالتیں صاف ستھری اور خوبصورت نظر آئیں گئیں جس سے ججوں اور وکلاء کو سراہنے کے علاوہ عوام بُرا کہنے کی کوئی صورت نہ نکال پائے گی اور فائدہ سب کو ہوگا کیا وکیل کیا جج اور کیا عوام ہم سب کو ہوش کے ناخن لینے ہونگے تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو اچھا ماحول دے سکیں وہ ہمارے بارے اچھے خیالات رکھ سکیں نہ کہ کوسنے ہمارے حصے میں آئیں اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ذرا سی کاوش یقیناًثواب کا باعث بھی بنے گی۔ جبکہ ایک تو عدالتوں کو دیکھنے سے بھی برا تاثر ملتا ہے صفائی ستھرائی ٹوٹ پھوٹ پھٹا پرانا فرنیچر زنجیروں سے باندھی ہوئی کرسیاں میزیں اس معززپیشے سے وابستہ لوگوں کے اس طرح کے ماحول میں بیٹھنا اور اسطرح سے گندے کھانے زیب دیتے ہیں۔ ہرگز نہیں پر ہم سب لوگوں کی عادت میں شامل ہوچکا ہے ہم کو معاشرے میں قانون نفاست اورتنظیم کی مثال بننا ہوگا ۔
مزید برآں ایسی بات جو کہتے ہو ئے بھی شرم سے سر جھکتا ہے کہ شام کے اوقات میں احاطہ عدالتوں میں نشہ آور اشیاء کی فروخت اورقبیح قسم کی حرکات بھی انہیں مقامات کے ساتھ منسوب ہیں ہم الزام لگانے پر نہیں جاتے بس اتنا ہو کہ اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی اصلاح اور فلاح کیلئے خود کوذراسا بدل دیں تو آنے والی نسلیں ہمارا نام خوشدلی سے لے سکیں گی اور ہم بھی شاید خود کو سرخرو سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے ۔
خود کو بد ل کے دنیا کو بدل ڈالیں قدرت ضرور مدد کرئیگی
مختلف معاشروں میں سرڈھانپنے کا رواج یوں تو صدیوں سے رائج ہے جوکہ اُ ن کے موسم اور رسم ورواج سے مطابقت کے لئے اپنا یا گیا تھا اور جاری بھی ہے ۔مگر میں آپ کی توجہ آج جس طرف مبذول کروانا چا رہا ہوں وہ ارباب اختیارکا موٹرسائیکل سواروں کی حفاظت کے لئے کیا گیا ایک قابل ستائش عمل ہے ،میری مراد ہیلمٹ کے استعمال سے ہے بہت اچھا کام کیا گیا ہے جس کی دل کھول کر ہمیں بھی داد دینی چاہیے اور شاید تمام ذی شعور لوگ اسے احسن قدم کا نام بھی دیں گے صاحبان اقتدار ہوں یا حزب اختلاف کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ، اس عمل حسنہ پر کسی کا کوئی احتلافی نوٹ نظر سے نہیں گزرا۔
ایک بات جومیری سمجھ میں نہیں آئی کہ موٹرسائیکل چلانے والا تو انسانی سر کا مالک ہے لہٰذا اس کی حفاظت لازم ٹھہری مگر پیچھے بیٹھنے والا ہمر کاب شاید دھاتی سر لیکر سوار ہوتا ہے سو اسے ہیلمٹ سے سر کی حفاظت کی چنداں ضرورت نہیں یا وہ گھر سے خود کشی کے ارادہ سے نکلتا ہے یاوہ فالتو شخص ہوتا /ہوتی ہے جس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں اس قانون کو نافذ کرتے ہوئے بھی ہم نے روایتی ناانصافی سے جان چھڑانا مناسب نہیں سمجھا جبکہ پوری دنیا میں دونوں سواریوں کو ہیلمٹ استعمال کرنا لازم ہوتا ہے اس کے پیچھے ایک منطق یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عموماً خواتین پیچھے بیٹھتی ہیں تو ان کا سر ٹوٹے یا پیر کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ دور جہالت میں تو خواتین کے حقوق نہیں ہوا کرتے تھے ۔ قانون نافذ کر نے والے اداروں کے ساتھ ساتھ یہ ہم سب کی بھی اخلاقی و معاشرتی ذمہ داری ہے جس کا ہمیں بھی من حیث القوم ادراک ہونا چاہیے۔
کام صرف ہیلمٹ سے نہیں چلے گا، ہمیں اب ٹریفک کو رواں دواں رکھنے اور حادثات سے بچاؤ کے اقدامات بھی اٹھانے چاہئیں ۔ اگر ہمیں ایک خوبصورت معاشرہ تشکیل دینا ہے تو ذرائع آمدروفت کے اصول وقواعد اور لوگوں کی تربیت کوبھی لازم سمجھنا ہوگا۔سب سے پہلے میں جس خرابی کی نشاندہی کرنا چاہوں گا وہ ہے لائسنس کا طریقہ کار اور بغیر لائسنس گاڑیوں کو شاہراوں پر بھگانا۔
دنیا کے کئی ممالک میں تو گاڑی آ پ کے نام پررجسٹر ہی نہیں ہوسکتی جب تک آپ کا ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو جبکہ ہمارے ہاں یہ مروجہ اصول ہے کہ جو گاڑی یا موٹرسائیکل خریدنے کی صلاحت رکھتا ہے اسے چلانے کا بھی پورا اختیار ہے جو سراسر غلط ہے اور حادثات کا باعث بنتا ہے۔جیسے ہیلمٹ کی عادت ڈالی گئی اس طرح سے لائسنس کے لئے بھی اقدام اٹھانا ہوں گے۔
گاڑیوں کی فٹنس اور رجسٹریشن وغیرہ پر کسی اوروقت بات کرینگے کیونکہ یہ بھی ایک بڑا اہم اور وضاحت طلب موضوع ہے اس وقت ہم اپنے دوسرے نقطہ کی طرف چلتے ہیں جو ٹریفک کی روانی کے لئے معاون و مدد گار ہوسکتا ہے
ٹریفک میں دوسری سنگین غلطی لائن چینجنگ اور غلط لائن کا استعمال ہے لائسنس دیتے ہوئے یہ قوانین بھی ضرور پڑھائے جائیں اور پھر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا جائے تو ٹریفک کی روانی میں بہت بہتری آسکتی ہے۔
ٍ موٹرسائیکلوں کے لئے فاسٹ ٹریک استعمال کرنا سخت منع ہونا چاہے حد سپیڈ اور ای چالان کا سلسلہ بھی اس ضمن میں ضرور مد دگارہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ تربیت بھی لازمی عنصر ہے۔
یہاں تک تو بات تھی گاڑیوں اور ڈرائیوروں کی اب ہم بات کرتے ہیں سڑکوں اور شاہراؤوں کی، سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ ٹیکسی ،رکشہ والوں کو کھلی چھٹی ہے جس جگہ چاہیں رک کر ساری ٹریفک کے لئے درد سر کی سبیل کریں، جدھر سے چاہیں سواری اٹھائیں اور اتاریں ،باقی لوگ تو گویا سڑک پرہیں ہی نہیں۔اس معاملے میں حکومت کو بھی تھوڑی سی تکلیف کرنی ہوگی وہ مختلف مقامات پر سوار یاں چڑھانے اور اتارنے کا مناسب بندوبست فرما دیں تاکہ ٹریفک کی روانی بھی متاثر نہ ہواور لوگوں کو بھی آسانی سے رکشہ ،ٹیکسی میسرر ہے، اس کے ساتھ ساتھ بسوں کے لئے سٹاپ سڑک سے کچھ ہٹ کر ہونے چاہیے ۔ یہ کوئی نسخہ کیمیا نہیں ہے بہت ساری سڑکوں پر اس جیسے اقدامات ایک حد تک ہیں بھی، بس بھر پور طریقے سے عمل کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑے ہوکر بس یہ فریضہ انجام نہ دے ایک طرف تو ان قدام سے ٹریفک متاثر نہیں ہوگی اور دوسری طرف ہمارا بطور قوم بھی مہذب معاشروں میں شمار ہونے لگے گا۔کیونکہ قوموں کی ترقی ناپنے کا ایک پیمانہ ٹریفک کا نظام بھی ہے۔
ذرائع آمدورفت کی ترقی کے لیے جو کام کیے گئے ہیں یا جو کیے جائیں گے، وہ سب اپنی جگہ اہم ہیں، جیسے میٹرو بس اور اورنج ٹرین وغیرہ پھر بھی سب سے اہم چیز پلاننگ ہی ہے ۔ ٹرینوں اور میٹرو سٹیشنوں کے قریب پارکنگ لاٹس ہوں، تو ہی ان منصوبوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکے گا ۔ فی الحال تو ایسی کوئی چیز ہماری نظر سے نہیں گزری نہ ہی دور دور تک امکان نظر آرہا ہے۔
اربا ب اقتدار کا ہمیشہ سے ہی وطیرہ ہے کہ وہ پچھلی حکومتوں کے منصوبوں کو غلط ثابت کریں اور قوم و ملک کا سرمایہ ضائع کرنے میں اپنی سیاسی مہارت کو کمال مہارت سے استعمال میں لائیں۔یہ راگ الاپنا اب ہر صورت بند ہونا چاہیے اور ملک وقوم کے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے۔
جس کی مثالیں موٹر ویز ، میٹرو بس بھی ہیں اور ایمبولینس سروس،1122 اور کئی ہسپتال بھی ہیں جو اپنے پیش رؤں کو نیچا دیکھانے کیلئے استعمال کئے جاتے رہے ہیں اور کئے جارہے ہیں۔
جبکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم ان منصوبوں کی خامیاں دور کرکے اچھے انداز سے آگے چلائیں تو ملک و ملت کا فائدہ ہوگا۔میرے نزدیک جو میٹرو بس لاہور میں چلتی ہے اس کے کرایوں کو دوبارہ سے ری شیڈول کرنا چاہئے تاکہ خسارہ پر قابو پایا جاسکے مگر ان منصوبوں کو بند کرنا یا خسارے کے ساتھ چلاتے رہنا کوئی دانشمند ی نہیں ہے ۔ خسارہ کم کرنے کے لئے اور بھی بہت سے اقدامات کئے جاسکتے ہیں جیسے اسٹیشنوں اور بسوں میں ایڈورٹائزنگ بھی کچھ حد تک معاونت کرسکتی ہے۔مگر ان جاری ومکمل منصوبہ جات کو بند کرنا کسی طور بھی مناسب نہ ہوگا ۔
اگرصاحبان اقتدار اگلوں پچھلوں کی باتیں چھوڑ کر تمام منصوبہ جات کی غیر جانبدار انہ جانچ پڑتال کرکے ماہرین شعبہ جات سے معاونت حاصل کرتے ہوئے ان منصوبہ جات کو نفع بخش اور دلکش بنائیں تو ملک وملت کے لئے بہت بہتر ہوگا اور آئندہ نسلوں پر بھی یہ احسان ہوگا وہ ریلوے ، PIA ہو یا میٹرو بس / اورنج ٹرین یا پھر بڑے بڑے دیگر ادارہ جات ،بس خوشامدی ورزاء اور مشیروں سے جان چھڑا کے میرٹ کو اپنے وعدہ کے مطابق بروئے کار لائیں۔ مجھے اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں کہ جو ادارے/ منصوبے پرائیویٹ سیکٹر نفع بخش بنا سکتا ہے حکومت ان کو نفع بخش بنانے سے قاصر رہے گی ۔ بس بات اتنی سی ہے کہ جو کام جس کے سپرد کیا جائے، اس کی نیت اور اہلیت شک و شبہ سے بالا تر ہو۔بس خود کو بدل کے دنیا کو بدل ڈالیں قدرت ضرور مدد کرئیگی۔
کیسے ممکن ہے کہ ماں ، بہن کا زیور بیچ کر یا ٹریکٹر ، بھینس فروخت کرکے ویزے اور سفری اخراجات برداشت کرنے والے ا شخاص بیرون ملک جاکر ملک وقوم کے احسان مند ہوں ۔ یہ دیوانے کا خواب توہوسکتا ہے جس کاحقیقت سے دوردور کا واسطہ نہیں بنتا۔ہمارے ہاں کسی سطح پر بھی کسی قسم کا تعاون بیرون ملک جاکر محنت مزدوری کرنے والوں کو حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی جانے کیلئے اٹھنے والے اخراجات کی مد میں نہ سفری دستاویز کی تیار ی کے سلسلے میں حتیٰ کہ وہاں پہنچ کربھی سفارت خانہ کی طرف سے کسی قسم کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے۔ہمارے ملک کو زرمبادلہ بھیجنے والے بے یارومددگار لوگوں سے ہم یہ اُمید بھی لگائے رہتے ہیں کہ وہ حب الوطنی کی معراج پر بھی استادہ ہوں ۔ جو بادی النظر میں ممکن نہیں،خدمت ہمیشہ خدمت ،محبت یا اجرت کے بدلے میں لی جاسکتی ہے۔ابھی تک تو حکومتِ وقت کی بھی کوئی ایسی پالیسی نظر سے نہیں گزری جو ان پردیسیوں کے دکھوں کا مداوا کرسکے ،نہ کبھی ماضی میں اس طرف توجہ دی گئی ہے۔
پوری دنیا میں لوگ اپنی افرادی قوت سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور ملک وملت کی ترقی میں خوب استعمال کرتے ہیں۔ایک طرف حکومت اپنے باہر جانے والے لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرتی اور دوسری طرف باہر جانے والے لوگ بھی انتہائی سخت محنت مزدوری کا انتخاب کرکے ہی ملک چھوڑ تے ہیں ۔ پاکستانی آپ کو صرف مزدور ہی دیکھائی دیں گے اور زیادہ سے زیادہ ٹیکسی یا ٹرک ڈرائیور بن جائیں گے ۔ وہ بھی دوسرے ممالک میں جاکر ڈرائیونگ سیکھ کر لائسنس لیں گے ۔ جو دیارِ غیر میں اُن کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتا ہے اس کے برعکس ہندوستان ،نیپال یا فلپائن کی مثال لیں تو ہمیں شرمندہ ہونے کو کافی ہوگا۔عمومی طور پر ہندوستانی، نیپالی سیلز سٹاف یادیگر آفیشلز جاب کرتے ہیں اور ایک طرف تو ان کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے اور دوسری طرف سخت مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی۔مگر فلپائن نے تو اپنی افرادی قوت کو ایسے ہنرمند بنایا ہے کہ ساری دنیامعترف ہے، اُن کی اس ضمن میں کیے گئے اقدامات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہوگی۔آپ دنیا میں کہیں بھی جائیں آپ کو اس جزیروں والے ملک کے لوگ کام کرتے نظر آئیں گے حیرت اس بات پر بھی ہوگی کہ مزدوری نہیں کرتے وہ عمومی طور پر مارکیٹ میں سیلزگرل، بوائے،یا کمپیوٹر آپریٹر ہونگے۔فلپائن حکومت کی حکمت عملی تھی یا لوگوں کی اپنی خدادا د صلاحیتیں کہ اُنہوں نے انجینئر کی بجائے ایسوسی ایٹ، انجینئر ز بنائے،ڈاکٹروں کی بجائے نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف تیار کیا۔گاڑیوں کے مکینک اورالیکٹریشن ،پلمبرز یا دیگر ٹیکنیکل ہنر مند بنائے،ڈگریوں کی بجائے ڈپلوموں کو ترجیح دی اور پھر پوری دنیا میں اپنا لوہا منوالیا۔اب آپ کو گلف سے لیکر یورپ اور امریکہ ، کینیڈا تک صحت کے شعبہ میں فلپائنی ہی نظر آئیں گے ۔ اس طرح نہ صرف وہ خود کو اچھا معیارِ زندگی دے پاتے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ زرِمبادلہ بھی خوب اپنے ملک کو ترسیل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ اُن پیشوں کی بدولت وہ زیادہ معاوضہ حاصل کرتے ہیں۔دوسری طرف ہمارے مزدور جو خوب خون پسینہ بہا کر بھی کمائی زیادہ نہیں کرپاتے۔ جس کی وجہ سے نہ تو زرِمبادلہ زیادہ بھجو اسکتے ہیں اور خود بھی کسمپرسی کی زندگی گزار تے ہیں۔ہمارے ہاں بے شمار لوگ بیرونِ ملک کمانے جاتے ہیں اُ ن کی طرف پاکستان اگر توجہ کرے تو بے پناہ فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ کرنا یہ ہوگا کہ سب سے پہلے تو ووکیشنل تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ووکیشنل ٹریننگ کے نئے ادارے بنائے جائیں ،جو پہلے سے ہیں اُن کو خوب فعال کیا جائے۔ لوگوں کو آگاہی دی جائے اور ووکیشنل ٹریننگ لینے والے لوگوں کو دوران تعلیم وظائف دینے چاہیے تاکہ وہ اس میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیں، اور ملکی ضرورت پوری ہونے کے بعد اِن ٹرینڈ لوگوں کے اعداد وشمار حکومت اپنے بیرونِ ملک سفارت خانوں کو بھجوائے اور ان کے ذمہ لگائے کہ تمام معلومات اکٹھی کرکے بیرونی حکومتوں سے معاہدے کریں کہ ہم آپ کو ہنرمندافراد منگوا کر دیں گے ۔ابھی تک یہ کام پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں ایک طرف تو وہ اپنے ملک کا نام خراب کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے اور دوسرے وہ بچارے محنت مزدوری کے لیے جانے والے لوگوں کو بھی خوب لوٹتے ہیں ، بارہا تو ان لوگوں کی جان تک داؤ پر لگادیتے ہیں کبھی قانونی طور پر اور کبھی تو غیر قانونی طور پر بھی لوگوں کو بیرون ملک بھجواتے ہیں جوکہ ملک وقوم کے وقار کو بھی مجروع کرتے ہیں اور لوگوں کو مالی و جانی نقصان سے بھی دوچار کرتے ہیں۔کتنا اچھا ہواگر ہمارے سفارت خانے اُن ملکوں میں اُ ن کی ضرورت کے مطابق ہنرمند افراد کو وہاں منگوائیں اور کام پر لگائیں پھراُ ن کی متواتر خبرگیری بھی کرتے رہیں ۔ تمام سفری اخراجات بھی اگر حکومت برداشت کرے اور پھر اُن کی تنخواہ سے ایک معقول کٹوتی کرکے پورے کرلیں اس سے ایک طرف تو لوگوں کی بھرپور مدد ہو جائے گی اور ساتھ ہی حکومت کو بھی لوگوں کی آمدن کا بھی اندازہ رہے گا اور حکومت کے ذریعے ہی پیسے ملک میں بھجوائیں گے۔ جس سے ہنڈی وغیرہ سے بھی جان چھوٹی رہے گی اور لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ بڑھانے میں یہ بہت اہم ہوگا جب ملک آپ کو روزگار دے گا ہنر دے گا تو کیا وجہ ہوگی کی آپ میں ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ نہ جاگے۔ اس کام کو بطریقِ احسن سرانجام دینے کے لیے سفارت خانوں میں باقاعدہ اس کام کے لیے افسران کی تعیناتی کرنی چاہیے جو نیک نیتی سے یہ فریضہ سرانجام دیکر ملک و ملت کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بس خود کو بد ل کر دنیا کو بدل ڈالیں قدرت ضرور مدد کرئیگی ۔
آج جس خواہش کا ذکر چھیڑ رہا ہوں وہ مدتوں سے ادھوری ہے اور جانے کب تک رہے گی ۔ شعبہ صحت کی بگڑی ہوئی صحت کے سدھار کیلئے کچھ کہنے کی جسارت کررہا ہوں۔ڈاکٹر حضرات کے تعلیم سے لیکر ہسپتال تک اور معاشرے میں اُن کی مقام وتنخواہ کے معاملات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کے فرائض پر بات کریں گے۔ حکومت ڈاکٹر بنانے میں بہت سرمایہ اپنی گرِہ سے عنایت کرتی ہے جس کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے اگر ہم صرف گورنمنٹ اور پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی فیسوں کاتفصیلی جائزہ لے لیں۔مگر ڈاکٹر بنانے کے بعد ہم نہ تو اُن کو اپنے ملک میں رہنے پر راضی کرتے ہیں نہ کوئی سرکاری نوکری دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ بے چارے مجبور ینگ ڈاکٹرز ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہمارے بھائی ہمارے وسائل استعمال کرکے دوسری قوموں کی خدمت کا بیڑِا اُٹھا لیتے ہیں ۔ نہ صرف ڈاکٹروں بلکہ دیگر شعبوں کے ماہرین بھی بلا روک ٹوک ملک چھوڑ جائیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس سے بڑھ کر ہم خود انہیں ملک بدری پہ مائل کرتے ہیں۔باوجود اس سب کے تمام لوگ تو پھر بھی ملک سے باہر نہیں جاسکتے یا نہیں جاتے مگر اُن کے ساتھ ہم جو سلوک روا رکھتے ہیں وہ الگ ستم ظریفی کی داستاں ہے۔ ینگ ڈاکٹروں کی بھی یقیناذمہ داریاں ہیں مگر اصل معاملہ تو ہر دو صورت حکومت کے سرہی ہے جن کو ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس میں دونوں فریق راضی بارضا عوام کی خدمت کو نصب العین بنالیں۔ پہلے صحت کارڈ کی بات ن لیگ کے دور میں شروع ہوئی اور انہوں نے کچھ لوگوں کو صحت کارڈ جاری کرنے کی پالیسی وضع کی ۔ اب حکومت وقت نے بھی صحت کارڈ کو سیاسی کارڈ بنانے کا اعلان کیا ہے گویا یہ پسماندہ علاقے کے لوگوں کیلئے صحت کارڈ جاری کرنے کی بات کررہے ہیں ۔ مگر میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی اچھا قدم ہے یااس کا نتیجہ بہتر ہوگا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا میرٹ ہے کس بنیاد پر یہ کارڈ جاری کرنے جارہے ہیں ۔ جیسے ماضی میں بھی اس طرح کے کئی دیگر منصوبے ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہیں۔ مثال بینظیر کارڈ کی بھی لی جاسکتی ہے جوکہ ووٹ پکے کرنے کیلئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ غریبوں کی مدد کیلئے ویسے تو اس طرح کی مدد بھی کسی کام کی نہیں ایک طرف تو پیسے اتنے نہیں ہیں کہ کسی کو خاطر خواہ فائدہ ہوسکے دوسری طرف ہم اپنی قوم کو امداد کی خوگر بنا رہے ہیں تیسرے یہ سراسر پیسوں کا ضیاع ہے ان پیسوں کو کس طرح سے استعمال کیا جائے کہ ملک وملت کی خدمت میں کام آئیں اور ملکی ترقی میں معاون ہوں اس کی تفصیلات پھر کسی وقت ضبط تحریر میں لاؤں گا ۔ صحت کے شعبہ میں اگر حکومت مکمل غورو خوص کے بعد ایک جامع پالیسی مرتب کرے جو کہ صحت کے متعلق تمام مسائل کا صحیح اور وقت کے مطابق حل پیش کرتی ہو۔میرے خیال میں سب سے پہلے تو ہمیں حکمرانوں کو بھی عوام کا حصہ شمار کرنا ہوگا جب تک ہم غیر مساوی رویہ کو متروک نہیں سمجھیں گے یونہی مسائل کے سمندر میں غوطے کھاتے رہیں گے۔کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ، منسٹر یا ممبر اسمبلی کو ملک سے باہر علاج کی سہولت میسر نہیں ہونی چاہے ۔ اگر کوئی اپنے خرچے پر بھی باہر علاج کروانے جانا چاہے تو پہلے اپنے عہدہ سے الگ ہو۔یہ ہے وہ نسخہ کیمیا جو ملک کے اندر موجود سہولتوں میں جلد از جلد جدت لا سکتا ہے جب اربا بِ اقتدار بھی انہیں ہسپتالوں سے علاج کروانے کیلئے پابند ہونگے تو یہ ہسپتال بھی یقیناًمعیار ی سہولیات بہم پہنچانے کے قابل ہوجائیں گے۔صحت کارڈ جاری کرنے کی بجائے شناختی کارڈ کوہی صحت کارڈ مان لینا چاہیے کیونکہ علاج کا حق تمام شہریوں کو یکساں حاصل ہونا چاہیے اور یہ حکومت کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے۔اس کو آسان کرنے کیلئے صحت انشورنس کا نظام متعارف کروایا جاسکتا ہے ،یاپھر حکومت صحت کی مد میں سالانہ بنیادوں پر ایک معقول رقم” جو بھی ماہرین طے کریں “ہیلتھ ٹیکس کے طور پروصول کرے۔ایک اور زہریلا خیال جو بہت سارے لوگوں کو ڈسے گا وہ بھی صحت کے شعبہ میں بہت اہم پیش رفت کا باعث ہوسکتا ہے۔صحت کو پرائیویٹ شعبہ سے بالکل ختم کردینا چاہے اور یہ صرف سرکار اپنے ذمہ لے لے جس میں نیشنلائز کی پالیسی بھی اپنائی جاسکتی ہے ۔تعلیم اور صحت میں تویہ پالیسی یقیناًکارگرہوگی ۔ایک قدم حکومت نے پچھلے دنوں اٹھایا ہے جس میں ڈاکٹروں کو شام کے اوقات میں سرکاری ہسپتالوں میں ہی پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت دی ہے جس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے سرکاری املاک او رادویات اور دیگر سہولیات شاید غلط طور پر استعمال ہونے لگیں۔ڈاکٹروں کو خود حکومت تنخواہ تو دیتی ہی ہے جب پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی لگا دیں اور جو لوگ سرکاری ہسپتالوں میں مزید وقت دیں اُن کو ایک معقول مشاہرہ اوور ٹائم کی مد میں دیا جائے یہاں مسئلہ آئے گاکہ حکومت کے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں تو اس کیلئے پہلے مذکورہ طریقے اپنائے جاسکتے ہیں ایک تو انشورنس کمپنیوں کو متحرک کرلیا جائے یا پھر ہیلتھ ٹیکس سے وصولی کرلی جائے۔ اگر ان سرکار ی ہسپتالوں کا معیارِبلندہو جائے تو ہر کوئی ادھر سے علاج کروانے کو ترجیح دے گا ۔ اعلیٰ معیار کا ہدف حاصل کرنے کیلئے ہر پاکستانی کا علاج ملک میں کرنے والا معاملہ اپنا لیا جائے تو یقیناًکامیابی ہمار ا مقدر بنے گی ۔ہاں کچھ بیماریوں کا علاج اگر ممکن نہ ہو، تو وہ دوسری بات ہے مگر اس ضمن میں سرکار کو فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے وہ سہولیات ملک میں لانی چاہیے تما م پروفیشلز کو معاشرے میں عزت وتکریم مقام بھی حاصل ہونی چاہیے جس میں اُ ن کے معیارِزندگی کو بہتر بنانے کیلئے بھی بھر پور کوششیں کرنی چاہیں جو بار آور بھی ہوں۔ بس خود کو بد ل کر دنیا کو بدل ڈالیں قدرت ضرور مدد کرئیگی ۔
(ادھوری خواہشیں)
ہربیمار ی کا علاج ہے ۔ ہر خرابی کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔ ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ یعنی اس جہان فانی میں کچھ بھی ناممکن کے زمرے میں نہیں آتا۔عام لوگوں کیلئے تو چھوٹے چھوٹے مسئلے بھی پہاڑ بن جاتے ہیں مگر نڈر ، بہادر اور خواص کے سامنے پہاڑوں جیسے مسئلے بھی گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔بات ہے صرف اور صرف پختہ ارادے ، اچھی نیت اور منزل کی لگن کے عشق کی، جیسے بقول شاعر: وہ کون سا عقدہ ہے جو واہ ہو نہیں سکتا ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
سچ یہی ہے کہ مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے دیکھنے سوچنے کی بات بس اتنی سی ہے کہ ہم نے اپنی منزل کو تعین کرلیا ہے کہ ابھی تک تزبذب کا شکار ہیں کسی بھی کام کو سرانجام دینے کیلئے سب سے پہلے تو یہ ارادہ کرنا ہوتا ہے ہم یہ کام کریں گے۔ دوسر ا نقطہ ہوتا ہے وقت کے تقرر کا کہ کب کریں گے، اس کے بعد آتا ہے سب سے اہم مرحلہ کہ کیسے کرینگے ۔کیسے کرینگے میں پھر ساری تفصیل آتی ہے کہ اس کیلئے لوگ کتنے چاہیے ہونگے ،وسائل اور اوزار کیا کیا ضروری ہونگے۔اگر حکومت وقت یہ ٹھان لے کہ ہمیں ملک کو ٹھیک طریقے سے ترقی کی راہ پر لانا ہے اور کامیابی حاصل کرنی ہے اپنے اور قوم کیلئے تو پھر سب سے پہلے تمام اداروں میں اہل لوگوں کو لائیں۔اُن سے پالیسی بنوائیں کہ یہ جو عہدہ ہے اس سے آپ کیسے عہدہ براہ ہونگے یا اس ٹاسک یا منصوبہ کی تکمیل کس طرح ہوسکے گی۔جب وہ مکمل ضابطہ کار بن جائے تو اس کو ماہرین کے سامنے رکھنا چاہیے۔ماہرین کے خدشات دور کرنے چاہیے۔پھر ان کی راہنمائی میں ضابطہ کار/ پالیسی کو ہر ممکن نقائص سے پاک کرکے اس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ہمارے ملک میں سب سے بڑا مسئلہ سرمایے کا ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے آنے والے کل سے مایوس ہوچکے ہیں ہمیں مایوسی سے نکل کر اس مسئلے کا حل نکالنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ہمارا ملک کنگال بالکل نہیں بس ہمت وجنون کافقدان ہے ، مثال کے طور پر پاکستان ریلویز کوہی لے لیجئے کیا وجہ ہے کہ ہم خسارے سے الجھے ہوئے ہیں ۔ اس ضمن میں تو اتناہی کہوں گا کہاگر یہ منصوبہ یا ادارہ کسی پرائیویٹ کمپنی یا شخص کا ہوتا تو یقیناًنفع بخش ہوتا مگر حکومت کا ہے تو اس سے نفع نہیں مل سکتا۔اسٹیشنوں کو ٹھیک کرنا،پیٹریوں اور انجنوں کی مینٹینس اور ملازموں کی تنخواہیں ہی اخراجات میں آتے ہیں اور مال برداری ،مسافروں سے جو کرائے حاصل ہوتے ہیں وہ آمدن ہے۔آسان بات ہے کہ عملے کی برابر جانچ پڑتال کی جائے اور ایک مناسب طریقہ کار اختیار کرکے عملے کو حدِاعتدال میں لایا جائے ۔ ملازمین میں مقابلے کی فضاء قائم کی جائے اور اانعامات دیئے جائیں ۔ اسیِ طرح غفلت پر سزا بھی دی جائے ،کرایوں کو بھی انتہائی غور وخوض کے بعد بڑھایا گھٹایا جائے اس کے علاوہ آمدن بڑھانے کیلئے گاڑیوں پر اشتہاری مہم چلانے کیلئے مختلف کمپنیوں سے رابطے کرکے بھی اچھے خاصے پیسے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔اس طرح سے اسٹیشنوں پر مختلف ملٹی نیشنل،نیشنل کمپنیوں کو معاہدوں کے تحت ہا ل بنانے اورمینٹینس رکھنے کے عوض جگہیں دی جائیں جیسے بڑی فوڈ چینز کو مختلف اسٹیشنوں پر اپنے نام کے ساتھ ہال تعمیر کرنے دیئے جائیں جس کو وہ صاف ستھرا رکھیں، لوگوں کو اچھے کھانے میسر ہوں اور ساتھ ہی ساتھ محکمے کا خرچہ بھی کم ہو لوگوں کو بیٹھنے کی اچھی سہولت میسر ہو۔
اسی طرح اگرPIA کی بات کریں تو اس کے ساتھ بزنس کرنے والی ہوائی کمپنیاں نفع کما رہی ہیں اورPIA سفید ہاتھی کا روپ دھار ے ہوئے ہے۔ اس کے پیچھے بھی لوگوں کے ذاتی مفادات اور کج فہمی ہے ایک بارPIA کے تمام اثاثوں ،عملے ،اور روٹس کے ساتھ ساتھ آمدن ، اخراجات کا تفصیلی جائزہ لیکر ایک قابل عمل ضابطہ کار بنایا جائے جس میں فائدہ صرف اور صرف ملک وقوم کا پیش نظر ہو تو یقیناًکچھ بڑے فیصلوں کے بعد یہ نقصان کا باعث محکمہ بھی نفع برسانے لگے گا۔
ان کے علاوہ پاکستان اسٹیل اور پھر دیگر ادارہ جات جو آج نقصان دہ ہیں کل بالکل ایسا نہ تھا اور کبھی ایسا نہ رہے گا انشاء اللہ ،ضرورت بس اس امر کی ہے کہ ہمیں اچھی نیت کے ساتھ مصمم ارادہ کرنا ہے پھر وقت طے کرنا ہے ،ضابطہ کار وضع کرنا ہے اورعشق کے ساتھ ان ادھوری خواہشوں کی تکمیل کیلئے سرپٹ بھاگنا ہے وہ دن دور نہیں ہے جب ہم مایوسی کے منحوس سایوں سے نکل جائیں گے اور دورحاضرکے یہ مسائل جو ہمیں منہ چڑھا رہے ہیں یا د بھی نہ رہیں گے۔ ہماری آنے والی نسلوں کو ان تلخیوں کے افسانے بھی نہ ملیں گے بس ہم سب کو یہ وعدہ کرنا ہے کہ اپنے اپنے حصے کا کام ایمانداری ، تندہی اورنیک نیتی سے کرینگے ۔
بس خود کو بد ل کر دنیا کو بدل ڈالیں قدرت ضرور مدد کرئیگی ۔
چوہدری ساجد وحیدسرور
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ