چوہدری محمد اعظم آف کلروڑی ، جو بابو ماسٹر محمد اعظم کے نام سے جانے جاتے تھے ، مورخہ 13دسمبر 2018ء کو 77سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد اپنے رب کے حضور جاپہنچے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔چوہدری محمد اعظم کا شمار اس خطے کے ان چند افراد میں ہوتا ہے جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ جنہوں نے اپنی زندگی جہدِ مسلسل ، دوسروں کی خدمت ، ایثار و قربانی ، پڑھے لکھے مردو خواتین کی کیریئر کونسلنگ اور سینکڑوں لوگوں کے مستقل روزگار دلوانے کے لیے وقف کیے رکھی ۔ ایسی ہی نادر شخصیات کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ : ’’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم ‘‘
چوہدری محمد اعظم نے 21اکتوبر 1941ء کو ڈڈیال کے قدیمی موضع کلروڑی میں چوہدری محمد عبداللہ خان کے گھر آنکھ کھولی ۔ دادا چوہدری سید اکبر اور پرداداچوہدری شہاول خان صرف وینس راجپوت قبیلے ہی نہیں بلکہ علاقے کے بڑے جاگیر دار ، معاشی طور پر خوشحال ، منصف مزاج کے ساتھ ساتھ مرجع خلائق شخصیت کے حامل گردانے جاتے تھے۔ چوہدری محمد اعظم اپنے والد کے اکلوتے بیٹے تھے ، حسن اتفاق سے والد ، داد ا اور پردادا کا بھی کو ئی دوسرا بھائی نہ تھا ۔ چوہدری محمد اعظم نے ابتدائی تعلیم ڈڈیال ہائی سکول سے مکمل کی اور انٹر میڈیٹ کے لیے گورنمنٹ کالج میرپور میں داخلہ لیا اور وہیں سے گرایجویشن کا امتحان امتیازی نمبرات سے پاس کیا۔ چوہدری محمد اعظم کو شروع سے ہی تعلیم و تدریس سے خصوصی دلچسپی تھی ، اس لیے بی اے کر نے کے بعد وہ گورنمنٹ ہائی سکول ڈڈیال میں اُستاد بھرتی ہوگئے ۔ حالانکہ والد اور اس سے پہلے داد ا انگلینڈ میں تھے لیکن اُنھیں انگلینڈ کی زندگی پسند نہ تھی جبکہ دوسری طرف کئی سو کنال زرعی اراضی کے اکلوتے مالک ہونے کے باوجود زمینداری سے بھی اُنھیں کوئی خاص شغف نہ تھا ۔اس لیے انہوں نے اس وقت کے دو باعزت سرکاری محکموں فوج اور تعلیم میں سے محکمہ تعلیم کا انتخاب کیا۔ صرف دو سال اُستاد رہنے کے بعد 1967ء میں وہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس میرپور میں بطور ہیڈکلرک بھرتی ہوگئے اور بعد ازاں 1977ء میں انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور میرپور میں میڈکل سٹورکا بزنس شرو ع کر دیا ۔ 1968ء جب ان کا گاؤں کلروڑی منگلا ڈیم منصوبے کی نذر ہو گیا تو انہیں مجبوراً میرپور ہجرت کرنا پڑی اور پھر مرتے دم تک میرپور کلیال میں ہی مقیم رہے۔ ڈی ای او آفس میں ہیڈ کلر ک بظاہر کوئی بڑی پوسٹ دکھائی نہیں دیتی لیکن انہوں نے مسلسل محنت ، لوگوں کی خدمت ، سینکڑوں اساتذہ کی میرٹ کے مطابق بھرتیوں ، ذاتی جیب سے رقم خرچ کر کے سینکڑوں مرد و خواتین کی تعلیم مکمل کرنے اور انہیں شعبہ تعلیم میں ملازمت دلوانے کے لیے مسلسل سرگرداں رہے۔ یاد رہے کہ اس وقت پی ایس سی اور این ٹی ایس جیسے ادارے موجود نہ تھے ۔ بھرتی کا اختیار ڈی ای او ، ہیڈکلرک کی رائے سے سیکرٹری تعلیم کرتا تھا ۔چوہدری محمد اعظم کے کردار کی گواہی کا ثبوت اس طور ملتا ہے کہ ان کے جنازے اور بعد ازاں گھر تعزیت کرنے کے لیے آنے والے محکمہ تعلیم اور دیگر مختلف شعبوں سے وابستہ سینکڑوں مردو خواتین نے اُنھیں اپنا محسن قرار دیا ۔بابو چوہدری محمد اعظم نے جس وقت محکمہ تعلیم میں خدمات سرانجام دیں اس وقت چونکہ کوٹلی اور بھمبر بھی ضلع میرپور کا حصہ تھا ، اس لیے ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا۔ کوٹلی ، ڈڈیال ، سنہسہ ، بھمبر ،چکسواری ، اسلام گڑھ اور میرپور سمیت دیگر مقامات سے محکمہ تعلیم سے وابستہ افراد نے ان کے حسن سلوک ، خدمات اور ذاتی احسانات کا نہ صرف کھل کر ذکر کیا بلکہ دل کھول کر زبر دست خراج عقیدت بھی پیش کیا ۔انہوں نے ملازمت پیسے کمانے کے لیے نہیں بلکہ ذاتی جیب سے پیسے خرچ کرتے ہوئے عام تعلیم یافتہ لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھی۔وہ شروع ہی سے نہ صرف خوش لباس تھے بلکہ 1960ء میں بھی اپنی ذاتی گاڑی پر سفر کرتے تھے ۔ اُن کی 450(ساڑھے چار سو )کنال زرعی زمین منگلا ڈیم منصوبے میں زیر آب آگئی ۔ جس کا معاوضہ اس وقت اتنا ملا تھا کہ اگر میرپور کا آدھا سیکٹر خریدنا چاہتے تو بآسانی خرید سکتے تھے لیکن انہوں نے صرف ایک مکان خریدا اور باقی پیسہ بچوں کی تعلیم اور عام ضرورت مندافراد کے لیے وقف کر دیا۔ مرحوم جہاں دوسروں کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مضطرب رہتے تھے وہاں انہوں نے اپنی اولاد کو بھی پاکستان کے نمایاں تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ ان کے دو بیٹوں نے ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی جبکہ ایک بیٹا رزمک کیڈٹ کالج بنوں میں زیر تعلیم رہا ، اور اب علی فارمیسی کے نام سے میرپور اور برٹن برطانیہ میں میڈیکل کے بڑے بزنس کے مالک ہیں۔ جبکہ ان کی دوبڑی بیٹیاں سرکاری ڈاکٹرز اور تین بیٹیاں محکمہ تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔
قدیم ڈڈیال کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو مورخ چوہدری محمد اعظم کی شعبہ تعلیم اور سماج کے لیے گراں قدر خدمات کا سنہری حروف میں ذکر ضرورکرے گا ۔ چوہدری محمد اعظم نے ایک بھرپور ، متحرک ، ہمہ پہلو و ہمہ گیر زندگی گزاری۔ وہ ایک بے چین رو ح اور مضطرب انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی معاشرے کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کیے رکھی ۔ہر انسان نے اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے لیکن زندگی کا اصل مزہ تو یہ ہے کہ جب انسان اس دنیا سے رخصت ہو تو ہر فرد جانے والے کے کردار کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے اور اسے اپنا محسن قرار دے۔ اللہ تعالیٰ چوہدری محمد اعظم کے درجات بلند فرما ئے اور ہم سب کو اس دنیا میں دوسروں کے لیے کچھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ ہمارے لیے آخرت میں ذریعہِ نجات بن سکے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا