امریکا افغانستان کی طویل جنگ میں تھک چکا ہے تحریر :عبدالجبار خان دریشک
طاقت کے استعمال سے سوائے تباہی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا، یہی معاملہ امریکا کے ساتھ رہا ہے طاقت کے نشے میں چور امریکا تمام تر اخلاقی وانسانی حدیں پھلانگ کر کسی بھی کمزور ملک پر ٹوٹ پڑا 11145 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد امریکا نے 7 اکتوبر، 2001 میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔ امریکا نے بغیر تحقیق کیے افغانستان میں اس وقت کی قائم طالبان کی حکومت پر الزام لگا کر صرف ٹھیک اس واقعہ کے 26 دن بعد افغانستان پر اتحادی فوجوں کے ساتھ مل کر حملہ کر دیا۔ امریکا 17 سال کی اس جنگ میں صرف مصوم شہریوں کو نشانہ بناتا رہا جبکہ طالبان امریکی افواج کے ساتھ گوریلہ جنگ لڑتے رہے جبکہ دوسری یہی طالبان گوریلہ جنگ کا خاصہ تجربہ رکھتے تھے جو امریکا کو اب تک ناکوں چنے جبواتے آئے ہیں۔
اب امریکا طالبان سے مذکرات کرنے جا رہا ہے لیکن اسے ہزاروں مصوم شہریوں کو مارنے کا افسوس نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے طالبان حکام سے مذکرات کرنے جارہا ہے طالبان رہنماو 191ں اور امریکا کے درمیان قطر دوحہ میں رواں برس جولائی میں مذاکرات ہو چکے ہیں۔ جس میں اعلیٰ امریکی عہدے دار خاتون سفارتی اہلکار ایلس ویلس بھی شریک تھیں۔ اس وقت مذکراتی اجلاس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔طالبان حکام اور امریکا کے درمیان دوسرے رونڈ کے مذکرات کی خبریں ہیں جو جلد ہونے کے امکانات ہیں۔ امریکا کے علاوہ روس بھی طالبان قیادت کے ساتھ امن ڈائیلاگ ماسکو میں کرانا چاہتا تھا اس امن مذکرات کے اجلاس میں طالبان نے بھی حامی بھر لی تھی لیکن ان مذکرات کو بغیر وجہ بتائے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ افغانستان کی عوام مسلسل 39 سال سے حالت جنگ میں اور اب یہ جنگ تیسری نسل کے سامنے بھی ہو رہی ہے۔ امریکا ہمیشہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کمزورں کو کچلاتا آیا ہے، امریکی فوج دنیا میں سب سے زیادہ بجٹ رکھنے والی افواج میں شمار ہوتی ہے لیکن وہ 17 سال تباہ حال افغانستان کو فتح نہ کر سکی جس کی باضابطہ کوئی فوج نہیں ہے بلکہ اگر افغانستان کی فوج ہے بھی تو اس کی حمایت خود امریکا کو حاصل ہے۔
امریکی فوج ہمیشہ ٹیکنالوجی کے سہارے جنگیں لڑتی آئی ہے لیکن زمین پر آمنے سامنے لڑنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔ ویتنام کی جنگ میں جو مار امریکا کو جاپان کے کی طرف سے ملی تھی اس کی مثال ابتک نہیں ملتی ہے۔ جب 1942 میں امریکی فوج جاپان پر حملے کی غرض سے جزائر ت 177لگی، گواٹو اور گوڈل کینل میں کشتیوں کے ذریعے وہاں پہنچ تو گئی تھی مگر اس کے بعد امریکی مصیبت میں پھنس گئے۔ اس پہلے امریکیوں کو جنگل کی لڑائی کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا وہاں گھنے جنگلوں کی لڑائیوں میں جاپانیوں طرح طرح کے گڑھے، پھندے اورجال امریکی فوجیوں کے لیے بچھا رکھے تھے جسے ہی کوئی امریکی فوجی حملہ ا?ور ہوتا تو پھنس جاتا ایسے ہی جاپانی آسانی سے ان کا شکار کر لیتے تھے۔اس کے علاوہ امریکی سخت ماحول اور پ 177ر خطر زندگی کے عادی نہ تھے یہاں کیچڑ، گندا پانی، دلدل، اور گڑھے یہ سب ان کے لیے موت کاسامان تھے۔ پھر انہیں قسم قسم کے کیڑے مکوڑے رات دن کاٹتے رہتے جس سے امریکی فوجیوں کے بدن لال جاتے۔
اس جنگ میں امریکیوں کے مزاج کے برعکس چیزیں تھیں سخت موسمی حالات خراب آب و ہوا، زہریلے کیڑے اور گرمی کی وجہ امریکی فوجیوں میں پیچش کی سخت وبا نے ان کے حوصلے مزید پست کر دیے اس وبا کے ساتھ دوسری مصیبت اور آن پڑی کہ ان کو ملیریا نے بھی آپکڑا جب امریکی فوجیوں کو بخار چڑھتا تو اترنے کا نام نہ لیتا۔ اس برعکس جاپانی بہت لڑاکا تھے اگر کوئی جاپانی کہیں ہاتھ آجاتا تو وہ ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے بچنے کے لیے لڑتے لڑتے مرجانا پسند کرتے لیکن زندہ امریکی فوجیوں کے ہاتھ نہیں پکڑا جاتا تھا۔ یہی کیفیت عام جاپانیوں کی بھی تھی وہ کبھی پکڑے جاتے تو امریکیوں کی مدد کرنے کے بجائے مرجانا گوارا کرتے۔
ایسے ہی ایک خونی لڑائی بتان میں 7 جنوری سے 9 اپریل 1942 تک دوسری عالمی جنگ میں فلپائن پر جاپانی حملے کے بعد لڑی گئی تھی اس جنگ کے دوران جاپانیوں نے بہت بڑی تعداد میں امریکی سپاہیوں کو قیدی بنا لیا تھا۔ یہ قیدی بھوک اور پیاس سے اس قدر نڈھال تھے کہ یہ اپنے لب تر کرنے کے لیے آس پاس کے درختوں کے پتے اور ٹہنیاں نوچ کر منہ میں رکھتے تھے لیکن جاپانیوں نے انہیں ایک بوند تک پانی نہ دیا۔ شدت پیاس سے نڈھال امریکی فوجیوں کو تیز قدموں سے چلوایا جاتا جو رکنے کی کوشش کرتا اس پر تشدد کیا جاتا اور ان میں سے کئی فوجیوں کو گولی بھی ماری گئی جو چلنے کے قابل نہیں تھے۔ بالاآخر امریکا کو یہ جنگ ایٹمی حملے کے سہارے جیتنی پڑی۔
امریکا کو جاپان کی جنگ میں جیسے جزائر اور جنگلوں میں لڑنے کا تجربہ نہیں تھا ایسے ہی اسے افغانستان جیسے سخت سرد و گرم موسم اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں لڑنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ امریکا کو سترہ سال افغانستان میں بڑی پسپائی ہوئی ہے۔ اس لاحاصل جنگ میں امریکا کا اپنا نقصان جو ہوا سو ہوا لیکن عام شہری بے قصور مارے گئے ساتھ ہی پاکستان کو امریکا کا اتحادی بننے کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی ، ہمارا امن تباہ ہوا ستر ہزار سول و ملٹری کے جوان شہید ہوئے ہماری معیشت زبوحالی کی طرف چلی گئی۔
Picture of the day
Habib Rashid went to see Syed Al Imran and wished him best wishes on behalf of Pothwar.com