ووٹ کس کو دینا چاہئیے؟؟تحریر:۔ ملک شفقت اللہ
آخرت پر ایمان کامل ہو تو زندگی بہت آسان اور کامیاب گزرتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ زندگی ایک امتحان کیلئے دی تا کہ ہماری ابدی بقاء آسان بن جائے ۔ ویسے تو نیکیوں کی ریس میں تیزی کرنے اور دنیاوی معاملات میں سستی کرنے کا حکم ہے لیکن پھر بھی مسلمان ہو کر کم از کم تینتیس فیصد کا پرچہ ضرور حل کر لیا جائے تاکہ روز محشر انسان سر خرو ہو سکے ۔ ہم فتنوں کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں اب تمام تر الہامی و قدسی احکامات کی جگہ سائنس اور فلسفوں نے لے لی ہے ۔ لوگ دلائل مانگتے ہیں ،سائنس کے سوا کوئی بات تسلیم کرنے کو رضا مند نہیں ۔ تاویلیں کرتے ہیں اور آخر ت کے متعلق سوال کرتے ہیں ، ان لوگوں کی سوچ اور فہم پر مجھے افسوس ہے ۔ جب لوگوں کو اللہ کے حکم سے ڈرایا جاتا ہے کہ یہاں دنیا میں تو چلو تم لوگ بچ جاؤ گے لیکن آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا ، تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ کیا واقعی حشر بپا ہونا ہے ؟ اگر ہوا تو اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے ۔ ایک طرح سے لو گ اللہ کے حکم کو بڑے انداز سے جھٹلاتے ہیں ۔ آج سبھی جانب مطلق العنانی کا دور دورہ ہے اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں رہا ۔ اگر انسان یہ تسلیم کر لے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور ساری دنیا کا مالک اور بادشاہ وہی ہے اور ہم تو محض اس کی پیدا کردہ چھوٹی سی مخلوق ہیں تو ا س ساری دنیا میں دنیا داری کے جھنجھٹ ہی ختم ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیا اور ہر ایک شئے کیلئے حدود مقرر کر دیں ہیں جن سے وہ تجاوز نہیں کر سکتے ۔ آپ دیکھیں بحیرہ اوقیانوس میں ایک مقام پر دو طرح کا پانی ہے جو اپنی حد سے تجاوز کر کے دوسرے میں شامل نہیں ہو سکتے ، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرما دیا ہے ۔ چاند اور سورج اور زمین اور کائنات کے دوسرے سیارے اپنے مقررہ مدار میں گردش کرتے ہیں اور اس سے تجاوز نہیں کرتے ۔ یہاں فہم کرنے کی بات ہے کہ اگر چاند ،سورج یا کوئی اور سیارے اپنے مدار سے نکل کر کسی دوسرے مدار میں گردش کرنے لگ جائیں یا ان کا کوئی مدار ہی نہ ہوتا کہ کائنات میں یوں ہی تیرتے پھرتے تو آئے روز کائنات میں کیا کیا ہوتا ؟ کیا پھر یہ زمین بھی اب تک باقی رہتی ؟ بالکل نہیں ، ایک نظم و ضبط کی وجہ سے ہی یہ کائنات بھی قائم ہے اور اس میں وسعت بھی آ رہی ہے لیکن جو اس میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے وہ انسانوں کی بدولت ہے جن کے سرو ں پر مطلق العنانی ، تکبر اور غرور کا بھوت سوار ہے ۔ وہ ہر حال میں سب کچھ تسخیر کرنے کی جد و جہد میں ہے ، اور ہمیشہ اپنا ہی خسارہ کرتا ہے ۔ دنیا کی کوئی بھی مخلوق اپنے لئے کچھ ایسا نہیں کرتی جس سے انہیں یا ان کی آئندہ نسلوں کو نقصان ہو، سوائے انسان کے جس نے اس دنیا میں جگہ جگہ اپنے لئے کانٹے بوئے ہیں ۔ آپ دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو جب جب انسان نے خدائی دعوے کئے تب تب اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے برگزیدہ بندےؑ مبعوث فرمائے اور جب انہوں نے انہیں بھی رد کر دیا یہاں تک کہ ان کی جان کے دشمن بنے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نیست نابود کر دیا ، اور اس عبرت کی سب سے بڑی مثال فرعون کی لاش ہے جو آج بھی لوگوں کو چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ یہ ہے وہ شخص جو خدا ہونے کا دعوہ کرتا تھا ۔ لیکن اب کوئی نبی ؑ نہیں آئے گا ، نبوت پر مہر لگا دی گئی ہے آپ ﷺ آخری نبی ہیں جو سارے جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔ جنہوں نے انسانیت کا درس دیا اور اللہ کی امانت مکمل طور پر ہم تک پہنچا دی ۔ ان کے بعد جب تک خلافت قائم رہی ، انسانیت خوشحال رہی اور علم و عمل کے میدان میں خوب ترقی ہوئی لیکن جب حکمرانوں میں مطلق العنانی کے عنصر نے سر اٹھایا تو دنیا پھر سے خون میں لت پت ہونے لگی ، گو بعد کے مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن ان کا عمل اس سے کہیں کم بھی نہیں تھا ۔ رعایا پر ظلم کرنا ، استحصال کرنا ، اقرباء پروری ،خزانے بھرنے اور خود کو کسی کا جواب دہ نہیں سمجھنا خدائی دعوے نہیں تو اور کیا ہیں ۔ خلافت کو لوگ برا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں آزاد ی نہیں ہوتی ، حق رائے دہی نہیں ہوتا اور وراثتی بادشاہت چلتی ہے ، لیکن افسوس کہ ایک فرسودہ سوچ عوام کے دماغ میں پیدا کی گئی۔جبکہ خلافت کا اصل معنی تو یہ ہے کہ حقیقی بادشاہ اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرنا ہے اور خود مسلمان اپنے آپ کو اللہ کا خلیفہ صحیح معنوں میں عوام کے سامنے پیش کرے ۔ اسلامی جمہوریہ بھی خلافت کا دوسرا نام ہے لیکن اس کے برعکس ہم پر اسلامی جمہوریہ کی آڑ میں صیہونی طرز حکومت رائج کیا گیا ہے ۔ مادیت کے پرستاروں نے آخرت کو بھلا کر اپنی ذات کو ہی مطلق العنان سمجھ لیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ہمارے دلوں میں بغض ، نفاق اور کینہ ہے ، ہم امت رہے نہیں ، ہم باقی سب کچھ ہیں، نہیں تو فقط امت نہیں ہیں ۔ ان چند سیاسیوں نے عوام کی آزادی پر قدغن لگانے کیلئے سب سے پہلے تو آئین سے دور کر دیا ہے اور لوگوں کو یہ باور کرواتے ہیں کہ وہ جو عمل کرتے ہیں وہی قانون ہے اور کچھ بھی نہیں ، حالانکہ وہ صرف ظلم کرتے ہیں ۔پاکستان کے آئین 1956 ، 62 ، 73 سمیت جب بھی قانون سازی کی گئی اس میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی جس پر عوام نے رضا مندی ظاہر کی ۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ تمام کائنات کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور حاکمِ وقت اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ قوانین کی پاسداری کو یقینی بنوانے اور اسلام کا پرچار کرنے کیلئے ہے۔ اس آئینی شق کو پاکستانی قوم نے سراہا تھا مگر افسوس کہ اس قوم کے ساتھ بڑا دھوکہ کیا گیا کہ ہنوز کے اشرافیہ خدا بن بیٹھے ہیں ۔ پاکستان میں پھر سے عام انتخابات منعقد ہونے والے ہیں جس کیلئے پھر سے کچھ لوگ سرگرم عمل ہیں ، لیکن عوام کو چاہئیے کہ خدارا اپنا ووٹ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو دیں ۔ اس جماعت کو لائیں جو اللہ کے احکام کا پرچار کرتی ہو اسی میں ہماری اور ہماری خودی کی بقاء ہے ۔ہمیں لبرل پاکستان نہیں ، سیکولر نہیں ، سوشل نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان چاہئیے اور اسے اسلامی جمہوریہ بنانے کیلئے میں پاکستانی قوم سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنا کردار ووٹ کے ذریعے ادا کریں گے ۔ آخر میں آج کا شعر:
مادیت کے ان پرستاروں کو شفقت دیکھنا
فانی دنیا کا ذرہ انجام ہونے تک رکو