کلرسیداں(نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم، اکرام الحق قریشی,08،اپریل,2023)—گزشتہ ساٹھ ستر برسوں سے مین جی روڈ پر نالہ لئی کے کنارے اور فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال کے ملحقہ ایک دربار قائم و دائم تھا جہاں سے گزرنے والی گاڑیوں کے مسافر اپنی حاجات پوری کرنے کے لیئے اپنی اپنی توفیق کے مطابق چلتی گاڑی سے نقدی مزار کی سمت کھڑکی سے پھینک کر انتہائی سکون سے اپنی منزل کی سمت سفر جاری رکھتے اور انہیں اس کا قوی یقین ہوتا کہ صاحب مزار ان کے نذرانے کے عوض ان کی دلی حاجات کے پورا ہونے کا موجب بنیں گے کسی زمانے میں گاڑیاں بااکل مزار کے انتہائی قریب سے گزرتی تھی اب ایسا نہیں تھا مگر مزار بھی قائم تھا آمدن بھی معقول تھی بہت سارے لوگ کا نظام زندگی بھی چل رھا تھا مگر کسی بااثر نے اب اس مزار کو بھی تجاوز قرار دے کر مسمار کردیا قبر بھی منہدم ہو گئی مزار زمین بوس ہو گیا مزار پر پڑی رنگ برنگی چادریں دیئے چراغ سب مٹی میں مل گئے مگر کوئی ان کی مدد کے لیئے نہیں نکلا نہ ہی دوسروں کی حاجت روائی کرنے والے صاحب مزار نمودار ہوئے اس طرح گزشتہ ساتھ برسوں تک جی روڈ سے سفر کرنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے والے مزار کو دن کے اجالے میں دریا برد کردیا گیا اس طرح ایک عہد کا خاتمہ ہوا ایسا کسی غیر مسلم ملک میں قابض کسی حملہ اور فوج نے نہیں کیا بلکہ پاکستان میں یہ سب کسی انتہائی بااثر شخصیت کے حکم پر کیا گیا
Kalr Syedan (Pothwar.com, Ikramul Haq Qureshi, 08, April 2023)—For the past sixty-seven years, there was a darbar on the banks of the Nala Lai on Main GT Road and adjacent to the Fuji Foundation Hospital, where the passengers of passing vehicles used to visit.
In order to fulfill their needs, they used to throw money from the window towards the shrine from the moving car and continue their journey towards their destination very calmly, and they had a strong belief that Darbar would give their hearts in return for their offerings. It will lead to the fulfillment of needs.
Once upon a time, cars used to pass very close to the shrine, but now it was not like that, but the shrine was also established, the income was also reasonable, the life system of many people was also going on, but now someone influential has destroyed this shrine.
The grave was also demolished, the tomb was destroyed, the colorful sheets lying on the tomb were given, the lamps were all buried in the soil, but no one came out to help them, not even the master of the shrine.
Thus the shrine, which for years had attracted travelers from the GT-road, was washed away in broad daylight. Rather, all this was done on the orders of a very influential person.
باوا اور اٹھی کے نسی گۓ،دریا برد نی ھوۓ۔