سوشل میڈیا کنوینش کی روداد
رضوان اللہ پشاوری
آج کے زمانے میں میڈیا کی اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیاہر ایک کی سالمیت اپنی جگہ مگر آج کا دورسوشل میڈیا کا ہے،ہم جس دور میں چل رہے ہیں یہ دور سوشل میڈیا کا ہے،ظاہراً دیکھا جائے تو ہر کوئی سوشل میڈیا کے نقصانات پر نکتہ چین ہے، لیکن پسِ دیوار حقیقت حال کچھ اور ہے ،سوشل مِیڈیا کی مثال ایک اندھے گھوڑے کی سی ہے چلانے والا چاہے تو فحاشی عریانی کے ریگستان میں سر پٹ دوڑائے چاہے تو مْثبت پاکیزہ راہوں پر گامزن کرے۔سوشل میڈیا کا ہر پلیٹ فارم خواہ وہ کوئی بھی ہو اپنی سوچ ،افکار واطوار کی کیفیت کے مطابق چلاتاہے، اب آپکی سوچ مْثبت ہو، آپکا ایمان پختہ ہو، نفسی شیطانی طغیانی کے طلاطم خیز موجیں آپ کی گرفت میں ہو تو سوشل میڈیا کا ہر پلیٹ فارم آپ کیلئے مفیدو مددگار مثبت کار ہے،ورنہ بصورت دیگر آپ بند کمرے میں مثل نواجون اور سوشل میڈیا سجی سنوری ایک دوشیزہ ہے جس کے ایمانی ڈاکوؤں سے اپنی عِزّت و عِفّت بچانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ومحال ہے!اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام پاکستان نے بھی اپنے سوشل میڈیا کے ایکٹو ساتھیوں کی ایک کنوینشن بمقام سپرنگ کارنیوال شادی ہال منعقد کی تھی،جس میں راقم بھی بحیثیت ایک مندوب کے شامل تھا،اسی کنوینشن کے مہمانان گرامی میں سے سینئر صحافی حضرات بھی تھے،بالخصوص محترم جناب حامد میر ،محترم جناب رحیم اللہ یوسفزئی اور ان کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام صوبہ خیبرپختونخواہ کے مجلس عاملہ اوراکین نے شرکت کی،بالخصوص قائدجمعیت،قائد محترم حضرت مولانا فضل الرحمٰن حفظہ اللہ نے اس کنوینشن کی سرپرستی سنبھالی۔میں ذاتی طور پر محترم جناب مجیب ساحل کا بالعموم اور بالخصوص محترم جناب عبدالجلیل جان،سیکٹری اطلاعات جمعیت علمائے اسلام خیبرپختونخواہ،چئرمین میڈیاسیل کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے راقم کو اس کنوینشن میں مدعو کیا،اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقیوں سے نوازے۔
جیسے ہی کنوینشن ہال میں داخل ہوا،تو بہت سارے ایسے دوست بھی دیکھنے کو ملے ،جن سے صرف فیس بک کی حد تک ملاقات ہوتی رہتی تھی،مگر اُس سن دن ان دوستوں سے بالمشافہ ملاقات کرنے کا موقع ملا،ان میں سرفہرست عطاء الرحمٰن روغانی ہیں کہ کافی زمانہ سے ان کے ساتھ فیس بک پر باتیں ہورہی تھی،اسی طرح فاروق امینی اور کئی ساتھی تھے۔
مقررین میں سے ہر ایک باری باری سٹیج پر تشریف لاتے اور اپنے خیلات کا اظہار کرتے ،مہمانان گرامی میں سے پہلے محترم جناب حامد میر خطاب کی،حامد میر نے سٹیج سنھبالتے ہوئے کہا کہ میں ایک گستاخی سے ابتدا کر وں گا،کہ دوپہر کے وقت پشاور میں داخل ہوا اورBRTکے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی،تو میں سوچ رہا تھابہت سالوں پہلے میں نے افغانستان تورا بورا کا سفر کیا تھا،مگر وہ تورا بورا والا سفر تو اس BRTکے سفر سے آسان تھا،’’ BRTعرف تورا بورا‘‘ پتہ نہیں پشاور والوں سے ایسی کونسی گناہ ہوئی ہے کہ جس کے پاداش میں پشاور والوں کو سزا مل رہا ہے۔مطالعہ کی عادت بہت ہی اچھی عادت ہے،مطالعہ کی عادت کو اپنانا چاہئے میں جب ابھی راستے میں آرہا تھا تو ایک شاعر’’ضمیر جعفری‘‘جوکہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ فوجی بھی ہے،کی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا،چند اشعار میرے نظر سے گذرے،میں نے سوچاکہ یہ اشعار سوشل میڈیا کنونشن کے نوجوانوں سے عرض کروں گا۔
مولوی اونٹ پہ جائے ہمیں منظور مگر
مولوی کار چلائے ہمیں منظور نہیں
وہ نمازیں توپڑھائے ہمیں منظور مگر
پارلیمنٹ میں آئے تو ہمیں منظور نہیں
حلوہ خیرات کا کھائے تو ہمارا جی خوش
حلوہ خود گھر میں پکائے تو ہمیں منظور نہیں
تو اب جب کہ آپ لوگون نے یہ حلوہ خود سوشل میڈیا پر پکھانی شروع کی ہے،تو یہ بہت سارے لوگوں سے برداشت نہیں ہو رہا،آپ نے بھی اپنے قائد کی طرح شائستگی کی دامن کو نہیں چھوڑنا،جس طرح آپ کا قائد دلیل کے ساتھ بات کرتا ہے تو بالکل اسی طرح آپ بھی دلیل کے ساتھ بات کریں اورآپ نے صرف اپنی جماعت کی طرف داری نہیں کرنی ہے بلکہ آپ نے مملکت خدداداد پاکستان کی طرف داری سوشل میڈیا پر کرنی ہے اسی کے ساتھ آپ کو مقبولیت نصیب ہوگا اور کامیابی وکامرانی قدم بوسی کرئے گی۔مہمان مقررین میں سے ایک بے باک لکھاری محترم جناب رحیم اللہ یوسفزئی بھی ہے انہوں نے سٹیج سنبھالتے ہوئے عجیب انکشافات کی ایک ڈھیر لگادی،کہا کہ آج بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خوب عروج پرہیں،اخبارات کے نیوز اور کالمز ومضامین ریکارڈ کا حصہ بنتے ہیں ہاں سوشل میڈیا کی کامیابی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا،مگر سوشل میڈیا کا کام نوجوانوں کاہے،اب جبکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔2002میں مشرف نے پرائیوٹ TVکو اجازت دیدی،تو اس وقت بہت زیادہ برتیاں ہوگئیں،صحافی حضرات میدان میں آگئے،اس زامانے میں پاکستان میں صحافیوں کی تعداد2000تھی اور صحافیوں کی اوسطاً عمر 47سال تھا، اب صحافیوں کی تعداد18000ہے اور صحافیوں کی اوسطاً عمر23سال ہے۔پاکستان کی آبادی کو اگر میڈیا دیکھنے کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے کہ پاکستان کی آبادی سوفیصدہے تو ان میں سے21فیصد لوگ ٹاک شوز دیکھتے ہیں،70فیصد لوگ نیوز جبکہ باقی لوگ ڈرامے وغیرہ دیکھتے ہیں،اب اگر انٹر نیٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان میں تقریبا45میلین لوگ انٹر نیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ پاکستان کی آبادی کا22فیصد ہے اور 35میلین فعال سوشل میڈیا کے استعمال کرنے والے ہیں تو یہ پاکستان کی آبادی کا 18فیصد حصہ ہے،ان سب معلومات کو مد نظر رکھ کر اگر آپ سوشل میڈیا کا صحیح استعمال کریں گے تو ایک ہی کلک کے ساتھ آپ اپنا ایک پیغام 45میلین لوگوں کے ساتھ شئیر کرسکتے ہیں اور آپ کے جماعت’’جمعیت علمائے اسلام پاکستان‘‘کے ساتھ افرادی قوت بہت زیادہ ہے،آپ بہت کم خرچے پر بڑے بڑے جلسے کر سکتے ہیں،آپ میں ایک ٹیلنٹ ہے،اسی ٹیلنٹ کو بروے کار لاکر صحیح اور مثبت طریقے سے سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔
آخر میں جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے صدر اور قائد ،قائد محترم جناب حضرت مولانا فضل الرحمٰن حفظہ اللہ کو خطاب کے لیے مدعو کیا گیا،خطاب سے پہلے قائد محترم کے ہاتھوں میڈیا ایکسپرٹ گروپ کو انعامات(شیلڈ) سے نوازا گیا۔ان میں سے چند تھے،محترم جناب حاجی عبدالجلیل جان،عطاء الرحمٰن روغانی،محبوب حیدری،عبدالحمید لالا،مولانا مجیب اللہ ساحل،خالد جان داوڑ،مولانا خلیل احمد ہاشمی،فواد خان،مولانا عبدالواحدفریدی،صداقت خان،حسین احمد شیر،نعمان خان،امین اللہ فاروقی اور علامہ محمد صدیق۔تقسیم انعامات کے بعد قائد جمعیت کا بیان شروع ہوا،ان میں سے چند باتیں اپنے قارئین کے گوش گزار کروں گا۔
آج اس نئی دنیا میں عالمی اسٹیبلشمنٹ وہ ایک دوسرا تاثر دے رہی ہیں مدارس سے وابستہ علوم سے وابستہ کہ یہ تو بڑے انتہا پسند ہے شدت پسند دہشتگرد یہ پیدا کررہی ہے اب داڑھی پگڑی ولا جہاں جائے گا ایک خطرناک نظر سے دیکھا جائے گا یہ تاثر پیدا کرنا اس میں بہت بڑا رول ہوتا ہے ہماری ریاستی اسٹیبشلمنٹ کا کہ وہ اپنے وسائل ذرائع ایک تاثر کو عام کرنے میں کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
آپ خود دیکھیں ہمارے ہی ماحول میں مدرسے کے بارے میں یہ تاثر، لیکن بہرحال ہمارا معاشرہ ایک مسلمان معاشرہ ہے وہ دین سے وابستہ ہے ایسا دین ان کے لیے قبول ہے جو ان کے سسٹم کو چیلنج نہ کرے ان کے نظام کو چیلنج نہ کرے چنانچہ اگر تبلیغی جماعتوں سے آپ وابستہ ہوجاتے ہیں تو ہمارے جرنیل بھی ریٹائر ہوکے تبلیغی جماعت میں جاتے ہیں ہمارے بڑے بیوروکریٹس بھی جاتے ہیں ہمارے جاگیر دار بھی جاتے ہیں تاثر بنا دیا گیا ہے کہ دین کی جماعت یہی ہے اب ہمیں تو ان کی چھ باتوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہم تو سمجھتے ہیں کہ وہ دین کی طرف ترغیب دلانے کیلئے ایک تحریک ہے ہماری بھی ہے اکابرین کی بھی،لیکن ہمارے ریاستی اداروں کی طرف سے ایک جماعت پر اس قسم کا ایک تاثر دے دینا اور اگر آپ ملک میں نظام کی بات کرتے ہیں جمیعت علماء قائم کرتے ہیں تو پھر جمیعت علماء سیاسی جماعت ہے مسلم لیگ ،پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور ان میں کیا فرق ہے اس قسم کا تاثر قائم کرنا اس میں باقاعدہ ہماری ریاستی اداروں کا کردار ہوا کرتا ہے۔ لیکن میرے نوجوانوں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہی وہ مشکل ہے جس کا مقابلہ آپ کررہے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہیے اور آپ جس محفل میں جائے آپ بڑے خود اعتمادی کیساتھ یہ بات کرتے چلے جائے برصغیر کی سب سے قدیم سیاسی جماعت اگر ہے تو جمیعت علماء اسلام ہے۔انگریز کے خلاف آزادی کیلئے جہاد کی قربانیاں اس ماضی میں اور اس تاریخ میں آپ کی کوئی نظیر نہیں ہے،شہدائے بالاکوٹ سے لے کر شاملی میدان اور 1857 کے غدر تک ،خلافت کی تحریک سے گزرتے ہوئے جمیعت علماء کے قیام تک، اور آج تک جو تسلسل ہے دو، تین صدیوں پر مشتمل جدوجہد برصغیر کے تاریخ میں آپ کے کردار کے علاوہ اور کس کا کردار ہے کون ہے جو آپ کے مقابلے میں سیاست کی بات کرسکتا ہے ۔آپ ہی اس برصغیر کی سیاست کے وارث ہے ،یہ تو بعد میں اسٹیبلشمنٹ نے بنائی سیاستیں۔ کانگرس کہاں سے نکل گئی مسلم لیگ کہاں سے بن گئی اور کیسے بنی۔اور یہ سارے سلسلے آگے بڑھتے چلے گئے اس بات کو مد نظر رکھنا کہ یہ آپ کی جو سیاست ہے برصغیر کی سیاست کی بنیاد اور اساس ہے سب سے قدیم سیاست ہے اور اس برصغیر کی آزادی کیلئے جدوجہد جو 1803 سے حضرت شاہ ولی اللہ کے فتوے ’’کہ ہندوستان دارالحرب ہے اور جہاد ہم پر فرض ہوچکا ہے ‘‘اس دن سے آپ کی پولیٹکس شروع ہو گئی اور اس کے پشت پر جو نظریہ دیا ہے وہ آپ کو شاہ ولی اللہ نے دیا ہے ہماری حدیث کی سند بھی شاہ ولی اللہ سے گزر کر جاتی ہے صحاح ستہ تک اور ہماری سیاست کا دروازہ بھی برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ ہیں۔کون ہے جو اس تاریخ کا حامل ہے کون ہے جو اس ماضی کا حامل ہے ۔ کون ہے جو اس نظریے کا حامل ہے۔لیکن ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ نے آپ کے بارے میں ایک کمزور تاثر تشکیل دینے میں کتنی محنت کی ہو گی میں نے اپنے بزرگوں سے سنا یے کہ برصغیر میں اگر علماء کی ہمت کسی نے باندھی ہے ،علماء کو اسکا حقیقی مقام اور اس کا احساس دلانے میں کسی کا کردار ہوسکتا ہے تو ان حالات میں تو وہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا رہا ہے۔ اور پاکستان کے اس ستر سالوں میں اگر علماء کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا اس کے سیاسی شعور کو بلندیوں تک لے جانا اور دوسروں کے مساوی ایک سیاسی کردار کا احساس کسی نے دلایا ہے تو وہ مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ ہے ہم نے کتنی مشکل سے ہم نے اس ملک میں یہ کام کیا ہے ۔