Kallar Syedan; M Naseer Zinda’s fifth collection of poems “My Second Existence” is published
محمد نصیر زندہ کا پانچواں شعری مجموعہ ”میرا دوسرا وجود“ بڑی مہارات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے شائع ہو گیا
پنڈبینسو (نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم، ارسلان بھٹی,02 اکتوبر2021ء)۔شاعری وصف پیمبری ہے، اپنی ذات کا وجدان پائے بغیر قافیہ کاری تو کی جا سکتی ہے، مگر بلند پایہ مضمون، یا شعری جمالیات سے بھر پور کوئی مصرع نہیں کہا جا سکتا۔ کوئی تخلیق کار اپنی ذات کا ہی سراغ پا لے تو اسے کامیابی کی دلیل کہا جائے گا مگر محمد نصیر زندہ، جنھوں نے اپنے شعری مجموعہ کا نام ”میرا دوسرا وجود“ رکھا ہے، نے اپنی ذات کا وجدان پا لیا ہے، انھوں نے بڑی مہارت سے اپنے اندر کے شاعر کو پورے قدو قامت کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے۔ محمد نصیر زندہ کا تعلق تھوہا خالصہ تحصیل کہوٹہ سے ہے۔ موصوف نے محکمہ ایجوکیشن میں بطورِ سینئر مدرس 31سال اپنی خدمات سرانجام دیں اور سروس کا زیادہ حصہ تحصیل کلرسیداں میں گزارنے کے بعد اب کلرسیداں شہر میں رہائش پذیر ہیں۔ محمد نصیر زندہ کا نام خطہ پوٹھوار کے عظیم مصنفات کی فہرست میں شامل ہے۔ ”میرا دوسرا وجود“ محمد نصیر زندہ کا پانچواں شعری مجموعہ ہے۔ محمد نصیر زندہ پاکستان ہی نہیں بلکہ بر صغیر میں رباعی کے چند گنے چنے اساتذہ میں سے ایک ہیں، جن کے فن اور قادر الکلامی پر اساتذہ ء سخن انھیں سند کلام دے چکے ہیں۔محمد نصیر زندہ کی رباعیات میں فقیر انہجلال بھی ہے او شاعرانہ ر جمال بھی۔ وہ اپنی رباعی میں بلند مضامین، نئے خیالات کو تیکھے اور تیز دھار استعاراتی و تشبیہاتی سامان سے سجانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اپنے فکری وجدان سے آشنا اس بندہ ء خدا نے فارسی، عربی اور اردو اساتذہ کے کلاسیکی کلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور پھر اپنی ریاضت کو فن کے چرخے پر کاتنا شروع کر دیا۔ ”میرا دوسرا وجود“ سے ما قبل محمد نصیر زندہ رباعی پر ”نقش تحیر، عرش سخن، نقد آرزو، اور ہل من ناصر ینصرنا“ لکھ کر صاحبان علم و ہنر سے سند کلام لے چکے ہیں۔ اس کتاب میں زندہ کی غزلیں بھی شامل ہیں، جو انھوں نے پیر صاحب آف گولڑہ شریف سید شمس گیلانی کے کہنے پر کہی ہیں۔ محمد نصیر زندہ رباعی کا وہ جادوئی شاعر ہے جس کا فکری پرندہ روح الامین کا ہم سفر رہتا ہے۔ زندہ نے کربلا کو جس زاویہ فکر سے دیکھا اور عالم انسانیت کو کربلائی ضرورت کا احساس دلایا اس کی تعریف نہ کرنا ظلم کے مترادف ہے۔ کربلائی استعارے اور کربلا کے حوالے سے زندہ کی رباعیات کا اسلوب منفرد اور اثر پذیر ہے۔ عروضی اعتبار سے رباعی مشکل صنف سخن ہے، جس کے باعث اردو اساتذہ اس سے گریزاں رہے ہیں۔ غالب جیسے استاد نے رباعی کے تیسرے مصرع میں ٹھوکر کھائی،۔ علامہ اقبال کی جن دو بیتیوں کو رباعیات کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے وہ اپنی ساخت اور مضامین کے اعتبار سے رباعیات نہیں بلکہ دو بیتیاں ہیں۔رباعیات میں فنی و عروضی مہارت ہی کافی نہیں بلکہ خیال آفرینی اور سلاست و روانی کو برقرار رکھنا ہی اصل شاعری ہے۔ اگر رباعی شعری جمال سے آراستہ نہیں بلکہ صرف عروضی سانچے میں ڈھال کر تیار کی گئی ہے تو الفاظ اپنے اوپر ہونے والے جبر کا اظہار کرتے نظر آئیں گے۔ اردو رباعی کا مجموعی میلان پند و نصائح، حکمت اور وحد الوجودی مضامین ہی رہے ہیں۔ محمد نصیر زندہ بھی ان ہی مضامین کو نئے زاویے اور نئے پہلووں سے نہ صرف آشکار کر رہے ہیں بلکہ نئے مضامین بھی پیدا کیے۔آدم ابھی کربلا کی مٹی میں ہے، یہ زاویہ ء فکر بالکل نیا، اور اچھوتا ہے مگر ایمان و حیرت افروز بھی ہے۔ ایسا خیال بغیر عطا کے ممکن نہیں۔زندہ پر شہر علم در کی ایسی ایسی عطا ہے کہ اس پر وہ جتنا بھی شکر کریں کم ہی کم ہے۔ حضرت اصغر علیہ السلام، لشکر امام حسین علیہ السلام کے سب سے کم سن سپاہی ہیں، آپ کی شہادت کو ایسا خراج شاید ہی اردو ادب میں ملے، اس رباعی کی تعریف سے الفاظ قاصر ہیں۔جن خیالات اور مضامین کو محمد نصیر زندہ قلم بند کر رہے ہیں اس کے لیے ریاضت ہی نہیں وسیع مطالعہ اور خلعت فقری پہننا بھی ضروری ہے کیونکہ رباعی کا مزاج اور پیمانہ ہی ایسا ہے کہ اس میں صوفیانہ اور آفاقی مضامین ہی سماتے ہیں۔ اردو ادب میں بہت کم رباعیات ایسی ہیں جو عشقیہ یا غزل کے مضامین دامن گیر کیے ہوئے ہوں اور اپنا شعری جمال بھی سنبھال پائی ہوں۔جدید رباعی کا کوزہ گر اپنے فن کے چاک پر بلند مضامین و خیال کے رباعیانہ ظروف اٹھائے صدائیں دے رہا ہے، لیکن خریدار کم ہیں۔ اس خوش نصیب شاعر کی کم نصیبی یہ ہے کہ جب یہ اپنی جنس ہنر بازار لایا تو خریدار کی دلچسپی اعلیٰ مضامین و خیال کے بجائے انتہائی سطحی ادبی گرد و غبار تک رہ گئی ہے۔ اس ادبی دھند اور غبار میں ادبی خریدار کی آنکھ غبار کے اس پار نہیں دیکھ پا رہی ہے۔ اسے ہر طرف صرف ادبی گرد، ہی نظر آتی ہے اور گرد کو ہی خریدار اپنے ذوق کا سائبان سمجھنے لگا ہے۔ مجھے مگر یقین ہے کہ یہ گرد بہت جلد بیٹھ جائے گی۔
Pind Bainso (Pothwar.com, Arsalan Bhatti, 02 October 2021). Poetry is an attribute of Pembri. Muhammad Naseer Zinda, who has named his collection of poems “My Second Existence”, which has been published. Muhammad Naseer Zinda belongs to Thoha Khalsa Tehsil Kahuta. He served as a senior teacher in the Department of Education for 31 years and after spending most of his service in Tehsil Kallar Syedan, he now resides in Kallar Syedan city. Muhammad Naseer Zinda’s name is included in the list of great writers of Pothwar region. “My Second Existence” is the fifth collection of poetry by Muhammad Naseer Zinda. Mohammad Naseer Zinda is one of the few selected teachers of Rubaiyat not only in Pakistan but also in the subcontinent.
سلام ٹیچرز ڈے سیمینار 5 اکتوبر 2021 دن دس تا ایک بجے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نلہ مسلماناں جنوبی میں منعقد ہو رہا ہے
Salaam Teachers Day Seminar is being held on 5th October 2021 at 10 to 1 pm at Government Girls High School Nala Musliman South
پنڈبینسو (نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم، ارسلان بھٹی,02 اکتوبر2021ء)۔سماجی تنظیم لوکل ایجوکیشنل اینڈ ڈیولپمنٹل آرگنائزیشن (لیڈو) یوسی منیاندہ کے زیر اہتمام سلام ٹیچرز ڈے سیمینار 5 اکتوبر 2021 دن دس تا ایک بجے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نلہ مسلماناں جنوبی تحصیل کلرسیداں میں منعقد ہو رہا ہے جس میں حاضر و ریٹائرڈ اساتذہ کرام کی خدمات پر انھیں خراجِ تحسین پیش کیا جائے گا۔ چیئرمین لیڈو سید مخدوم علی شاہ نے تمام اساتذہ اور علاقہ کے نمائندگان سے تقریب میں شرکت کرنے کی درخواست کی ہے۔