Kallar Syedan; Floods, land sliding and heavy rainfall causing serious problems in Pothwar region
شدید بارشوں کے پیشِ نظر خطہ پوٹھوار کے بڑھتے مسائل
پنڈبینسو(نمائندہ پوٹھوار ڈاٹ کوم، ارسلان بھٹی)—ملک میں شدید بارشوں کی لہر نے ہم سب لوگوں کو پریشان کردیابطور خاص خطہ پوٹھوہار کے پہاڑی علاقوں، ندی نالوں کے قریب بسنے والے غریب و پسماندہ لوگوں کو لینڈ سلائیڈنگ، نالوں میں طغیانی کی وجہ سے راستے بند ہونے اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جانے پر نہ صرف بارش کے چند دنوں تک بلکہ اگلے کئی ماہ و سال تک کئی طرح کے مسائل، مصائب اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے یہ مسائل کسی ایک علاقے، گاؤں، بستی یا آبادی کے نہیں بلکہ تقریباً پورا ملک ہی اس قسم کے مسائل کا سامنا کرتا ہے لیکنیونین کونسل منیاندہ، تحصیل کلر سیداں کا علاقہ بناہل پتن منگلا ڈیم اپ ریزنگ سکیم (2013 سے لے کر آج تک ہر سال) کے اثرات کی وجہ سے بری طرح مسائل کا شکار ہوتا ہے ہر سال راستے چھ ماہ تک(اپریل تا اکتوبر) پانی میں ڈوب جاتے ہیں، اور اکتوبر تا مارچ پانی اتر جانے کے باوجود کیچڑ، دلدل اور کچی مٹی کی تہہ جم جانے کی وجہ سے سفری تقاضے پورے کرنے کے قابل نہیں رہتے.بناہل پتن میں دو مقامات پر یہی صورت حال ہوتی ہے. جس کی وجہ سے قاسم آباد، بستی سیداں، حویلیاں، ٹپ، کھنڈور، گلہ راجگان، نکہ، پڑاٹی، آڑا،پہنجڑ، ننگلہ، ڈنب وغیرہ پر مشتمل آبادیوں کے لوگ طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہونے پر مجبور ہوتے ہیں…. تیسرا مقام کڑاتھہ ہے، کڑاتھہ کے لوگوں کا زمینی راستہ ورابطہ مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے اور بے چارے غریب و محروم لوگوں کو کشتیوں پر سفر کرنا پڑتا ہے.. اس وجہ سے وہاں کے لوگ کتنے مشکل میں پڑ جاتے ہیں انہیں بیان کرنا محال ہے، یہاں تک کہ معصوم بچے تنہا کشتیوں کے ذریعے سکول جانے پر مجبور ہوتے ہیں.کلر سیداں ہی میں بالیماہ اور سنگریلا کے لوگ بھی ڈیم، برسات کے مسائل اور راستے نہ ہونے کی وجہ سے مشکل ترین حالات سے دوچار ہونے پر مجبور ہیں.حالیہ بارشوں کی وجہ سے کھڈ تا بناہل روڈ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور بعض مقامات پر سلائیڈنگ کی وجہ سے اس پیرس تک پہنچنے کا راستہ و رابطہ بھی منقطع ہو سکتا ہے.المیہ ہے کہ متاثرین منگلا ڈیم پوٹھوہار ریجن کے ساتھ روا رکھے گئے ظالمانہ، امتیازی اور دانستہ استحصال و نا انصافی پر مبنی اس سلوک کا سلسلہ ختم ہونے نہیں پارہا… 2001میں یہ (اپریزنگ پروجیکٹ) شروع ہوا…تیرہ چودہ سال بعد 2013 میں پہلی مرتبہ منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کیا گیا… 2013 تک یہاں کوئی سروے تک نہیں ہوا… حالانکہ بناہل کے موضع کی 1770 کنال اراضی، 68 کے لگ بھگ گھرانے اور ان کے دو سو سے زائد رہائشی مکانات، مساجد، دکانیں، سکول، سڑکیں، درخت و باغات (جو بعد میں زیر آب آئے) کے حوالے سے کوئی سرکاری پیش رفت یا حل نہ سوچا گیا اور نہ ہی عمل میں لایا گیا… حالانکہ عوامی نمائندگان، سرکاری دفاتر اور ذمہ داران کو بار بار اس مسئلے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی….. 2013 میں جب مکانات ڈوب گئے تو پھر ہمارے ہمدرد، مہربان اور عوام دوست نمائندے، تحصیلی، ضلعی اور منگلا ڈیم انتظامیہ کے اصحابِ اختیار موقع پر تشریف لائے… لوگوں کی مدد امداد اور مسائل کے حل کے وعدے اور وفا کے دعوے ہوئے… گیارہ (11) خاندان تو کمال شفقت، مہربانی اور انصاف کیا گیا اور ان کے مکانات کے تخمینے نہیں لگائے گئے، جو مسلسل دوڑ دھوپ کے باوجود آج تک اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں 2013 میں تھے… اور جنہیں مکانات و عمارات کے معاوضے (کلر سیداں اور کہوٹہ کے بار بار چکر لگانے کے بعد) دیے گئے وہ بھی انتہائی کم اور زمینی حقائق سے کسی طور بھی مطابقت نہیں رکھتے… یعنی انتہائی کم. جیسے پانچ پکے کمروں کا معاوضہ اڑھائی یا تین لاکھ روپے… اسی طرح 23 ہزار روپے فی کنال زمین کا معاوضہ… متاثرہ سڑکوں کی بحالی قانوناً منگلا ڈیم کے ذمہ ہے… نہ مقامی انتظامیہ، نہ منگلا ڈیم انتظامیہ اور نہ ہی حکومتی و عوامی نمائندگان و ادارے اس کا آج تک کوئی حل نکال پائے ہیں…. حالانکہ ہم متاثرین بار بار ہر دروازے پر دستک دیتے چلے آرہے ہیں.اب حالیہ ظوفانی بارشوں اور منگلا جھیل میں پانی کی سطح کی بلندی سے بناہل پتن کی درج بالا جملہ آبادیاں بطور خاص ڈھوک اعوان کے رہائشی بری طرح متاثر ہوئے ہیں….. ایک لاکھ سے دو لاکھ تک تین چار مکانات کا اور 23 ہزار روپے فی کنال زمین (اپنی تمام تر ملکیت) کی شرح سے معاوضہ وصول کر کے وہاں سے اجڑنے اور بیگھر ہونے والا شخص کہاں اور کیسے جاکر اپنا گھر بنا سکے گا؟؟؟یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ابھی تک وہیں آباد ہیں اور پرندوں کی طرح پانی گھروں میں پہنچنے پر اپنے مکانوں کی چھتوں پر چلے جاتے ہیں اور پانی اتر جانے پر واپس اپنے گھونسلے میں آ بیٹھتے ہیں…. آج ڈھوک اعوان کے یہ لوگ، ساجد، شکیل سمیت دریا کے کنارے آباد دکاندار، حویلیاں، بستی سیداں، پہنجڑ، آڑا،گلہ راجگاں جیسی بستیوں کے لوگ انتہائی مشکل و مصیبت میں ہیں…. اللہ نہ کرے اگر شمالی علاقوں (آزاد کشمیر کے سنٹرل و شمالی اضلاع یا وہ علاقے جن کا پانی دریائے جہلم میں آتا ہے) میں مزید بارشیں ہوئیں اور ستمبر 1992 جیسا سیلابی ریلا آیا تو (اپ ریزنگ کی وجہ سے) خاکم بدہن ان تمام بستیوں کو بہا لے جائے گا.حالانکہ انجمن متاثرین منگلا ڈیم کے پلیٹ فارم سے محسن پوٹھوہار جناب راجہ جہانگیر اختر صاحب کی قیادت میں کئی بار زبانی و تحریری عرضداشتیں پیش کی جا چکی ہیں اور ان تمام مسائل و خطرات کو انتظامیہ و حکومت کے نوٹس میں بار بار لایا جا چکا ہے.لیڈو یونین کونسل منیاندہ تحصیل کلر سیداں ڈاکٹر مخدوم علی سید، محمود حسین چودھری، راجہ زبیر احمد اور دیگر نے ایم این اے صداقت علی عباسی، ایم پی اے راجہ صغیر احمد اور خطہ پوٹھوار کے موجودہ حکومتی رہنماؤں سے ان مسائل پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے اپنی دورِ حکومت میں حل کرنے کی اپیل کی ہے۔