DailyNews

اس مشکل دور میں توانائی متبادل ذرائع پر انحصار کیا جائے تحریر . عبدالجبارخان دریشک

انسان ہمیشہ کھوج میں لگا رہتا اس نے اپنے اردگرد پائی جانے والی چیزوں کو اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال کر اپنے لیے آسائش کا سامان پیدا کیا ، آج ہم اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہر چیز ممکن ہو رہی ہے جبکہ ہر ناممکن چیز کو ممکن وہ لوگ بنا رہے ہیں جو ہمیشہ کھوج اور تحقیق میں لگے رہتے ہیں۔دنیا بھر میں توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ تیل ہے جس سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ حرکت کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف اسی تیل کی توانائی سے بجلی پیدا کر کے باقی انڈسٹریاں کا چلا کر ہم ملک باشندوں روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی گھریلو اشیاء و مشینیں چلا اپنے آسائش حاصل کر رہے ہیں۔ تیل جیسی دولت ہر ملک کے نصیب میں تو نہیں ہے لیکن جن کے پاس تو وہ اس سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ تیل کی آمدن سے کسی ملک کے زرمبادلہ میں آضافے سے اس کی معیشت مضبوط ہونے کے ساتھ خوشحالی کا ایک دور کا آغاز بھی ہوتا ہے پھر صحرا دنیا کے جدید شہروں تبدیل ہو کر دنیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ دوسری جو ممالک توانائی کا انحصار صرف تیل پر کرتےہیں وہ مہنگا تیل خرید کر اپنا زر مبادلہ دوسروں کے ہاتھ دے کر اپنی معیشت کو کمزور کر رہے ہیں۔ جیسے ہماری صورت حال ہے ہم تیل کے علاوہ بھی ضروریات کی تقریباً اشیاء امپورٹ کرنے پر مجبور ہیں اس لیے ہماری امپورٹ زیادہ ہیں اور ایکسپورٹ کم ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اوپر قرضوں کے بوجھ میں ہر آنے والے دن میں خوفناک آضافہ ہورہا ہے۔ یہی صورت حال گزشتہ کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہے جو بھی حکمران اقتدار میں آتے ہیں انہیں بس ملک چلانے کے لیے قرض درکار ہوتے ہیں قرض کی رقم سےہم ان ممالک کو وہی پیسہ دوبارہ امپورٹ شدہ اشیاء اور تیل کی خریداری کی مد میں واپس کر دیتے ہیں۔

دنیا میں بہت سارے ممالک اپنی ضرورت کی اشیاءامپورٹ کرنے کی بجائے ملکی پیدوار پر انحصار کر رہے ہیں ، جبکہ وہ زیادہ تیل خرید کرنے کی بجائے توانائی دیگر ذرائع سے حاصل کر کے اپنا زرمبادلہ بچا رہے ہیں۔ یہ ممالک زیادہ تر ضروریات متبادل ایندھن سے پوری کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے برازیل کی مثال دنیا میں سب کے سامنے ہے جہاں 70 سے 80 فیصد گاڑیاں 148فلیکس فیول147 پر چلتی ہیں برازیل کے لوگ پٹرول پمپ پر یہ دیکھنے آتے ہیں کہ آج پٹرول سستا ہے یا بائیوایتھنال، وہ لوگ پھر اسی حساب سے ان میں سے کسی متبادل ایندھن کو خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ برازیل بائیو ایتھنال ایندھن اپنے زرعی فصلے سے حاصل کررہا ہے جس میں گنا اور مالٹے کا چھلکا شامل ہے برازیل دنیا میں گنے کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے۔ 2015 میں ایک پاکستانی نڑاد سائنسدان ڈاکٹر الماس تاج اعوان جو دس سال سے زیادہ عرصے سے برازیل میں مقیم ہیں نے پاکستانی گاڑیوں کیلئے بائیو ایتھنال ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا کہا تھا۔ انہوں نے اس وقت بتایا تھا چونکہ پاکستان میں ابھی یہ ٹیکنالوجی متعارف نہیں ہوئی اس لیے اس کی افادیت سے عام آدمی نابلد ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ہر قسم کے زرعی فضلے سے کوئی نہ کوئی کارآمد چیز بن سکتی ہے شرط یہ ہے کہ تحقیق کی جائے۔ جبکہ مزید کہنا تھا کہ برازیل پوری دنیا میں اورنج کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اس لیے وہ ایتھنال ایندھن بنا کر اپنی گاڑیاں چلا رہے ہیں۔

ایتھنال ایندھن کے بارے ایک تازہ خبر پڑوسی ملک بھارت سے ہے۔ بھارت میں عنقریب ایتھنال ایندھن پر موٹر سائیکل اور رکشے دوڑنے والے ہیں۔ بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈ کری نے گزشتہ روز اپنی پارلیمنٹ کو بتایا کہ متبادل ایندھن سے چلنے والی موٹر سائیکلوں اور آٹو رکشوں کی تیاری بڑے پیمانے پر شروع ہو چکی ہے جس کا انہوں نے خود معائنہ بھی کیا۔ یہ گاڑیاں ایتھنال ایندھن اور دیگر متبادل توانائی سے چلائی جائیں گی، جبکہ یہ گاڑیاں بجاج کمپنی نے تیار کررہی ہے ان کا کہنا تھا ابھی انہیں صارفین کیلئے مارکیٹ میں پیش نہیں کیا گیا ہے جن کو جلد فروخت کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ گڈ کری نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں ایتھنال کو متبادل ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پٹرول اور ڈیز ل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر مستقبل میں ایتھنال کو فروغ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بھارت میں رواں سال یعنی فروری 2018 میں ایک ایسی موٹر سائیکل بھی تیار کر لی گئی تھی جو ایتھنال ایندھن سے چلتی ہے۔ بھارت میں الیکٹرک گاڑیوں پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے جن کو بیڑی کی مدد سے چلایا جائے گا اور 2030 تک بھارت کی سٹرکوں پر الیکٹرک گاڑیوں کے ساتھ ایتھنال ایندھن سے چلنے والی گاڑیاں دوڑ رہی ہوں گی۔ اس کے علاوہ دنیا کے بہت سارے ممالک اپنی ٹرانسپورٹ کو تیل کی بجائے الیکٹرک انرجی پر تبدیل کر رہے ہیں۔ اسی طرح بجلی کی پیدوار مہنگے فرنس آئل کی بجائے ایٹمی ٹیکنالوجی ، پن ، ونڈ ، اور سلولر انرجی سے حاصل کر رہے ہیں۔ 

پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق پانچ کروڑ ٹن سے زیادہ گنے کی پیداوار ہوتی ہے۔ ملک میں متعدد شوگر انڈسٹریز سرگرعمل ہے جو کریشنگ سیزن میں روزانہ بڑی تعداد میں حیاتی فضلے کا اخراج کرتی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے سوائے چند انڈسٹریز کے کوئی بھی ایتھنال تیار کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا۔الکوحل یا ایتھنال کو بطور ایندھن استعمال کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ جبکہ ہمارے پاس ایتھنال بنانے کا مٹیریل موجود ہے تو ہمیں اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ہم اس وقت ملکی ضروریات کا بامشکل تیس فیصد تیل خود نکال رہے ہیں جبکہ باقی تیل امپورٹ کر کے اپنے ہی زرمبادلہ میں کمی لا رہے ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری ناقص پالیسی کی وجہ سے ہمارے گیس کے ذخائر بھی ختم ہو کر رہے گئے ہیں۔ اب ہم ایل این جی درآمد کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ہمیں اس مشکل دور میں بجائے تیل خریدنے کے توانائی متبادل ذرائع پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں ماہرین کی خدمات حاصل کر کے متبادل ذرائع حاصل کرنے کے لیے تحقیق کے شعبہ پر روز دینا ہو گا تاکہ اس کا کوئی بہتر حل نکالا جا سکے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی تحقیق کے شعبے میں وسعت دینے کا کہا تھا جبکہ یہی بات پاکستان تحریک انصاف کے منشور میں بھی شامل ہے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ تیل کے متبادل ذرائع استعمال کرنے کے بارے عملی کام شروع کیا جائے، گاڑیوں کا ایندھن ہو یا بجلی پیدا کرنے کے ذرائع انہیں تیل کی مہنگی لاگت سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ ہمارا امپورٹ کی مد میں زر مبادلہ بچ جائے۔ یہاں اپنے ہم وطنوں سے بھی ایپل ہے ملک اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے کفایت شعاری کے ساتھ ” میڈ ان پاکستان “پر انحصار کریں 

Picture of the day  11/10/2018          

Woking peace gardens for the memorial of Muslim soldiers in World war

Show More

Related Articles

Back to top button