انسان خسارے میں ہے,تحریر:۔ ملک شفقت اللہ
سورہ العصر کا مفہوم ہے کہ146146 اللہ عصر کے وقت کی قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ انسان خسارے میں ہے، ماسوائے جو لوگ ایمان لائے، نیک اعمال کئے ، حق کی دعوت دی ، صبر کیا اور صبر کی دعوت دی145145۔ یہاں اللہ تعالیٰ کامیابی کی چار نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو لوگ یہ اعمال کریں گے وہ کامیاب ہوں گے اور جو اس سے انحراف کرتے ہیں ، ایمان نہیں لاتے، اچھے اعمال نہیں کرتے لوگوں کو حق کی طرف نہیں بلاتے ، صبر و استقامت کے ساتھ پختہ ایمانی کا ثبوت نہیں دیتے وہ شیطان کے ساتھی ہیں اور بے شک شیطان کو ہی دنیا و آخرت میں خسارہ ہو گا۔ یہ سورۃ معاشرت ، سماجیت ، سیاست نیز زندگی میں مثالی بننے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اس میں کوئی ابہامنہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں صرف فائدہ ہے نقصان نہیں ہے ۔ جیسے دین اسلام انسانیت کی پاسداری کو بنیادی ترجیح دیتا ہے چاہے وہ آپ کی ذاتی زندگی میں ہو یا بات عالمی سماج کی ، اس میں حقوق العباد کو جس طرح سے واضح کر دیا گیا ہے اور اس کے بارے میں جس قدر سخت احکامات دیئے گئے ہیں اس سے بڑھ کر وضاحت کو ئی تہذیب ، ثقافت یا مذہب نہیں کرتی۔ ایمان کا تقاضا ہی یہی ہے کہ مصلحت ، مفاہمت اور خوش روی سے معاشرے میں مثالی زندگی گزاری جائے جس میں کسی ذی روح کو آپ کے وجود سے ضرر نہ پہنچے۔ اور اس کا واضح اسوہ حسنہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی ذات ہے جنہوں نے فتح مکہ کے موقع پر اتنی عظیم مثال قائم کی کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ کون شخص ہے جو اپنے لخت جگر ، اپنے پیاروں کے قاتلوں کو اس وقت بھی معاف کر دے جب وہ قصاص کی ہمت بھی رکھتا ہو اور حیثیت بھی ، لیکن ایمان کا مطلب ہی یہی ہے کہ خوفِ خد ا سے دل لبریز ہو ۔ انسان سوچتا ہے کہ میرے پاس آج جو طاقت اور ہمت ، حیثیت موجود ہے یہ سب اللہ کی دین ہے اور وہ قادر ہے اس بات پر بھی کہ اگر اس نے دی ہے تو وہ لے بھی سکتا ہے ۔اگر اس کو یوں سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے ایسی بڑی اور سپر نعمت ہے جو انسان کا دل نرم رکھتی ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جس انسان کا دل نرم ہووہ کسی کو دکھ پہنچانا تو دور کسی کا دکھ برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اس طرح اعمال صالح خود ہی سرزد ہونا شروع ہو جاتے ہیں اس کیلئے انسان کو خاص تگ و دو کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ یہ کامیابی کی دوسری سیڑھی ہے ۔ ہمیں یہاں یہ سوچنا ہے کہ نیک و صالح اعمال کیا ہیں ؟ یہ اعمال صرف حقوق اللہ تک ہی محدود نہیں بلکہ انسانیت کی وسعتوں کو اپنے دائرہ میں سمیٹے ہوئے ہے ۔ اگر ہم اس کو کم ترین الفاظ میں سمیٹنا چاہیں تو 146146احسان 145145 اور 146146 اخلاق 145145 کے الفاظ سے میں بیان کرنا چاہوں گا ۔اللہ تعالیٰ کو احسان کرنا بہت پسند ہے اور اس کی صفات میں سے ایک صفت بھی ہے ۔ احسان سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھائی کرنا ، مصیبت میں ان کے کام آنا ، اگر اللہ نے آپ کو استطاعت دے رکھی ہے تو ہمسایوں اور رشتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھنا ، صدقے سے یتیموں ، مسکینوں اور بیواؤں کی کفالت میں حصہ ملاتے رہنا ، صدقہ جاریہ کے طور پر کسی شخص یا معاشرے کیلئے ایسا کر دینا جس سے وہ پوری زندگی اور ان کے بعد کے لوگ بھی مستفید ہوتے رہیں ۔اور اخلاق یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ ، پاؤں اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں ، عفو و درگز ر کرنا ، دنیوی معاملات میں مصلحت اور مفاہمت سے کام لینا ، فہم و فراست اور دانش کے استعمال سے صلح جوئی کو بڑھاوا دینا ، سلام عام کرنا ، لوگوں کے ساتھ لطف و مہربانی کے ساتھ پیش آنا ، کسی کو حقیر نہ سمجھنا ، انتقام لینے کی عادت سے ہر ممکن بچنا ،غیبت نہ کرنا اور نا حق سازشوں سے کنارہ کرنا ،لوگوں کیلئے نفع بخش بننے کی کوشش کرنا ، ایثار و قربانی کا جذبہ رکھنا ، طمع ، لالچ و حرص سے گریز کرنا،نا جائز مسابقت یا عزت نفس کو مجروح نہ کرنا ایذا رسانی سے ہر ممکن بچنا،ایک دوسرے کے دکھ درد میں ان کا ساتھی بن جانا، عیب نہ نکالنا ، طعن و غیبت سے پرہیز کرنا، اگر وہ نصیحت طلب کریں تو اچھی نصیحت کرنا ، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا ۔اب ہم اگر اللہ کے نزدیک کامیاب لوگوں کی ان دو صفات کی فہم کریں تو ہمیں کہیں بھی ایسا درس نہیں ملتا جو انسان کو متشدد بنائے یا انسانیت کے خلاف ہو ۔ ایمان و اعمال صالح میں اگر ہم بنیادی عنصر کوئی پاتے ہیں تو وہ کچھ اور نہیں سوائے انسانیت کے ۔باقی دو عناصر میں حق کی دعوت ، صبر اور صبر کی دعوت دینا ہے ۔ کتنا پیارا دین ہے جو صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچنے کیلئے نہیں کہتا بلکہ حسد سے بچنے کاسبق دیتا ہے کہ اپنی کامیابیوں میں دوسروں کو بھی شامل کرو، حق کی طرف بلاؤ، اور حق کیا ہے؟ وہ ہے ایمان باللہ! اور ایمان کیا دیتا ہے انسان کو جو میں نے اوپر ذکر کیا صرف فائدہ ، کامیابیاں ، ترقیاں ، دنیا میں تو ملتی ہی ہیں لیکن آخرت میں جو ہمیشہ کیلئے ہے میں ہمیشہ کی کامیابیاں ۔صبر کرنا اور صبر کی ترغیب دینا اس سے بھی بڑا اجر ہے کیونکہ اس کا اجر کوئی انسان یا مخلوق آپ کو دنیا میں نہیں دیتی بلکہ خود اللہ دیتا ہے ۔ یہ تمام کامیابی کے راستے صرف عام آدمیوں کیلئے نہیں بلکہ ان لوگوں کیلئے بھی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ حکومتیں، اقتدار عطا کرتا ہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ اور ان کے ساتھی خلفاء راشدینؓ کو بھی اللہ تعالیٰ نے اقتدار دیا لیکن انہوں نے اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو سب سے افضل جانا اور انہیں قدر و منزلت اور عزت و مرتبے نہ صرف دنیا میں ملے بلکہ آخرت میں بھی ان کیلئے بڑا انعام ہے ۔ اقتدار کی ہوس انسان کو کس حد تک گرا دیتی ہے یہ ہمیں ہنوز کے حکمرانوں کی زندگی سے عبرت پکڑنے کا درس دیتی ہے ۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں ، نواز شریف کی سابقہ زندگی، دور اقتدار کی سازشیں او ر حالیہ زندگی کا ہی موازنہ کر لیں ،اس ے بڑھ کر عبرت حاصل کرنے کی واضح نشانی ہنوز کیلئے اور نہیں ہو سکتی ، یہ فیصلے کسی عدالت کے فیصلے نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فیصلے ہیں ۔