DailyNews

وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو گھر بھیجنے کی تیاریاں! مگر کس طرح؟ تحریر : راؤ عمران سلیمان

مجھے اس روز وزیراعظم عمران خان کی آواز میں لرزہ سادکھائی دیا جب انہوں نے کہا کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت رہے گی عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہینگے ۔اگر پنجاب حکومت میں “جب تک “کا معاملہ ہے تو یہ کہنا مشکل ہے کہ چھ ماہ ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ؟۔عمران خان نے یہ کیوں نہیں کہا کہ عثمان بزدار پانچ سال تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہینگے ؟۔ہندوستان کاایک لیڈر فرانس گیا مہمان نوازی کرنے والے فرانسیسی لیڈر نے ہندوستانی لیڈر سے پوچھا “آپ پیرس میں کوئی خاص چیز پسندکرینگے ” ہندوستانی لیڈر نے کہاکہ میں جنرل ڈیگال سے بہت متاثر ہوں اور میری خواہش ہے کہ میں پیرس آیاہوں تو ان سے ملاقات کروں، فرانسیسی لیڈر نے فوراً کہاکہ جناب ان کا تو انتقال ہوگیاہے ،ہندوستانی لیڈر نے کہاکہ تعجب ہے ہندوستان میں فرانس کے حالات بتاتے ہوئے مجھے یہ بات کسی نے نہیں بتائی ۔تو فرانسیسی لیڈر نے کہاکہ شاید ان لوگوں نے فرض کیا ہوگا کہ یہ بات آپ کو معلوم ہوگی اور ویسے بھی جنرل ڈیگال چار سال قبل مرچکے ہیں ” یہ ایک مثال ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاتاہے کہ ہر بات بتانے کی نہیں ہوتی ! بلکل اسی طرح عمران خان نے لاہور آمد پر میٖڈیا سے بات چیت میں وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے یہ بات کچھ اسی انداز میں بتائی کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت ہے ؟ یعنی انہیں خود بھی معلوم نہیں ہے کہ انہیں کتنی مدت کے لیے لایا گیاہے یا وہ عوام کے ووٹوں سے آئیں ہیں ۔ یعنی “گھبر سنگھ کو کچھ نہیں پتہ کہ پستول میں کتنی گولیاں ہیں ” دوسری جانب میرے ایک زرائع کے مطابق مسلم لیگ ن اپنا وزیراعلیٰ پنجاب لانے کے لیے اپنی حکمت عملی کو مرتب کرچکی ہے اور میرے خیال میں اس کام میں مسلم لیگ ن کو زیادہ مشکلات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑیگا کیونکہ ان کی جماعت پہلے ہی پنجاب اسمبلی میں قابل زکر حیثیت رکھتی ہے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر عثمان بزدار نے 186اور حمزہ شہباز نے159ووٹ لیے تھے ،پی ٹی آئی کے اپنے مطلوبہ ووٹ186تھے جن میں سے 10ووٹ مسلم لیگ ق کے تھے ،یعنی ان میں اگر چند آزاد ارکان کے ساتھ مسلم لیگ ق مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی ہوجاتی تو آج وزیراعلیٰ مسلم لیگ ن کا ہوتا ۔ جہاں تک پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنانے کا زکر ہے اس میں یہ بھی ہوسکتاہے کہ موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہی یہ دیکھ کرکہ تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ کی جانب سیاسی طوفان تیزی سے بڑھ رہاہے تو ایسے میں وہ بھی اپنی کشتی کا رخ تبدیل کرسکتے ہیں ،کیونکہ ایک مدت کے بعد چودھری برادران کے پاس کوئی سرکاری ذمہ داری آئی ہے ،اور مجھے یقین ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوتی تو چودھری برادران کبھی بھی پی ٹی آئی کے ساتھ نہ کھڑے ہوتے بلکہ مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہوتے جیسا کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے سفیر مشاہد حسین سید کو عندیہ دیا تھا ۔آج بھی مسلم لیگ ن کو تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے عدم اعتمادلانے کے لیے مختصر سے جدوجہد کرنا پڑیگی جس سے وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں مگر میری نظر میں یہ معاملہ اس لیے طویل ہورہاہے کہ اس عمل میں ایک تو میاں نوازشریف پر کیسز کا معاملہ تو دوسری جانب میاں شہباز شریف کی اچانک گرفتاری نے پنجاب کی سیاست کا رخ تبدیل کیاہواہے ،جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف عدم اعتماد کامعاملہ ہے اس میں مسلم لیگ ن کے کچھ سینیئر لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ فی الحال کچھ عرصے تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی کو عوام کے سامنے آنے دیں تاکہ عوام بھی ان سے بدضن ہو اس کے بعد یہ سارا عمل شروع کیا جائے ۔ایک طرف جہانگیر ترین کے طیارے میں آنے والے وہ تمام آزاد امیدوار جنھیں تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کے لیے مال تو ملا مگر وہ مقام نہیں ملا جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا وہ آزاد امیدوار بھی اس وقت کچھ بدضن سے دکھائی دیتے ہیں مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ ان لوگوں سے بھی رابطے میں ہیں اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جیسا کہ اوپر ایک ہندوستانی اور فرانسیسی لیڈر کا واقع زکر ہوا ہے کہ “ہر بات بتانے کی نہیں ہوتی “اس ملک کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب کبھی منتخب حکومتیں مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں تو ان حکومت میں شامل کچھ فصلی بٹیریں بھی اپنا سائبان بدل لیتے ہیں،ایسے موقوں پر جب بھی کوئی فیصلہ کرنے کا وقت آتا ہے تو ایسے لوگ اپنی آنکھیں اور نیتیں بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ، گزشتہ عرصے سے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پاکپتن ڈی پی او کے معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانے پر نااہلی کی تلوار کو اپنے سرپر سوار کررکھاتھا اب سنا ہے کہ چیف جسٹس نے نہایت خوش اسلوبی سے اس کیس کو نمٹاتو دیاہے مگر ساتھ ہی انہوں نے وزیراعلیٰ کے معاملے میں سخت ناگواری کا تاثربھی چھوڑ دیاہے ،خود تحریک انصاف میں بھی پنجاب کے ایک وزیر اطلاعات وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ کام کرنے کی خواہش نہیں رکھتے اور وزیراعلیٰ خود بھی شاید انہیں اپنے قریب نہیں رکھنا چاہتے اسی طرح پنجاب کے سینئر وزرا بھی عثمان بزدار کے ساتھ کام کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہیں۔ کچھ یہ ہی حال مرکزبھی ہے تحریک انصاف کسی نہ کسی طرح سے اس ملک میں اپنا اقتدار بنانے میں کامیاب تو ہوچکی ہے مگر وہ اس طرح کے مرکز میں بھی چند سیٹوں کے فاصلے سے اور پنجاب میں بھی کچھ سیٹوں کے توازن سے انہیں حکومت بنانے کا موقع ملاہے ، اب یہ بتانا بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ خود اقتدار میں آئے یا انہیں لایا گیا اس تمام تر صورتحال میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ماضی میں ایسی سینکڑوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کون کس طرح سے اس ملک پر اپنی حکومتیں بناچکاہے ۔ تحریک انصاف نے کچھ سخت فیصلے مرکز میں کیئے ہیں جس کی وجہ سے عام آدمی کی حالت شدید متاثر ہوئی ہے ان سخت فیصلوں کو کرنا بھی ضروری تھا کیونکہ حکومتوں میں یہ ہوتا چلا آیا ہے کہ ملکی خساروں کو درست سمت میں ڈالنے کے لیے کچھ معاملات کا بوجھ عوام پر ڈالا جاتاہے ماضی کی حکومتیں بھی ایسا ہی کرتی رہی ہیں مگر ان حکومتوں کے حکمران یہ بھی کہتے رہے کہ معاملات جلد ہی درست ہوجائینگے مگر ہم نے دیکھا کہ وہ حکومت ہی گھر چلی گئی اور پھر اگلی حکومت نے بھی کچھ ایسا ہی حشر عوام کے ساتھ کیا ،موجودہ حکومت نے بھی اب کچھ ایسے ہی فیصلوں کو کرنے کی ٹھان رکھی ہے سننے میں آیا ہے کہ پنجاب حکومت بھی اب کچھ ایسے اقدمات اٹھانے کا سوچ رہی ہے جس سے مہنگائی بڑھنے کے ساتھ عوام کی زندگیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑسکتاہے اور یہ وہ وقت ہوگا کہ جب پنجاب میں مسلم لیگ ن بھرپور اپوزیشن کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ کو گھر بھیجنے کی سیاست کرسکتی ہے ۔اس کے علاوہ ملتان میں ایک آزاد امیدوار سے شکست کھانے والے شاہ محمود قریشی کی امنگیں پھر سے انگڑائیاں لینے لگی ہیں جب انہیں معلوم ہوا کہ ان سے جیتنے والا آزاد امیدوار جنھیں دوشناختی کارڈ کھنے کے جرم میں نااہل قرار دیدیا گیاہے کیونکہ مخدوم صاحب کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے اس کے ساتھ وہ عثمان بزدار کی حد درجہ میڈیا میں مخافت کا فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں ، لیکن ان کی اس دیرینہ خواہش کے ساتھ یہ کہنا بھی قبل ازوقت ہوگا کہ وزیراعلیٰ تو بدلے گا مگر ہوگا کس جماعت سے یہ وقت ہی بتائے گا۔

Picture of the day 09/10/2019   at Kalyam Shareef urs Mubarak in Birmingham 

Show More

Related Articles

Back to top button